48 گھنٹوں میں گندم کی فصلوں میں آگ لگنے کے 164 واقعات رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
اسرار خان : 48 گھنٹوں کے دوران گندم کی فصلوں میں آگ لگنے کے 164 واقعات رپورٹ ہوئے
سیکرٹری ایمرجنسی سروسز ڈاکٹر رضوان نصیر نے آتشزدگی کے حادثات پر اظہار تشویش کیا ،ڈاکٹر رضوان نصیر نے کہا گندم کی فصل کوآگ لگنے کے واقعات میں ننکانہ صاحب 20 حادثات کیساتھ سر فہرست رہا ، شیخوپورہ میں 16، ڈی جی خان میں 12واقعات رپورٹ ہوئے، حافظ آباد میں 11 ،میانوالی میں 9، خانیوال میں 5واقعات رپورٹ ہوئے،دیگر اضلاع میں فصلوں میں آتشزدگی کے 95 حادثات پر امداد دی گئی،فصلوں میں آگ کے 164 حادثات کے نتیجے میں 750 ایکٹر رقبہ متاثر ہوا، بروقت رسپانس سے ہزاروں ایکڑ گندم کے کھیتوں کو محفوظ بنایا گیا، آگ کی صورت میں فصل میں ٹریکٹر سے ہل چلاکر پانی چھوڑ دیں،
کھیتوں میں آگ لگنے کی صورت میں 1122 پر فوری کال کریں،
ہر وقت پیاس؛ سنگین مرض کی نشانی
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
ٹریفک کنٹرول میں ناکامی سے حادثات کی خوفناک شرح ٹریکس نظام کے نفاذ کی اہم وجہ قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں اور اسے کنٹرول کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں رونما ہونے والے حادثات ایک سنگین انسانی المیہ بن چکے ہیں۔
ریسکیو اداروں کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اب تک ٹریفک حادثات کے باعث تقریباً 715 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں 552 مرد، 72 خواتین اور 91 بچے و بچیاں شامل ہیں۔ اسی عرصے کے دوران 10 ہزار 500 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
اس ڈیٹا کی سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ زیادہ تر اموات ہیوی ٹریفک کے سبب ہوئیں۔ صرف 303 دنوں میں ڈمپر، ٹریلر، واٹر ٹینکر اور بسوں کی ٹکر سے 210 افراد اپنی جان گنوا بیٹھے۔
یہ خوفناک اعداد و شمار ہی حکومت سندھ کی جانب سے ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی ناکامی ثابت کرتے ہیں اور اس نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے قوانین کی خلاف ورزی روکنے کے نام پر ٹریکس نظام کو عجلت میں نافذ کیا گیا ہے۔
صوبائی حکومت اور پولیس کی کی جانب سے ٹریکس کو ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کروانے کا ایک کامیاب منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نظام کو پہلے ہیوی ٹریفک کے مخصوص روٹس پر لاگو کیا جانا چاہیے تھا تاکہ فوری طور پر اموات کی شرح کو کم کیا جا سکے۔
اسی طرح دوسرے مرحلے یعنی عام شہریوں پر اس کے نفاذ سے قبل شہر کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر کیا جانا ضروری تھا۔