Express News:
2025-09-17@21:33:48 GMT

مدد کے کلچر کا فقدان

اشاعت کی تاریخ: 16th, September 2025 GMT

پاکستان میں سیلاب ابھی جاری ہے۔ لیکن وسطی پنجاب سے پانی نکل کر اب سندھ پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔ بلکہ وسطیٰ پنجاب کے علاقوں سے پانی اترنا شروع ہو گیا ہے۔ آیندہ چند دنوں میں لوگ اپنے گھروں میں واپس جانا شروع ہو جائیں گے۔ بلکہ کچھ علاقوں میں لوگ واپس اپنے گھروں میں جانا شروع ہو گئے ہیں، جہاں تباہی ہو چکی ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم اس تباہی پر بات کریں۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ سیلاب صرف پاکستان میں نہیں آیا۔ سیلاب بھارتی پنجاب میں بھی آیا ہے۔ بھارت نے کوئی پانی پاکستان کی سرحد پر لاکر نہیں چھوڑ دیا۔ پانی نے بھارتی پنجاب میں بھی خوب تباہی مچائی ہے۔ ایک محتاط اعداد و شمار کے مطابق بھارتی پنجاب کے 23اضلاع سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ان 23اضلاع میں بیس لاکھ سے زائد لو گ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔

2050گاؤں بھارتی پنجاب میں سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ چار لاکھ سے زائد لوگوں کو گھروں سے نکال کر محفوظ پناہ گاہوں میں پہنچایا گیا ہے۔ پونے دو لاکھ ایکڑ سے زائد زیر کاشت رقبہ تباہ ہوا ہے۔ جہاں کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوئی ہیں اور پانی کھڑا ہے۔ اڑھائی لاکھ جانور مر گئے ہیں۔ چھ لاکھ پولٹری کی مرغیاں مر گئی ہیں۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارتی پنجاب میں کم تباہی نہیں ہوئی ہے، وہاں سیلاب نے خوب تباہی مچائی ہے۔

لیکن ایک فرق کھل کر سامنے آیا ہے۔ بھارت میں لوگ دوسروں کی مدد کے لیے سامنے آئے ہیں۔ وہاں کے اسٹارز مدد کے لیے سامنے آئے ہیں، کاروباری لوگ مدد کے لیے سامنے آئے ہیں۔ لو گ دیہاتوں کے دیہات اپنے ذمے لے رہے ہیں کہ ان کا نقصان پورا کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے سامنے آرہے ہیں۔ ہم شائد اب پابندیوں کی وجہ سے یہاں بھارت کی خبریں کم دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو بھارتی پنجاب کے ریلیف کے کام دیکھنے کا موقع ملے تو وہاں لوگ متاثرین کی بہت مدد کر رہے ہیں۔ بڑے کاروباری ادارے مدد کے لیے سامنے آئے ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ مجھے پاکستان میں یہ کلچر بہت کم نظر آیا ہے۔ یہاں لوگ حکومتوں سے گلہ کر رہے ہیں لیکن خود کچھ نہیں کر رہے ۔ پاکستان میں بھی بہت بڑے بڑے گلوکار ہیں جو ایک ایک کنسرٹ کا کروڑوں روپے چارج کرتے ہیں لیکن وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ ہمارے کھلاڑی ارب پتی ہیں لیکن وہ بھی کچھ نہیں کر رہے۔ پاکستان میں بھی کوئی کم امیر لوگ نہیں ہیں۔

یہاں بھی بھارت سے زیادہ امیر لوگ موجود ہیں لیکن وہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے سامنے نہیں آئے۔ پاکستان کا کارپوریٹ کلچر بھی سامنے نہیں آیا۔ وہ پاکستان سے اربوں روپے کماتا تو ہے لیکن پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ مجھے پاکستان میں لوگوں کی مدد کا کلچر کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔

یہ تو بہت سننے کو ملتا ہے کہ ہمیں عالمی دنیا سے مدد مانگنی چاہیے۔ ایسے مشورے تو بہت سننے کو ملتے ہیں کہ ہمیں عالمی دنیا سے چندہ مانگنا چاہیے، اپنی مظلومیت کا رونا رونا چاہیے، اقوام عالم سے مدد مانگنی چاہیے، سیلاب کے لیے بڑے پیمانے پر دنیا میں فنڈ ریزنگ کرنی چاہیے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ پاکستان میں تو لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے نکلیں پھر دنیا سے بھی مدد مانگ لیں گے۔ چندہ مانگنے چلے جائیں، اپنی جیب سے ایک روپیہ نہ نکالیں۔

سب سے پہلے پاکستانیوں کو پاکستانیوں کی مدد کے لیے نکلنا چاہیے، اگر ہر کوشش کے بعد ہم نقصان پورا نہ کر سکیں تو باہر سے مدد مانگنی چاہیے۔ کیا پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی ہے جو دس دس دیہات اپنے ذمے نہیں لے سکتے۔ کیا پاکستان میں ایسے کاروباری اداروں کی کمی ہے جو ایک نہیں درجنوں دیہات کی بحالی کا کام اپنے ذمے لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں تو ایسے امیر لوگوں کی کمی نہیں ہیے جو لوگوں کا نقصان پورا کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ بھی چندہ مانگنے کی بات کرتے ہیں۔ جن کو خود سب کچھ کرنا چاہیے وہ بھی باہر سے مانگنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے ۔

پاکستان میں کس شہر کے چیمبر نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کام شروع کیا ہے۔ کسی نے نہیں۔ آپ ان کے عہدیداروں سے سیاسی پریس کانفرنسیں کروا لیں، ٹیکس کے خلاف اتحاد بنوا لیں، حکومت کے خلاف اتحاد بنوا لیں۔ لیکن پاکستانیوں کی مدد کے لیے نہ کہیں۔ اگر ہر چیمبر اپنے ایک ایک رکن پر ایک گاؤں کی بحالی کی ذمے داری بھی ڈالے تو کیا ہمیں کسی سے مدد مانگنے کی ضرورت رہے، ہرگز نہ رہے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ وہ عوام سے چندہ مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔

بڑے کاروباری ادارے دیکھ لیں۔ سب کی ایک جیسی صورتحال ہے۔ ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں کوئی سیلاب آیا ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے ٹیکس کے خلاف تو متحد ہو جاتے ہیں لیکن لوگوں کی مدد کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے۔ میں بھی کیا گلہ کر رہا ہوں جو ملک کو ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں، وہ سیلاب ز دگان کی کیا مدد کریں گے۔ شائد ان میں اب یہ جذبہ ہی ختم ہو گیا ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ حکومت کو چندہ دیں، بھائی خود جاکر مدد کریں، اپنے پیسوں سے خود مدد کریں۔ جائیں لوگوں کے گھر بنانے شروع کریں۔ جائیں لوگوں میں جانور تقسیم کریں۔ جائیں لوگوں کو ان کے کھیت دوبارہ قابل کاشت بنانے میں مدد کریں۔ لوگوں کے گھروں کی تمام اشیا بہہ گئی ہیں۔ لوگوں کو نئی اشیا کی ضرورت ہے، جائیں لوگوں کی براہ را ست مدد کریں۔ ایک ایسا کلچر بنائیں کہ لوگ کہیں کہ ہمیں اب مدد کی ضرورت نہیں۔ ہمارا نقصان پورا ہو گیا ہے۔ ہر شہر کا چیمبر اپنے علاقے کا ذمے لے۔ یہ کوئی ناممکن کام نہیں، صرف ایک جذبہ کی ضروت ہے جو نظر نہیں آرہا۔

یہ حقیقت ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبہ کی کمی ہورہی ہے۔ امیر کو غریب کی کوئی فکر نہیں، امیر کو اپنی دولت کی فکر ہے۔ یہ کسی بھی قوم کی کوئی اچھی پہچان نہیں۔ دنیا میں کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری پہچان بھکاریوں کی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ ہمارے ملک کے لوگوں پر ویزہ اس لیے بند کر رہے ہیں کہ ہمارے بھکاری وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے پاکستان سے مانگنے کا کلچر ختم کرنا ہوگا۔ اپنی مدد آپ کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ مدد مانگنے کا کلچر کوئی اچھی پہچان نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مدد کے لیے سامنے ا ئے ہیں بھارتی پنجاب میں کی مدد کے لیے لوگوں کی مدد پاکستان میں جائیں لوگوں نقصان پورا ہو گیا ہے سیلاب سے ہیں لیکن شروع ہو میں لوگ میں بھی رہے ہیں لیکن وہ ہیں کہ کر رہے نہیں ا

پڑھیں:

’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!

کیا صرف چند معیاری سوالات آپ کو دوسروں کے قریب لا سکتے ہیں؟ نیدرلینڈز کی یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم کے ماہرین نفسیات نے ایسا ہی ایک تجربہ کیا جس نے حیران کن نتائج دیے۔

یہ بھی پڑھیں: اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہر نفسیات ایڈی برومیل مین اور ان کی ٹیم نے 8 سے 13 سال کی عمر کے بچوں اور ان کے والدین پر ایک تجربہ کیا جس میں والدین نے اپنے بچوں سے صرف 14 سوالات پوچھے۔ یہ سوالات عام گفتگو سے ہٹ کر، ذاتی تجربات اور جذبات سے متعلق تھے۔

مثال کے طور پر اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک جا سکتے تو کہاں جاتے اور کیوں؟ اب تک کا سب سے عجیب تجربہ کیا رہا؟ آپ آخری بار کب تنہا محسوس ہوئے اور کیوں؟

9 منٹ کی گفتگو

اس مختصر بات چیت کے بعد بچوں سے سوالنامہ پر کروایا گیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ وہ اپنے والدین سے کتنا پیار محسوس کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: آوازیں سننا ذہنی بیماری یا روحانی رابطہ؟

صرف 9 منٹ کی گفتگو کے بعد بچوں نے والدین کی محبت اور سپورٹ کا زیادہ احساس ظاہر کیا۔ یعنی گہرے سوالات، گہرے رشتے پیدا کرتے ہیں۔

فااسٹ فرینڈز پروسیجر

یہ تکنیک اصل میں ’فاسٹ فرینڈز پروسیجر‘ کہلاتی ہے جسے پہلی بار سنہ 1990 کی دہائی میں ماہر نفسیات آرتھر آرن نے تیار کیا تھا۔ اس میں 2 افراد ایک دوسرے سے گہرے اور ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھتے ہیں جیسے کہ آپ کا ایک مثالی دن کیسا ہوگا؟ اگر آپ کو موت سے پہلے صرف ایک چیز بچانے کا موقع ملے تو وہ کیا ہوگی اور کیوں؟

مزید پڑھیں: اگر آپ کو بھی پڑوس کا شور بہت پریشان کرتا ہے تو یہ خبر آپ کے لیے ہے؟

تحقیق سے پتا چلا کہ ایسے سوالات خود انکشاف (سیلف ڈسکلوژر) کو فروغ دیتے ہیں جو انسانی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے خواہ وہ 2 اجنبی، دوست، ساتھی یا والدین و بچے ہوں۔

دماغی اثرات: بات چیت اور خوشی کے کیمیکل

سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جب ہم دل سے بات کرتے ہیں تو ہمارا دماغ قدرتی اینڈورفنز خارج کرتا ہے وہی کیمیکل جو ہمیں خوشی، تعلق اور سکون کا احساس دیتے ہیں۔

یہی ’اوپیئڈ سسٹم‘ منشیات جیسے مورفین پر بھی ردعمل ظاہر کرتا ہے مگر یہاں بات ہے قدرتی، محفوظ اور جذباتی تعلق کی۔

ایک تجربے میں جب شرکا کو ایک دوا دے کر اینڈورفنز کے اثرات کو روکا گیا تو وہ نہ تو گفتگو میں دلچسپی لے پائے اور نہ ہی دوسرے شخص کے قریب محسوس کیا۔

 مختلف معاشرتی گروہوں میں بھی مؤثر

اس طریقے کو مختلف گروہوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ یہ طریقہ آن لائن طلبہ کے درمیان تعلقات بڑھانے کے لیے، مختلف جنسی رجحانات کے افراد کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کے لیے اور نسل، عمر یا ثقافت کے فرق کے باوجود تعلق قائم کرنے کے لیے اپنایا گیا۔

سادہ اصول: سچے سوالات اور کھلا دل

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں زیادہ بہادر ہونے کی ضرورت ہے۔ اکثر لوگ ذاتی باتیں اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں لگتا ہے دوسرا شخص دلچسپی نہیں لے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ لوگ سننا چاہتے ہیں اور تعلق چاہتے ہیں۔

یہ صرف سوالات پوچھنے کا عمل نہیں بلکہ ایک سوچ کی تبدیلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوائلٹ میں موبائل کا استعمال کس خطرناک بیماری کا سبب بن سکتا ہے؟

والدین بھی اپنی کہانی سنائیں، بچوں کو سوالات پوچھنے دیں، اور ایک برابری کے ماحول میں گفتگو کریں — تب ہی دل سے دل جڑے گا۔

کیا حال ہے؟

اگر آپ اپنے بچوں، شریک حیات، دوست یا کسی اجنبی سے تعلق مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو صرف ’کیا حال ہے‘ سے آگے بڑھیں۔

ان سے پوچھیں کہ ایسا کون سا لمحہ تھا جب آپ نے خود کو سب سے زیادہ تنہا محسوس کیا؟ یا یہ کہ آپ کا سب سے بڑا خواب کیا ہے؟ شاید یہی ایک سوال، ایک زندگی بدل دے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بامعنی سوالات بامعنی گفتگو باہمی تعلقات باہمی محبت دوستی لوگوں کو قریب لائیں

متعلقہ مضامین

  • بے حیا کلچر کے فروغ نے نوجوان نسل کو تباہ کردیا، نصر اللہ چنا
  • سیلاب زدگان کی فوری امداد
  • کالا باغ ڈیم پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، ڈیم اور بیراج بننے چاہئیں، سعد رفیق
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان
  • ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان
  • 2 ارب لوگوں کی نظریں اسلامی سربراہی اجلاس پر ہیں: اسحاق ڈار