حریت کانفرنس کے چیئرمین نے کہا کہ یہ جامع مسجد، میرواعظ کا دفتر اور مسلمانوں اور ان تمام لوگوں کیلئے اجتماعی غم کا باعث ہے جو اس آمرانہ اور فرقہ وارانہ نقطۂ نظر کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ حریت کانفرنس کے چیئرمین اور میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق کو ایک مرتبہ پھر سے اپنے گھر واقع نگین سرینگر میں نظربند کر دیا گیا ہے اور انہیں چوتھے ہفتے بھی جامع میں جمعہ کا خطبہ دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسے میں انجمن اوقاف جامع مسجد کے مطابق میرواعظ کو گھر پر نظربند رکھ کر سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھے گئے ایک پوسٹ پر میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق نے لکھا کہ ہر جمعہ کو مجھے من مانی طریقے سے گھر میں نظربند کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا "مجھ پر بات نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہوئے، پابندی کا مقصد وادی کے مسلم اداروں کی مرکزیت کو بھی کمزور کرنا ہے"۔ انہوں نے کہا کہ یہ جامع مسجد، میرواعظ کا دفتر اور مسلمانوں اور ان تمام لوگوں کے لئے اجتماعی غم کا باعث ہے جو اس آمرانہ اور فرقہ وارانہ نقطۂ نظر کی مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے گھر کی نظربندی کا کیس ابھی تک عدالت میں زیر التوا ہے، جہاں میں ہائی کورٹ سے ریلیف مانگ رہا ہوں، لیکن ایسے وقت میں صبر ہی ہماری واحد طاقت ہے۔

ادھر اپنے بیان میں انجمن اوقاف جامع مسجد نے اپنے سربراہ اور میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق کو مسلسل اپنی رہائش گاہ میں نظربند کرنے پر شدید افسوس اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرواعظ کو تاریخی جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکنے کا عمل بلا جواز ہے۔ انجمن اوقاف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکام کی طرف سے یہ من مانی ہے اور بلاجواز اقدام ہے۔ انجمن اوقاف نے کہا کہ میرواعظ کشمیر کو ان کے مذہبی فرائض کی ادائیگی سے روکنا اور ان کے خطبات سے مؤمنین کو مستفید ہونے سے روکنے سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ انجمن نے کہا کہ یہ ان لوگوں کے لئے پریشان کن اور مایوس کن ہے جو دور دور سے ان کی رہنمائی سننے آتے ہیں۔ انجمن نے کہا کہ اس طرح کی پابندیاں مکمل طور پر غیر ضروری اور مذہبی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انجمن اوقاف عمر فاروق نے کہا کہ اور ان

پڑھیں:

’’انصاف‘‘

نور مقدم کا مقدمہ ایک ایسی کہانی ہے جو صرف ایک لڑکی کی زندگی کے چراغ گل ہونے کی کہانی نہیں بلکہ وہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اس سماجی عدالتی اور اخلاقی بربادی کو دیکھ سکتے ہیں جس پر صدیوں سے گرد جمی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ انصاف ہوگیا۔ ہمیں کہا گیا کہ قاتل کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی ہے، لیکن اس فیصلے میں وہ ریمارکس بھی ثبت ہو چکے ہیں جو مظلوم کو کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں اور مجرم کو بالواسطہ ہی سہی ایک بگاڑ کا شکار نوجوان کہہ کرگویا معذور قرار دیتے ہیں؟

جب اس طرح کی رائے سامنے آئے کہ ’’ لڑکی کو بچنے کا موقع ملا، اسے بھاگ جانا چاہیے تھا‘‘ تو یہ کسی مجرم کو فائدہ دینے والی دلیل ہے حالانکہ ایک نہتی لڑکی، ایک نہتی عورت جب کسی جگہ قید ہوتی ہے، جب اس کے پاس بھاگنے کی راہیں مسدود کردی جاتی ہیں، جب اسے جسمانی ذہنی اور نفسیاتی اذیت دی جاتی ہے تب وہ کیسے فرار ہو سکتی ہے؟

ہم ایک ایسے سماج میں سانس لے رہے ہیں جہاں عورت کا جسم اس کی آواز اس کی مرضی اور اس کی موت تک کو مشکوک سمجھا جاتا ہے، وہ اگر چُپ رہتی ہے تو اس پر الزام ہے۔ وہ بولتی ہے تو گستاخ ٹھہرتی ہے۔ وہ عدالت جاتی ہے تو کٹہرے میں خود ہی کھڑی ہوتی ہے اور جب وہ قتل ہو جاتی ہے تو اس کے بھاگ نہ سکنے پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔

یہ ہماری ہر اس بیٹی کی پکار ہے جو اس سماج میں سانس لیتی ہے، جسے کبھی غیرت کے نام پر مارا جاتا ہے کبھی ونی کردیا جاتا ہے، کبھی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جب وہ انصاف مانگتی ہے تو اسے کردارکے آئینے میں پرکھا جاتا ہے۔ جس نظامِ عدل کو مظلوم کا سہارا ہونا چاہیے وہ اکثر و بیشتر طاقتورکا ہتھیار بن کر سامنے آتا ہے۔

ہم نے مختاراں مائی کو دیکھا، ہم نے قندیل بلوچ کی موت کو دیکھا اور ہم نے نور مقدم کا لہو بھی زمین پر بہتا دیکھا، لیکن کیا ہم نے ریاست، عدلیہ اور سماج کی جانب سے کسی اجتماعی توبہ ،کسی سچے خراج عقیدت یا کسی سنجیدہ اصلاحی قدم کو دیکھا؟ نہیں۔ کیونکہ اس نظام کی جڑوں میں وہ زہر موجود ہے جو عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ قانون جو طاقتور مرد کے سامنے جھکتا ہے، وہ ضابطے جو بااثر خاندانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں اور وہ فیصلے جو ظالم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، اس سماج کی عورت کوکبھی انصاف نہیں دے سکتے۔

پاکستان کی اشرافیہ اور خاص طور پر مرد اشرافیہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ تصاویر تو بناتی ہے، انھیں سوشل میڈیا پر فخر سے ظاہرکرتی ہے لیکن جب کسی مجرم کا تعلق اس اشرافیہ سے ہوتا ہے تو پھر یہ پورا طبقہ انصاف کی راہوں میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ بااثر امیر ملزمان کے گھر پر پولیس نہیں پہنچتی، ان کے خلاف بیانات بدل دیے جاتے ہیں اور ذہنی مریض ہونے کی جعلی گواہیاں عدالتوں میں پیش کی جاتی ہیں۔ پھر بھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انصاف اندھا ہے، سب برابر ہیں۔

کاش کہ یہ اندھا انصاف ایک لمحے کو وہ آنکھ کھولتا جو صرف عورتوں کے دکھ دیکھ سکے۔ ان کے زخموں کو محسوس کرسکے، ان کی چیخوں کو سن سکے۔ لیکن یہاں تو نظام انصاف بھی پدر سری نظام کے پروردہ ہے۔ وہ بھی وہی زبان بولتا ہے جو اس سماج کی گلی کوچوں میں عورت کے خلاف بولی جاتی ہے۔
انصاف صرف سزا دینے کا نام نہیں۔ انصاف سماجی سوچ بدلنے مظلوم کو سینے سے لگانے اور طاقتور کو کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کا نام ہے۔

ہم کب سمجھیں گے کہ عورت کے خلاف یہ جنگ صرف کسی ایک مجرم یا ایک کیس کی بات نہیں بلکہ پورے نظامِ ظلم کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے؟ یہ بغاوت ہم تبھی کامیابی سے کر سکیں گے جب ہم اپنی عدلیہ اپنے نظامِ تعلیم اپنے میڈیا اپنے گھروں اور مساجد میں عورت کو برابری کا درجہ دیں گے۔ جب ہم اس پدرسری ذہنیت کے خلاف علم بلند کریں گے جو عورت کو یا تو چادر میں لپیٹ کر دفن کرنا چاہتی ہے یا بازار میں نیلام کرنا چاہتی ہے۔

عورت کی آزادی اس کے تحفظ اور اس کی عزت کا سوال صرف انسانی حقوق کا سوال نہیں بلکہ ایک سیاسی طبقاتی اور معاشی سوال بھی ہے۔ جب تک اس ملک کی اکثریتی غریب عورتیں، غربت، جہالت اور پدرسری کی تکون میں پھنسی رہیں گی، تب تک نور مقدم جیسے کیسز آتے رہیں گے اور عدلیہ انھیں صرف سزا دے کر بری الذمہ ہو جائے گی، ان زخموں کو بھرنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا۔

ہمیں انصاف چاہیے لیکن وہ انصاف جو عورت کی خاموشی کو آواز دے اس کے آنسوؤں کو عدالتی تحریروں میں شامل کرے اور ججوں کو یہ سکھائے کہ آپ کی کرسی پر بیٹھ کر آپ کے الفاظ بھی انصاف کے ترازو میں تولے جاتے ہیں، اگر آپ کا ایک ریمارک مجرم کو تقویت دے یا مظلوم کو مزید مجرم بنا دے تو وہ ریمارک صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک سند بن جاتا ہے۔

ہمیں آپ کو اور اس پورے سماج کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا ظالم کی زبان بولنے والوں کے ساتھ۔ کیونکہ تاریخ خاموش نہیں رہتی وہ ہر لفظ کو محفوظ کرتی ہے۔
ہم تمہیں یاد رکھیں گے، ہر اُس بیٹی کو جس کے خواب اس سماج نے تاریک راہوں میں دفن کیے اور ہم لڑیں گے اس دن تک جب تک انصاف واقعی انصاف بن کر عورت کے قدم چومے گا نہ کہ اس کے زخموں پر سوالیہ نشان بنے گا۔
 

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ پنجاب کا صوبے بھر میں ڈرینز کی بحالی، انتظامات و اصلاحات کا جامع فیصلہ
  • ’’انصاف‘‘
  • اہم سیاستدان کو مسجد میں گھس کر گولیاں مار دیں
  • چمن: مسجد میں فائرنگ، جے یو آئی کے رہنما مولاناحافظ گل شدید زخمی
  • وزیر ریلوے کی زیر صدارت اہم اجلاس، ترقیاتی منصوبوں پر جامع غور و خوض
  • سہارنپور میں زیر تعمیر مسجد بلڈوزر کاراروائی کے تحت منہدم کردی گئی، عمران مسعود کا احتجاج
  • خطبہ حج کے 35 زبانوں میں ترجمے کی تیاریاں مکمل
  • وزیراعظم نے عیدالاضحیٰ کیلئے  جمعہ سے پیر چار چھٹیوں کی منظوری دیدی
  • امام خمینی کی دیومالائی شخصیت کے حوالے سے سیکرٹری انجمن علامہ سید تجمل الحسینی کا خصوصی انٹرویو
  • عمان‌حکومت نے بھی عیدالاضحیٰ پر 4 روز ہ تعطیلات کا اعلان کردیا