اےکابل وقندھار کےمیرے اپنےلوگو !
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
جب نفرتوں کے زخم ناسور بن جائیں اور سرحد کے آر پار صدیوں کی محبت بداعتمادی بن کر سانسوں کو بوجھل کردے، دوست رنجیدہ اور دشمن شاد کام ہوجائے تو ، کسی کو ایک قدم اٹھانا پڑتا ہے ، چھوٹا سا بے معنی سا قدم،ایک نرم لہجہ، ایک مصافحہ، ایک مسکراہٹ جوکسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ اسحاق ڈار کا حالیہ دورہ کابل بھی ایسا ہی ایک نازک، مگر حوصلہ افزا قدم تھا، ایک ایسا لمحہ جس نے نفرت کی برف میں پہلی دراڑ ڈالی، اور ایک ایسی شمع روشن کی جو شاید دونوں قوموں کے درمیان اعتماد کی ایک نئی صبح کا آغاز بن سکے ، لیکن یہ قدم صرف ایک اسحاق ڈار کا نہیں تھا ، اس میں متقی بھی شریک ہے جس نے بانہیں کھول کر استقبال کیا ، مولوی نورالدین عزیزی تو اصل ہیرو ہے ، جس نے پس پردہ اس قدم کو ممکن بنایا اور پھر خود ہی پیش قدمی بھی کی ۔
یہ دورہ محض ایک سفارتی تقاضا نہیں تھا، بلکہ ایک جذباتی، انسانی اور علاقائی ضرورت تھی۔ ڈار اور طالبان قیادت کا لب ولہجہ، طرزِ گفتگو، اور باہمی بات چیت میں جو نرمی اور خلوص نظر آیا، اس نے دکھایا کہ نیت صاف ہو تو راستے بھی نکل آتے ہیں۔ طالبان قیادت کا مثبت رویہ اس بات کا عکاس تھا کہ وہ بھی اس خاردار راستے پر قدم رکھنے کو تیار ہیں جہاں لفظوں کی بارش بےشک ہو ، گلے شکوے زورو شور سے کئے جائیں ، اپنے اپنے حق کی جنگ دلیلوں سے لڑی جائے، گولیوں کی نہیں، لیکن کیا سفر تمام ہوا ؟ مسئلہ حل ہوگیا؟ دودھ اور شہد کی نہری بہہ نکلیں ؟ نہیں ۔ قطعا ً ابھی صرف درست سمت میں پہلا قدم اٹھا ہے ، تنے ہوئے ابرو جھکے ہیں اور لبوں پر مسکراہٹ کے پھول کھلے ہیں۔ سمجھنا ہوگا ،جذباتی ہوئے بغیر ، توقعات کے محل کھڑے کئے بغیر ،ادراک کرنا ہوگا کہ یہ سفر ایک دن، ایک ملاقات یا ایک معاہدے سے مکمل نہیں ہوتا۔ نفرت کی زمین میں محبت کا بیج بویا گیا ہے، مگر اس بیج کو پھلدار درخت بننے میں وقت لگے گا،اس کی مسلسل آبیاری کرنا پڑے گی ، حفاظت کرنی ہوگی، صبر کا دامن تھامنا ہوگا، برداشت کی چادر اوڑھنی ہوگی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی تاریخ اتار چڑھاؤ سے بھری ہے۔ ہر نئی کوشش، ہر نیا معاہدہ، ایک نئی امید تو جگاتا ہے، مگر ساتھ ہی پرانے زخموں کا درد بھی تازہ کر دیتا ہے۔ اس پس منظر میں اسحاق ڈار کا دورہ کابل ایک نئی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے،ایک ایسی سوچ جو سرحدوں کے آر پار بسنے والے انسانوں کے دکھ سکھ کو محسوس کرتی ہے، جو یہ جانتی ہے کہ جب ایک طرف آگ لگی ہو تو دوسری طرف خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماضی کے فیصلوں، غلطیوں، اورمداخلتوں سے اس خطے نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ اب اگر کوئی ہاتھ بڑھا ہے، اگر محبت کا کوئی لفظ ہوا میں لرز رہا ہے، تو ہمیں اسے سمیٹنا ہوگا، اس کے گرد تحفظ کا حصار بنانا ہوگا۔لیکن یہ سفر آسان نہیں، راستے میں دشمن کے بوئے ہوئے کانٹے ہیں ،گلے شکوے ہیں، بدگمانیاں ہیں ، مگر صرف تین سال پیچھے چالیس برس کی یک جہتی ، محبت ، الفت ، یگانگت اور اعتماد کااک سمندر بھی ہے ، جب پاکستان نے اپنے لٹے پٹے جنگ زدہ افغان بھائیوں کو اپنے وسائل میں شریک کیا تھا ، اب تک یہ رشتہ قائم ہے ، سانس لے رہا ہے ، جب پاکستان اور افغانستان کے مجاہدین شانہ بشانہ سودو زیاں کا حساب کئے بغیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر میدان کارزار میں اترے تھے ، مسلسل چالیس برس کی یہ قربت ابھی پرانی تو نہیں ہوئی ، لہو کا رنگ پھیکا تو نہیں پڑا ، وہی لہو پنجاب کے کسی محمد اسلم نے قندھار کے کسی محبت خان کی جان بچاتے ہوئے پیش کیا تھا ، وہی لہو جو نگر ہار کے کسی طالب خان نے کراچی کے کسی عبدالرحمٰن کی طرف آتی گولی کو اپنے سینے پر لیتے ہوئے دان کیاتھا ، وہ لہو جو میرے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، گلگت بلتستان ، کشمیر اور خیبر پختون کے نوجوانوں نے قندھار ، کابل ، ننگر ہار پکتیا، خوست کی مائوں بہنوں کی عزت اور آزادی کے لئے افغان بھائیوں کےشانہ بشانہ بہایا تھا ، ابھی ان تکبیروں کی گونج فضا میں باقی ہے ، جو ہم نے مل کر دشمن کے خلاف بلند کی تھیں ، نفرت کی دیوار تو دشمن نے اب اٹھائی ہے ہمارا رشتہ تو اس سے بہت گہرا ہے ، خون کا رشتہ جو ایک دوسرے کے دفاع میں زمیں کو سیراب کرگیا ،آمو سے طورخم تک کس طرح ایک دوسرے سے الگ کریں گے۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے کسی
پڑھیں:
آئی پی ایل میں معروف کمنٹیٹرز کو تنقیدی تجزیہ پیش کرنا مہنگا پڑ گیا
بھارتی کرکٹ بورڈ نے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے رواں سیزن میں ایڈن گارڈنز میں کھیلے جانے والے باقی میچز میں مشہور کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے اور سائمن ڈول کو کمنٹری پینل سے ہٹا دیا۔
دونوں مبصروں نے پچ کیوریٹرز کےحوالے سے خیالات کا اظہار کیا تھا جن سے ناراض ہوتے ہوئے کرکٹ ایسوسی ایشن بنگال کے سیکریٹری نریش اوجھا نے تقریباً 10 روز قبل ایڈن گارڈنز میں کھیلے جانے والے آئندہ میچز میں ہارشا بھوگلے اور سائمن ڈول کو کمنٹری پینل سے ہٹانے کی درخواست کی تھی۔
کرک بز سے گفتگو کرتے ہوئے سائمن ڈول کا کہنا تھا کہ اگر اجنکیا رہانے کی ٹیم (کولکتہ نائٹ رائڈرز) کو ایڈن گارڈنز کے کیوریٹرز کی جانب سے سپورٹ نہیں مل رہی تو ان کو نیا ہوم گراؤنڈ ڈھونڈنا چاہیئے۔
جبکہ ہارشا بھوگلے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کولکتہ نائٹ رائڈرز گھر پر کھیل رہی ہے تو ان کو وہ ٹریک ملنے چاہیئں جس کے متعلق ٹیم کا خیال ہے کہ ان کے بولرز کے لیے مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیر کے روز کولکتہ نائٹ رائیڈرز اور گجرات ٹائٹنز کے میچ کے دوران دونوں کمنٹیٹرز موجود نہیں تھے۔
ہارشا بھوگلے کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ انہیں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے کسی بھی میچ کے لیے تعین نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم، اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکی کہ کمنٹری روسٹر ایسوسی ایشن کی باضابطہ شکایت کے بعد ترتیب دیا گیا یا پہلے۔