آر ڈی اے نے کلر روڈ روات پر سیور فوڈز کے گودام کو سر بمہر کر دیا، گرینڈ آپریشنز جاری رہے گا:ڈی جی کنزہ مرتضی
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
آر ڈی اے نے کلر روڈ روات پر سیور فوڈز کے گودام کو سر بمہر کر دیا، گرینڈ آپریشنز جاری رہے گا:ڈی جی کنزہ مرتضی WhatsAppFacebookTwitter 0 21 April, 2025 سب نیوز
راولپنڈی (سب نیوز )آر ڈی اے نے کلر روڈ روات پر سیور فوڈز کے گودام کو سر بمہر کر دیا،ڈی جی آر ڈی اے کنزہ مرتضی کے مطابق آر ڈی اے کے گرینڈ آپریشنز جاری ہیں ، کارروائی زمین کے استعمال اور تعمیراتی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے کی گئی۔ پورے شہر میں زوننگ اور ریگولیٹری فریم ورک کی سختی سے تعمیل کو یقینی بنایا جا رہا گودام مناسب منظوریوں کے بغیر کام کر رہا تھا اور موجودہ زوننگ کے ضوابط کی صریح خلاف ورزی کر رہا تھا۔
آر ڈی اے شہر کی ترقی میں قانون کی بالادستی اور نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔تمام تجارتی اداروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ قانونی تقاضوں پر سختی سے عمل کریں یہ فیصلہ کن اقدام غیر مجاز تجارتی سرگرمیوں اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کو واضح کرتا ہے ، یہ کارروائی وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی براہ راست ہدایات پر عمل میں لائی گئی ، آپریشن آر ڈی اے کے بلڈنگ سپرنٹنڈنٹ شفیق الرحمان، بلڈنگ انسپکٹرز شہزاد محمود، عاصم نواز، بلڈنگ سرویئر عامر محمود ملک اور آر ڈی اے کے دیگرعملے نے کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبررواں سال کے پہلے تین مہینوں میں 151 ہزار سے زائد مزدور خلیجی ممالک گئے رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں 151 ہزار سے زائد مزدور خلیجی ممالک گئے وزیراعظم شہباز شریف دو روزہ دورے پر ترکیہ روانہ ہوں گے راشد لطیف نے 90 کی دہائی میں ٹیم میں ہونیوالی بغاوت سے پردہ اٹھادیا پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات بلند ترین سطح پر ،جولائی 2024 تامارچ 2025 ایک سال میں 9.38 فیصد اضافہ ہوا پوپ فرانسس کے انتقال کے بعد ویٹیکن میں کیا کچھ ہوگا اور نئے پوپ کا انتخاب کیسے کیا جائے گا؟ رانا ثنا ء کا ایک بار پھر شرجیل میمن سے رابطہ، پانی کے مسئلے پر مشاورت آگے بڑھانے پر اتفاق
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: آر ڈی اے
پڑھیں:
بجٹ 26-2025: فری لانسرز کے حکومت سے کیا مطالبات ہیں؟
پاکستان کا مالی سال 2025-26 کا بجٹ جلد پیش کیا جانے والا ہے، اور اس حوالے سے حکومتی سطح پر تیاریاں عروج پر ہیں، ملک بھر کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی نظریں اس بجٹ پر یہ دیکھنے کے لیے مرکوز ہیں کہ آنے والے مالی سال میں انہیں کن سہولتوں یا ممکنہ مشکلات کا سامنا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق حکومت اس بار بجٹ میں فری لانسرز اور سوشل میڈیا کونٹینٹ کریئیٹرز، بالخصوص ٹک ٹاکرز پر بھی ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے، اس سلسلے میں فری لانسرز کا مؤقف یہ ہے کہ وہ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں مگر نظام کو شفاف اور آسان بنایا جائے۔
فری لانسرز سمجھتے ہیں کہ شفاف ٹیکس پالیسی سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوگا، مگر دوسری جانب ان کے حکومت سے اس بجٹ میں کچھ مطالبات بھی ہیں، آئیے جانتے ہیں وہ مطالبات کیا ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فری لانسرز کو درپیش رقم منتقلی کے مسائل، کیا پے پال سے معاہدہ سود مند ثابت ہوگا؟
ایک دہائی سے زائد تجربہ کار فری لانسر طاہر عمر نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل اکانومی، خاص طور پر فری لانسرز، ملکی معیشت کا قیمتی اثاثہ ہیں لیکن بدقسمتی سے، حکومتی پالیسیوں اور بینکنگ نظام کی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔
’فری لانسرز کے لیے ٹیکس نظام کو آسان اور شفاف بنانا ازحد ضروری ہے، موجودہ صورتحال میں ٹیکس فائلنگ کا عمل اس قدر پیچیدہ اور غیر واضح ہے کہ اکثر فری لانسرز گھبرا کر اپنی آمدنی بیرون ممالک رکھنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔‘
طاہر عمر کے مطابق ہر سال بجٹ سے قبل فری لانسرز کو غیر یقینی صورتحال اور حکومتی اقدامات سے ڈرایا جاتا ہے، جس سے اعتماد کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں پے پال سروس شروع کرنے کے لیے حکومت کیا کوشش کررہی ہے؟
طاہر عمر کا کہنا تھا کہ اسی بے اعتمادی کے نتیجے میں بہت سے فری لانسرز ’ڈیجیٹل نومیڈ ویزا‘ حاصل کرکے صرف ضرورت کی رقم ہی پاکستان لاتے ہیں اور باقی آمدن انہی ممالک میں رکھتے ہیں جہاں انہیں فری لانسنگ کے لیے بہتر سہولیات اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
پاکستانی بینکس بھی فری لانسرز کے لیے سازگار ماحول فراہم نہیں کرتے، اگرچہ بعض بینکوں نے فری لانسرز کے لیے مخصوص سہولیات متعارف کروائی ہیں، مگر حقیقت میں ایک نئے فری لانسر کو بینک اکاؤنٹ کھولنے اور لین دین کے لیے کئی غیر ضروری سوالات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کا سرٹیفکیٹ ہونے کے باوجود بھی، یہ رویہ اعتماد کو مزید کمزور کرتا ہے۔
ٹیکسوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ظاہر عمر نے کہا کہ فری لانسرز کو انٹرنیشنل ادائیگیوں پر متعدد ٹیکسز کا سامنا ہے، جیسے انٹرنیشنل ٹرانزیکشن فیس، ایڈوانس انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کرنسی کنورژن چارجز وغیرہ، جو مجموعی طور پر ادائیگی پر 25 فیصد یا اس سے بھی زیادہ بوجھ ڈال دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پے اونیئر نے پاکستانی صارفین کے لیے منی ٹرانسفر فیس دگنی کردی
’مثال کے طور پر اگر ایک فری لانسر فیس بک پر اشتہار چلانا چاہے تو اس کو اصل رقم سے کہیں زائد ادا کرنا پڑتی ہے، جبکہ یہی ادائیگی اگر کسی ورچوئل کارڈ یا پےاوئینیر کے ذریعے کی جائے تو وہ خاصی کم لاگت پر ممکن ہوتی ہے۔‘
آن لائن ادائیگیوں کے حوالے سے طاہر عمر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فی الحال پے اونیئر واحد دستیاب آپشن ہے، جو اپنے چارجز میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے، حکومت کو چاہیے کہ یا تو اسے کنٹرول کرے یا متبادل پلیٹ فارمز کو مارکیٹ میں لانے کے اقدامات کرے تاکہ صحت مند مقابلہ ممکن ہو اور صارفین کو ریلیف ملے۔
’انفرادی طور پر کام کرنے والے فری لانسرز کو انفرادی اسمال میڈیم انٹرپرائز کا درجہ دیا جانا چاہیے، اس سے وہ مختلف گرانٹس، سبسڈیز، اور کاروباری قرضوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے، جس سے نہ صرف ان کی ترقی ممکن ہوگی بلکہ ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔‘
مزید پڑھیں: کیا پاکستان میں پے پال لانچ ہونے والا ہے؟
راولپنڈی سے تعق رکھنے والے فری لانسر زین العابدین کے مطابق دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں پےپال ادائیگی کا ایک مقبول ترین ذریعہ ہے مگر پاکستان جیسے 220 ملین آبادی والے ملک میں ادائیگی کے اس پلیٹ فارم کی عدم دستیابی ایک افسوسناک پہلو ہے۔
’پے پال کی غیر موجودگی کی وجہ سے پاکستانی فری لانسرز کو ادائیگیوں کو وصول کرنے میں دشواری ہوتی ہے، کلائنٹس کے اعتماد میں کمی آتی ہے، متبادل سروسز پر زیادہ چارجز برداشت کرنا پڑتے ہیں اور اکثر قیمتی کلائنٹس صرف پے پال نہ ہونے کی وجہ سے معاہدہ منسوخ کر دیتے ہیں۔‘
زین العابدین نے حکومت کو سنجیدگی سے پے پال سے مذاکرات کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات کے ذریعے پے پال کو پاکستان میں اپنی خدمات فراہم کرنے کا موقع دیا جائے اور اس سلسلے میں اگر کوئی ریگولیٹری یا بینکنگ رکاوٹیں ہیں تو انہیں ہنگامی بنیادوں پر دور کیا جائے۔
مزید پڑھیں: ڈیجیٹل اسکلز ٹریننگ سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 2.8 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے، گوگل
زین العابدین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے فری لانسرز سالانہ اربوں روپے کا زرِمبادلہ ملک میں لا رہے ہیں مگر حکومتی سطح پر ان کی فلاح کے لیے کوئی خاص مستقل اور مؤثر اسکیم موجود نہیں ہے، مثلاً بلا سود یا کم شرح سود پر قرضے، ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے سبسڈی، اور سافٹ ویئر یا آلات کے لیے حکومتی تعاون۔
’حکومت کو چاہیئے کہ کو ورکنگ اسپیسز جیسے اقدامات کی طرز پر فری لانسرز کی سہولت کے لیے مزید اقدامات کرے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔‘
اگر حکومت واقعی ڈیجیٹل اکانومی کو فروغ دینے کی خواہاں ہے تو اسے فری لانسرز کے لیے ٹیکس، بینکنگ اور بین الاقوامی لین دین کو سہل، شفاف اور دوستانہ بنانا ہوگا کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو کم سرمائے اور حکومتی مدد کے بغیر لاکھوں ڈالر سالانہ پاکستان لا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسمال میڈیم انٹرپرائز آن لائن بجٹ پے اونیئر پے پال ٹک ٹاکرز ٹیکس ڈیجیٹل اکانومی زین العابدین سوشل میڈیا طاہر عمر فری لانسر کونٹینٹ کریئیٹرز لین دین