وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان میںدونوں ممالک میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ، مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار ،دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق

افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو اپنا تمام سامان بھی ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی، مہاجرین کی واپسی میں کوئی شکایت آئی تو فوری ازالہ کیا جائے گا، اسحق ڈار

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورہ پر کابل پہنچ گئے جہاں انکی اعلیٰ افغان حکام سے ملاقاتیں ہوئی ہیں، اس موقع پر مشترکہ امن و ترقی کا عہد کیا گیا۔نائب وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند، نائب وزیر اعظم ملا عبدالسلام حنفی، وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سمیت دیگر سے ملاقاتیں کی جس میں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون پر بات چیت ہوئی۔ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطحی تبادلوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔دونوں ممالک کے درمیان اہم مذاکرات میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ہوا اور مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ملاقات میں دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت کو مثبت ماحول میں جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔اسحاق ڈار نے کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ افغان قیادت سے سکیورٹی، تجارت اور افغان مہاجرین کی واپسی پر بات ہوئی ہے ، افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو اپنا تمام سامان بھی ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ افغان مہاجرین کی واپسی میں کوئی شکایت آئی تو فوری ازالہ کیا جائے گا، اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے اور رابطہ نمبرز بھی جاری کررہے ہیں، وزارت داخلہ اس حوالے سے 48 گھنٹوں میں نوٹیفکیشن جاری کرے گی، افغان مہاجرین کی جائیدادیں نہ خریدنے کی بات درست نہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ 30 جون کو ٹرانزٹ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم فعال ہوجائے گا جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا اور تجارتی نقل و حمل میں تیزی آئے گی، خطے کی ترقی کیلئے افغانستان کے ساتھ ملکر کام کریں گے ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے جبکہ پاکستان کی سرزمین بھی افغانستان کیخلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ہمیں خطے کے امن اور ترقی کیلئے ملکر کام کرنا ہے ۔قبل ازیں ہوائی اڈے پر افغان ڈپٹی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد نعیم وردگ، ڈی جی وزارت خارجہ مفتی نور احمد، چیف آف اسٹیٹ پروٹوکول فیصل جلالی نے اسحاق ڈار کا استقبال کیا۔اس موقع پر افغانستان میں پاکستان کے ہیڈ آف مشن سفیر عبید الرحمان نظامانی اور سفارتخانے کے افسران بھی موجود تھے ۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اسحاق ڈار کے ہمراہ وفد میں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری ریلوے ، وزارت خارجہ اور ایف بی آر کے سینئر افسران شامل ہیں۔دورے کے دوران نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار افغان قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سمیت عبوری افغان حکام سے اہم ملاقاتیں کریں گے ۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کریں گے ۔ مذاکرات میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ دورے کے دوران باہمی مفادات کے تمام شعبوں بشمول سیکیورٹی، تجارت، رابطے اور عوام سے عوام کے تعلقات میں تعاون کو گہرا کرنے کے طریقوں اور ذرائع پر توجہ دی جائے گی۔نائب وزیراعظم کا یہ دورہ پاکستان کی جانب سے برادر ملک افغانستان کے ساتھ مستقل اور مضبوط روابط کے عزم کا مظہر ہے ۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا دور

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں جو افغان سرزمین سے آنے والے خوارج کی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان قیادت کو بارہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت وعدوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں سے آگے عملی طور پر دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ادھر پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جو روسی مداخلت کے بعد کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپس بھیجنا شروع کر دیا تو طالبان قیادت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کابل دورے کی دعوت دی تاکہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کے قیام کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔

 اس پس منظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے ایک روزہ سرکاری دورے پرکابل گئے جہاں انھوں نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے تفصیلی مذاکرات کیے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کے افغانستان سے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو افغان حکومت کے سامنے رکھا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد اس بات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ سطح پر روابط برقرار رکھے جائیں گے۔

علاوہ ازیں مختلف شعبوں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ طے ہوئی کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو دونوں ممالک مشترکہ طور پر فوری کارروائی کریں گے۔ افغان حکومت اس سے قبل بھی وعدہ وعید سے کام لیتی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے گی۔

پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کے اہم ملک شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور دیرینہ تاریخی، تہذیبی اور مذہبی روابط بھی قائم ہیں۔ محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور ظہیرالدین بابر دونوں کے مشترکہ ہیروز ہیں۔ اس قدر طویل اور مضبوط تاریخی و تہذیبی مشترکہ اقدار کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی و تعاون کے جذبوں کے فروغ پانے کی بجائے تعلقات میں سردمہری، عدم تعاون،کشیدگی، نفرت، عداوت اور دشمنی جیسے رویوں کا پروان چڑھنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی دشمنی کا پہلا اظہار اقوام متحدہ میں 30 ستمبر 1947 کے اجلاس میں کیا گیا۔ جب افغان مندوب حسین عزیز نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے ضمن میں واحد مخالف ووٹ ڈالا۔ تاہم پاکستان تلخیوں کو پس پشت ڈال کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پالیسی پر اخلاص نیت کے ساتھ کاربند رہا۔ اسی باعث جب دسمبر 1979 میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں برسر اقتدار حفیظ اللہ امین حکومت کا خاتمہ کر کے کابل کے تخت پر ماسکو کی پسند کا آدمی حکمران بنا دیا گیا۔ روسی ہوائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

برادر اسلامی ملک اور دیرینہ رشتوں کے احترام میں پاکستان نے کشادہ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کی میزبانی کو صدق دل سے قبول کیا۔ آج بھی جو افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو نقصانات ہو رہے ہیں، حکومت انھیں خوش دلی سے برداشت کر رہی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین کا استعمال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کی سلامتی و بقا ہر شے پر مقدم ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پاک افغان تازہ معاہدے پر اخلاص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے ہر صورت روکے گی، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی جیسے خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • غزہ میں فلسطینیوں کیخلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، ترکیہ
  • اسحاق ڈار سے ازبک وزیرِ خارجہ کا ٹیلی فونک رابطہ، ریل لائن منصوبے پر گفتگو
  • پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی کسی کو جرات نہیں ہونی چاہئے، اسحاق ڈار
  • بھارت کے ہر اقدام کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا: نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار
  • خیبر پختونخوا اسمبلی، افغان مہاجرین کی واپسی مدت میں توسیع کی قرارداد منظور
  • پشاور: افغان مہاجرین کی واپسی مدت میں توسیع کی قرارداد منظور، افغان پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ
  • کئی  سمجھوتے : سرمایہ کاری بڑھانا چاہتے ہیں : امارتی وزیر خارجہ : شہباز شریف ‘ جنرلعاصم منیر اسحاق سے ڈار ملاقاتیں 
  • اسحاق ڈار کا دورہ خوش آئند، افغانستان اکیلے جانا کسی کے حق میں نہیں: گنڈا پور