’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
کیا صرف چند معیاری سوالات آپ کو دوسروں کے قریب لا سکتے ہیں؟ نیدرلینڈز کی یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم کے ماہرین نفسیات نے ایسا ہی ایک تجربہ کیا جس نے حیران کن نتائج دیے۔
یہ بھی پڑھیں: اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہر نفسیات ایڈی برومیل مین اور ان کی ٹیم نے 8 سے 13 سال کی عمر کے بچوں اور ان کے والدین پر ایک تجربہ کیا جس میں والدین نے اپنے بچوں سے صرف 14 سوالات پوچھے۔ یہ سوالات عام گفتگو سے ہٹ کر، ذاتی تجربات اور جذبات سے متعلق تھے۔
مثال کے طور پر اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک جا سکتے تو کہاں جاتے اور کیوں؟ اب تک کا سب سے عجیب تجربہ کیا رہا؟ آپ آخری بار کب تنہا محسوس ہوئے اور کیوں؟
9 منٹ کی گفتگواس مختصر بات چیت کے بعد بچوں سے سوالنامہ پر کروایا گیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ وہ اپنے والدین سے کتنا پیار محسوس کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: آوازیں سننا ذہنی بیماری یا روحانی رابطہ؟
صرف 9 منٹ کی گفتگو کے بعد بچوں نے والدین کی محبت اور سپورٹ کا زیادہ احساس ظاہر کیا۔ یعنی گہرے سوالات، گہرے رشتے پیدا کرتے ہیں۔
فااسٹ فرینڈز پروسیجریہ تکنیک اصل میں ’فاسٹ فرینڈز پروسیجر‘ کہلاتی ہے جسے پہلی بار سنہ 1990 کی دہائی میں ماہر نفسیات آرتھر آرن نے تیار کیا تھا۔ اس میں 2 افراد ایک دوسرے سے گہرے اور ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھتے ہیں جیسے کہ آپ کا ایک مثالی دن کیسا ہوگا؟ اگر آپ کو موت سے پہلے صرف ایک چیز بچانے کا موقع ملے تو وہ کیا ہوگی اور کیوں؟
مزید پڑھیں: اگر آپ کو بھی پڑوس کا شور بہت پریشان کرتا ہے تو یہ خبر آپ کے لیے ہے؟
تحقیق سے پتا چلا کہ ایسے سوالات خود انکشاف (سیلف ڈسکلوژر) کو فروغ دیتے ہیں جو انسانی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے خواہ وہ 2 اجنبی، دوست، ساتھی یا والدین و بچے ہوں۔
سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جب ہم دل سے بات کرتے ہیں تو ہمارا دماغ قدرتی اینڈورفنز خارج کرتا ہے وہی کیمیکل جو ہمیں خوشی، تعلق اور سکون کا احساس دیتے ہیں۔
یہی ’اوپیئڈ سسٹم‘ منشیات جیسے مورفین پر بھی ردعمل ظاہر کرتا ہے مگر یہاں بات ہے قدرتی، محفوظ اور جذباتی تعلق کی۔
ایک تجربے میں جب شرکا کو ایک دوا دے کر اینڈورفنز کے اثرات کو روکا گیا تو وہ نہ تو گفتگو میں دلچسپی لے پائے اور نہ ہی دوسرے شخص کے قریب محسوس کیا۔
مختلف معاشرتی گروہوں میں بھی مؤثراس طریقے کو مختلف گروہوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ یہ طریقہ آن لائن طلبہ کے درمیان تعلقات بڑھانے کے لیے، مختلف جنسی رجحانات کے افراد کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کے لیے اور نسل، عمر یا ثقافت کے فرق کے باوجود تعلق قائم کرنے کے لیے اپنایا گیا۔
سادہ اصول: سچے سوالات اور کھلا دلماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں زیادہ بہادر ہونے کی ضرورت ہے۔ اکثر لوگ ذاتی باتیں اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں لگتا ہے دوسرا شخص دلچسپی نہیں لے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ لوگ سننا چاہتے ہیں اور تعلق چاہتے ہیں۔
یہ صرف سوالات پوچھنے کا عمل نہیں بلکہ ایک سوچ کی تبدیلی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹوائلٹ میں موبائل کا استعمال کس خطرناک بیماری کا سبب بن سکتا ہے؟
والدین بھی اپنی کہانی سنائیں، بچوں کو سوالات پوچھنے دیں، اور ایک برابری کے ماحول میں گفتگو کریں — تب ہی دل سے دل جڑے گا۔
کیا حال ہے؟اگر آپ اپنے بچوں، شریک حیات، دوست یا کسی اجنبی سے تعلق مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو صرف ’کیا حال ہے‘ سے آگے بڑھیں۔
ان سے پوچھیں کہ ایسا کون سا لمحہ تھا جب آپ نے خود کو سب سے زیادہ تنہا محسوس کیا؟ یا یہ کہ آپ کا سب سے بڑا خواب کیا ہے؟ شاید یہی ایک سوال، ایک زندگی بدل دے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بامعنی سوالات بامعنی گفتگو باہمی تعلقات باہمی محبت دوستی لوگوں کو قریب لائیں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بامعنی سوالات بامعنی گفتگو باہمی تعلقات باہمی محبت دوستی لوگوں کو قریب لائیں کے لیے
پڑھیں:
کیا اب پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ایسے ہی چلے گی؟
لاہور:ایشیا کپ میں پاکستان اور انڈیا کے میچ نے اسپورٹس مین اسپرٹ کی پامالی، کرکٹ روایات کی دھجیاں اڑانے سمیت کئی سوالات کھڑے دیے۔
ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف میچ میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے رویے نے گیم آف جنٹلمین کہلانے والے کھیل کو داغدار کرنے کے ساتھ اس کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
روایات کی پامالی، اسپورٹس مین اسپرٹ کی خلاف ورزی اور میچ ریفری کے متنازع کردار پر آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل نے بھی چپ سدھ لی ہے۔
پہلا سوال، میچ ریفری نے کن رولز اور کس کے کہنے پر ٹیموں کے کپتانوں کو ٹاس کے وقت ہاتھ نہ ملانے کی احکامات دیے۔
دوسرا سوال، پاکستان کی بیٹنگ کے دوران بھارتی بولرز کی ہر اپیل پر امپائرز کا انگلی اٹھانا کیا سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟
تیسرا سوال، کیا بھارتی ٹیم نے طے شدہ منصوبے کے تحت میچ ختم ہونے کے بعد ڈریسنگ روم سے باہر آکر پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا؟
چوتھا سوال، اختتامی تقریب میں بھارتی کپتان کی جانب سے جیت کو پہلگام واقعے سے جوڑ کر کھیل میں سیاست کو لانے پر بھی کوئی ایکشن ہوگا؟
پانچواں سوال، اس سارے معاملے میں تاحال آئی سی سی کرکٹ کونسل اب تک خاموش کیوں، کیا اب کرکٹ ایسے ہی چلے گی؟
چھٹا سوال، کیا پاکستانی ٹیم مینجر کی بھارتی رویے پر میچ ریفری کو شکایت پر کوئی ایکشن ہوگا؟
دوسری جانب اے سی سی کے صدر اور پی سی بی کے چیئرمین سید محسن نقوی بھی اس ساری صورتحال پر سخت رنجیدہ ہیں۔
انکا موقف ہے کہ پاک بھارت میچ میں اسپورٹس مین شپ نہ دیکھ کر مایوسی ہوئی، کھیل میں سیاست کو گھسیٹنا اس کی اصل روح کے خلاف ہے، اُمید ہے آئندہ فتوحات تمام ٹیمیں وقار اور خوش اخلاقی سے منائیں گی۔
قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مائیک ہیسن نے بھی اختتامی تقریب میں پاکستانی ٹیم کے کپتان کی عدم موجودگی کو بھارتی رویہ کا جواب قرار دیا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کا میچ تو ختم ہوگیا لیکن بھارتی کرکٹ اور آئی سی سی کے گھناؤنے کرداروں کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ کرکٹ سے دیوانہ وار پیار کرنے والے پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ایسے ہی چلے گی۔