شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس 2025ء .....
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
پاکستان کیلئے امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنا بڑا چیلنج ہوگا، چین نے خود کو دنیا کی سپر پاور کے طور پر ثابت کیا۔
پاک بھارت جنگ میں کامیابی سے ہمیں سفارتکاری میں برتری حاصل ہے، نریندر مودی کی باڈی لینگوئج ہارے ہوئے شخص کی تھی، ہمیں اپنی بہتر عالمی ساکھ اور علاقائی تعلقات سے فائدہ اٹھانے کیلئے خود کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہوگا، پولرائزیشن ختم کرنا ہوگی
ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و معاشی تجزیہ کاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہا رخیال
چین کے شہر تیانجن میں 31 اگست تا یکم ستمبر 2025ء شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا 25واں سربراہی اجلاس منعقد ہوا، جسے تنظیم کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع قرار دیا جا رہا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومتی وفود نے شرکت کی اور اختتامی سیشن میں ’’تیانجن اعلامیہ‘‘جاری کیا گیا جبکہ آئندہ صدارت کرغزستان کے سپرد کی گئی۔ اجلاس کے دوران علاقائی سلامتی، انسداد دہشت گردی کے انسداد، تجارتی و اقتصادی تعاون، توانائی و گرین ٹرانزیشن، ڈیجیٹل معیشت، خلائی تعاون اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم موضوعات زیر بحث آئے۔
چین نے اس موقع پر ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک اور انرجی کوآپریشن پلیٹ فارم کے قیام کی تجویز دی، بیڈو سیٹلائٹ نظام کی رکن ممالک تک رسائی بڑھانے اور مقامی کرنسی میں لین دین کے فروغ پر بھی زور دیا گیا۔وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مؤقف اور ترجیحات کو اجاگر کیا اور سائیڈ لائنز پر چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن سمیت مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جن میں سی پیک کے اگلے مرحلے، توانائی و تجارتی تعاون اور خطے میں امن و استحکام کے امکانات پر بات چیت ہوئی۔ ملاقاتوں میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل حافظ عاصم منیر اور وفاقی وزراء بھی موجود تھے۔
اس سربراہی اجلاس کو نہ صرف خطے کے امن و ترقی بلکہ اقتصادی و تزویراتی تعاون کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔اس اہم اجلاس کے بارے میں تفصیل سے جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’SCO سمٹ اور خطے پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و معاشی تجزیہ کاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(ماہر امور خارجہ و ڈین سوشل سائنسز جامعہ پنجاب)
گلوبل آرڈر میں تبدیلی اب زیادہ دور نہیںہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کونسے عوامل اہم ہیں۔ کیا اس میں صرف چین کا کردار ہے یا امریکی صدر کا بھی ہے؟ امریکی صدر مستقل مزاج نہیں ہیں، ان کی پالیسیوں میں بھی بے یقینی کی کیفیت ہے، اس کی ایک مثال بھارت کے ساتھ ٹیرف کے معاملے پر تناؤ ہے۔
امریکی صدر جب بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو یہ پاکستان کے تناظر میں ہوتی ہے، بھارت کو ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے مسلسل اس کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے چین اور روس کی طرف جھکاؤ کیا ہے۔
نریندر مودی 7 برس کے بعد چین گئے لیکن ان کی باڈی لینگوئج میں وہ جوش و ولولہ نظر نہیں آیا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔پاکستان کی اس وقت عالمی ساکھ بہتر ہے، ایس سی او سمٹ میں بھی ہمیں پذیرائی ملی۔ وزیراعظم پاکستان کی مختلف ممالک کے سربراہان ، وفود اور چینی کمیونٹی کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ پاکستان کیلئے اہم موقع ہے کہ وہ اس کانفرنس سے فائدہ اٹھائے، اس میں ہونے والی تمام گفتگو اور ملاقاتوں کا ریکارڈ بنایا جائے اور پھر فالو اپ کے ذریعے بات چیت کو آگے بڑھایا جائے۔ پاک بھارت جنگ کے بعد سے پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر ہوئی۔
پاکستان گزشتہ 6 ماہ سے لائم لائٹ میں ہے، ہمیں اپنی اس ساکھ کو کیش کرانا چاہیے ، دیکھنا یہ ہے کہ سول قیادت کتنی دیر تک اسے برقرار رکھ پائے گی۔ میرے نزدیک اب یہ سول قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ ایس سی او سمٹ سے چین نے دنیا کو بڑی طاقت ہونے کا پیغام دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین واحد عالمی طاقت کے طور پردنیا کی قیادت کرنے کیلئے تیار ہے؟ چین نے پریڈ میںجدید ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیاروں، میزائل، ڈرونز کے ساتھ ساتھ اپنی بری، فضائی اور بحری دفاعی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا، اس نے خطے اور دنیا کو پیغام دیا کہ جو اس کے ساتھ چلے گا، اسے معاشی اور دفاعی لحاظ سے فائدہ ہوگا۔
پریڈ میں چینی لیڈر ماؤ زے تنگ کا لباس زیب تن کرکے دنیا پر واضح کیا گیا کہ چین اپنی شناخت اور اپنے لیڈر کی پالیسی کو برقرار رکھے گا۔ اس نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم چین کو جس سطح پر چاہیں لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس وقت امریکی میڈیا میں یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا چین امریکا مخالفت میں یہ سب کر رہا ہے یا پھر واقعی وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ کون کون ہے؟ ایس سی او سمٹ کے بعد امریکا کی چین اور روس پر تنقید بلاوجہ اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ دنیا اس وقت عدم توازن سے دو چار ہے۔ طاقت کا مرکز بدل رہا ہے اور اس میں چین کو کوئی جلدی نہیں ہے۔ چین اپنے مقصد میں واضح ہے اور اس پر کام کر رہا ہے۔
پاکستان ایک آزاد ریاست ہے۔ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کی مختلف نوعیت ہوتی ہے، حالات و واقعات کے ساتھ تعلقات کبھی وقتی ہوتے ہیں اور کبھی دیر پا۔ ہم مشکل حالات میں بھی اپنے ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔ امید ہے اب بھی فیصلہ ساز ملکی مفادات کو دیکھتے ہوئے اچھے فیصلے کریں گے، کسی ایک کی طرف زیادہ جھکاؤ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
چین اپنے مفادات کیلئے خطے کے ممالک کے آپسی مسائل حل کرنے میں بھی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاک افغان تعلقات کی بہتری میں میں بھی اس کا کردار ہے۔ بھارت کو خطے میں یہ سسٹم نہ پہلے منظور تھا اور نہ ہی اب، بلکہ اس کی آئندہ آنے والی قیادت کو بھی یہ قابل قبول نہیں لہٰذا ہمیں چین کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان خطے کے امن میں رکاوٹ نہیں ہے۔ ہمیں بھارت کو اس کی حرکتوں کا جواب دینا پڑتا ہے۔ چین بھی بھارتی سوچ کو بخوبی جانتا ہے۔
ہمارا ایک بڑا مسئلہ اندرونی مسائل ہیں۔ ہم دنیا میں اس وقت ہی مضبوط ہوں گے جب اندرونی طور پر مضبوط ہوں گے۔ اس وقت ضروری ہے کہ آپسی اختلافات اور وہ تمام مسائل جن سے فائدہ اٹھا کر دشمن یہاں سرائیت کر سکتا ہے، کا خاتمہ کریں اور آپس میں اتحاد پیدا کریں۔ اس وقت سیلاب ہمارے لیے بڑا مسئلہ ہے لیکن آنے والے دنوں میں معاشی مسائل بھی پیدا ہوں گے۔
ڈاکٹر محمد ارشد
(سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
پاک بھارت جنگ پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہوئی۔ ہماری بہادر اور قابل افواج نے جس انداز میں بھارت کو منہ توڑ جواب اور شکست دی، دنیا اس کی معترف ہے۔ اس نے ہماری عالمی ساکھ کو اتنا بہتر کیا کہ ایس سی او سمٹ میں چار بڑی طاقتوں میں کھڑا کر دیا۔ پاک بھارت جنگ میں بھی چین کی سپورٹ پاکستان کو حاصل تھی۔ ہم نے نہ صرف بھارت کے طیارے گرائے بلکہ اس کے سارے نظام کو مفلوج کر دیا۔
ہمارا ایئر ڈیفنس سسٹم بہترین ہے، پاکستان اس وقت دنیا میں لیڈ کر رہا ہے۔ ہمارے انجینئرز، ٹیکنالوجی کے ماہرین، آئی ٹی و دیگر ایکسپرٹس نے ایسا بہترین سسٹم تیار کیا ہے جس پر دنیا حیران ہے اور ہماری تعریف بھی کر رہی ہے۔ بھارت کی مشکل حالت دیکھ کر امریکا نے اسے بچایا اور اب تک بھارت کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ چین اس وقت دنیا کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔
چین پر ایک روپیہ بھی قرض نہیں جبکہ امریکا پر 37 ٹریلین ڈالر کا قرض ہے جس میں سے 6.
دنیا کا پٹرول پر انحصار کا خاتمہ امریکا کی معاشی موت ہے۔ آنے والے وقت میں پٹرول کو ماحول کو آلودہ کرنے والا مادہ قرار دیا جائے گا اور دنیا اس کا استعمال بالکل چھوڑ دے گی، سب کچھ متبادل ذرائع پر منتقل ہو جائے گا۔ افغانستان، ایران اور پاکستان، خصوصاََ بلوچستان ایسے معدنیات کے حوالے سے ذرخیز ہے جو توانائی کے متبادل ذرائع کیلئے اہم ہیں۔ چین بھی یہ حقیقت جانتا ہے، ہمیں اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ چین معاشی حوالے سے امریکا کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے، اب اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
چین دنیا میں یوان میں تجارت کو فروغ دے رہا ہے۔ چین کی گارنٹی ہے کہ ایک سال تک ریٹ فکس رکھے گا۔ پاکستان اور چین، دفاعی ٹیکنالوجی میں ایک ہیں، آنے والے وقت میں پاکستان کی ’وار اکانومی‘ ہوگی، ہم دنیا کو جنگی ٹیکنالوجی اور ہتھیار بیچ کر پیسہ کمائیں گے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ جمہوری ادوار اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا ہے۔ نئی حکومت، سابق حکومت کی تمام پالیسیوں کو یکسر بدل دیتی ہے لہٰذا ہمیں اچھی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہوگا، اس سے نہ صرف عوام اور سرمایہ داروں کا اعتماد بڑھے گا بلکہ ملک ترقی بھی کرے گا۔
سلمان عابد
(سینئر تجزیہ کار)
ایس سی او سمٹ میں چین نے خود کو دنیا کے سامنے ایک بڑی عالمی طاقت اور سپر پاور کے طور پر پیش کیا۔ اس نے پہلی مرتبہ واضح کر دیا کہ وہ خود کو ایک سپر پاور کے کردار میں دیکھ رہا ہے۔ امریکا کی طرف سے بھارت کے ساتھ معاشی جنگ کے اعلان کے بعد سے خطے میں چین کی اہمیت بڑھ گئی ہے، اب بھارت کا جھکاؤ چین اور روس کی طرف ہے۔ پاک چین تعلقات پہلے ہی مضبوط ہیں لہٰذا چین اب ایک بڑی حقیقت بن چکا ہے۔
پاک بھارت جنگ کے بعد سے پاکستان کو سفارتکاری میں برتری حاصل ہے اور یہ سول ملٹری دونوں اعتبار سے ہے۔اس کے علاوہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بداعتمادی بھی کم ہوئی ہے۔ ہمیں امریکا بھارت سردمہری کا یہ فائدہ ہواکہ اب دونوں سپر پاورز پاکستان کے قریب ہیں۔ خود فیلڈ مارشل جنرل حافظ سید عاصم منیر نے بھی کہا ہے کہ پاکستان میں دونوں طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔
اس وقت خطے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ امریکا اور بھارت کے سفراء مل کر لابنگ کر رہے ہیں تاکہ حالات میں بہتری لائی جاسکے، دونوں ملک ایک دوسرے کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ چین کیلئے بھی بھارت تجارتی منڈی ہے لہٰذا وہ بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتا ۔
میرے نزدیک آنے والے دنوں میں امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا پاکستان کیلئے بڑا چیلنج ہوگا۔امریکا چاہے گا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ اس انداز میں تعلقات آگے نہ بڑھیں جس سے اس کے مفادات کو نقصان پہنچے، یہی صورتحال امریکا کے حوالے سے چین کی بھی ہوگی۔ سفارتی تعلقات میں معاشی مفادات سب سے اہم ہوتے ہیں۔ چین اس وقت پاک افغان تعلقات بہتر کروانے میں بھی کردار ادا کر رہا ہے، پاکستان بھی چاہتا ہے کہ خطے میں امن قائم ہو ، یہ پاکستان اور خطے کے مفاد میں بہتر ہے۔
یہاں امن قائم ہوگا تو خطے میں معاشی ترقی کا سفر تیز ہوجائے گا۔ ایس سی او سمٹ میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی، مصافحہ بھی نہیں ہوا۔ اس وقت چین اور امریکا اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر کروا سکتے ہیں۔ پاکستان کو امریکا کی سپورٹ نے بھارت کو دھچکا دیا اور بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کہ بعد سے اس کی پالیسی میں جارحیت نظر نہیں آرہی۔ دہشت گردی اس خطے کا مجموعی مسئلہ ہے لہٰذا ایران، افغانستان، پاکستان اور بھارت سمیت خطے کے تمام ممالک کو علاقائی تعاون کے ذریعے اسے ختم کرنا ہوگا۔
میرے نزدیک آنے والے وقت میں دہشت گردی کا خاتمہ بھی ایس سی او کاایجنڈا بنے گا۔ امریکا اور چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات بھی مزید بہتر ہوئے ہیں جبکہ بھارت کو علاقائی سطح پر مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کے آرمی چیف نے ایس سی او سمٹ میں شرکت کی، چین بھی جانتا ہے کہ سکیورٹی کا مسئلہ فوج نے حل کرنا ہے۔ سی پیک کی گارنٹی بھی پاک فوج نے ہی دی تھی۔
ماضی میں دہشت گردی کے واقعات اور چینی باشندوں کی ہلاکت پر آج بھی چین میں تشویش پائی جاتی ہے، ہمیں سکیورٹی صورتحال مزید بہتر بنانے پر کام کرنا ہوگا۔ ہمارا گورننس سسٹم مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے، اس پر چین اور آئی ایم ایف بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں لہٰذا ہمیں مصلحتوں سے نکل کر بیوروکریٹک ریفارمز لانا ہوں گے۔ ملک میں سیاسی پولرائزیشن زیادہ ہے، جب تک ہم اندرونی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے، ہمیں اپنے علاقائی تعلقات اور بین الاقوامی ساکھ سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
معاشی صورتحال کی بات کریں تو ہم ڈیفالٹ سے بچے ہیں لیکن کوئی بڑی گرانٹس تاحال موصول نہیں ہوئیں، صرف وعدے اور ’ایم او یوز‘ ہی ہوئی ہیں۔ 2022ء میں جب سیلاب آیا تو بلاول بھٹو نے مہم چلائی اور فنڈز اکٹھے ہوئے لیکن وہ بیشتر منصوبے نہیں بن سکے۔
اس طرح کی صورتحال سے اعتماد کم ہوتا ہے۔ امریکا کی پاکستان کو حد سے زیادہ سپورٹ بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے۔ پاکستان نیشنل سکیورٹی پالیسی میں واضح کر چکا ہے کہ وہ خطے کے معاشی مفادات کو فروغ دے گا اور کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ سوال یہ ہے کہ امریکا ہم سے کیا چاہتا ہے؟ کیااس سب سے امریکا ایران کشیدگی کا کوئی تعلق تو نہیں؟بھارت یہاں افغانستان کے ذریعے پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ دہشت گردی ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے لہٰذا ہمیں اپنی سکیورٹی کو مضبوط کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایس سی او سمٹ میں کے ساتھ تعلقات پاکستان کیلئے پاک بھارت جنگ پاکستان اور چین کے ساتھ امریکا اور پاکستان کو پاکستان کے امریکی صدر پاکستان کی عالمی ساکھ تعلقات میں لہ ذا ہمیں امریکا کی مفادات کو کرنا ہوگا کر رہا ہے ا نے والے ممالک کے سے فائدہ سپر پاور بھارت کے حوالے سے بھارت کو یہ ہے کہ ہے لہ ذا میں بھی ایک بڑی اور چین چین اور نہیں ہے میں چین ہے کہ ا رہی ہے کی طرف چین نے کے بعد خطے کے چین کو کر دیا خود کو چکا ہے بھی کر ہوں گے کام کر ہے اور چین کی
پڑھیں:
امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ٹرمپ اور زی شی پنگ کے درمیان ہونے مذاکرات کے فوری بعد ہی دنیا میں کے سامنے بھارت اور امریکا کے دفاعی معاہدے کا معاہدے کا ہنگا مہ شروع ہو گیا اور بھارتی میڈیا نے دنیا کو یہ بتانے کی کو شش شروع کر دی ہے کہ پاکستان سعودی عرب جیسا امریکا اور بھارت کے درمیان معاہدہ ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔بھارت اور امریکا نے درمیان یہ دفاعی معاہدہ چند عسکری امور پر اور یہ معاہد
2025ءکے معاہدے کا تسلسل ہے ،2025ءکو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور جب بھارت نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کر نے کی کوشش شروع کر دی تو امریکا نے نے بھارت کو ایشیا کا چوھدری بنانے فیصلہ کر لیا تھا اسی وقت پاکستان نے بھارت کو بتا دیا تھا کہ ایسا نہیں کر نے کی پاکستان اجسازت نہیں دے گا ۔اس معاہدے کی تجدید 2015ءاور اب 2025ءمیں کیا گیا ہے ۔اس کی تفصیہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت امریکا بھارت کو اسلحہ فروخت کر گا ،خفیہ عسکری معلامات امریکا بھارت کو فراہم کر گا اور دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقیں ساو ¿تھ چائینہ سی میں کر یں گی اور چین کے خلاف جنگ کی تیاری کی جائے گی لیکن اب بھارت دنیا کو یہ ثابت کر ے کی کو شش کر رہا ہے کہ امریکا اور بھارت کا معاہدہ پاکستان کے خلاف بھی لیکن حقیقت اس سے مختلاف ہے
پاکستان نے امریکا،بھارت دفاعی معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں
مسلح افواج کی بھارتی مشقوں پر نظر ، افغانستان نے دہشتگردوں کی موجودگی تسلیم کی:دفترخارجہ امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ ، راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگسیتھ کے دستخط کیے
اسلام آباد،کوالالمپور(اے ایف پی ،رائٹرز،مانیٹرنگ ڈیسک)امریکا اور بھارت کے درمیان 10سالہ دفاعی معاہدہ طے پا گیا ،امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے گزشتہ روز تصدیق کردی کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں ،پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان کا کہناہے کہ پاکستان نے امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے اورخطے پر اس کے ہونیوالے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا کہ مسلح افواج بھارتی فوجی مشقوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ان کاکہنا کہ یہ سوال کہ پاکستان نے کتنے بھارتی جنگی جہاز گرائے ؟ ،یہ بھارت سے پوچھنا چاہئے ، حقیقت بھارت کے لئے شاید بہت تلخ ہو۔ پاک افغان تعلقات میں پیشرفت بھارت کو خوش نہیں کرسکتی لیکن بھارت کی خوشنودی یا ناراضی پاکستان کے لئے معنی نہیں رکھتی۔ افغان طالبان حکام نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کئے ،پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دورکا نتیجہ مثبت نکلے گا، پاکستان مصالحتی عمل میں اپنا کردار جاری رکھے گا اور امن کے قیام کیلئے تمام سفارتی راستے کھلے رکھے گا۔ طاہر اندرابی نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر ضروری اقدام اٹھائے گا، انہوں نے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردارکو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 6 نومبر کے مذاکرات سے مثبت اور پائیدار نتائج کی امید ہے۔
سرحد کی بندش کا فیصلہ سکیورٹی صورتحال کے جائزے پر مبنی ہے ، سرحد فی الحال بند رہے گی اور مزید اطلاع تک سرحد بند رکھنے کا فیصلہ برقرار رہے گا،مزید کشیدگی نہیں چاہتے تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز میں انڈین میڈیا کے دعوو ¿ں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر ‘اسرائیل کیلئے “ناقابل استعمال”کی شق بدستور برقرار ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی کی رپورٹس کے مطابق امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگسیتھ نے ایکس پوسٹ میں بتایا کہ بھارت کیساتھ دفاعی فریم ورک معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی اشتراک میں اضافہ ہوگا،ہماری دفاعی شراکت داری پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگستھ کی ملاقات کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ پلس کے موقع پر ہوئی جس کا باقاعدہ ا?غاز آج ہوگا۔معاہدے پر دستخط کے بعد پیٹ ہیگسیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے ، یہ 10 سالہ دفاعی فریم ورک ایک وسیع اور اہم معاہدہ ہے ، جو دونوں ممالک کی افواج کیلئے مستقبل میں مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
امریکا اور بھارت نے 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع پِیٹ ہیگسیتھ نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون، ٹیکنالوجی کے تبادلے اور معلومات کے اشتراک کو مزید مضبوط بنائے گا۔
ہیگسیتھاس بعد چین چ؛ی گئیں اور وہاں انھوں تائیوان کا ذکر دیا جس کے ایسا محسوس ہوا کہ
ہیگسیتھ کے ایشیا میں آتے ہیں امریکا چین کے درمیان ایک تناو ¿ پیدا ہو گیا ۔ہیگسیتھ کے مطابق، یہ فریم ورک علاقائی استحکام اور مشترکہ سلامتی کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر کہا: “ہمارے دفاعی تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔”
بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ یہ ملاقات آسیان دفاعی وزرائے اجلاس پلس کے موقع پر کوالالمپور میں ہوئی۔ معاہدے پر دستخط کے بعد امریکی وزیرِ دفاع نے بھارت کے ساتھ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ تعلقات دنیا کے سب سے اہم شراکت داریوں میں سے ایک ہیں۔”ہیگسیتھ نے اس معاہدے کو “مہتواکانکشی اور تاریخی” قرار دیا اور کہا کہ یہ دونوں افواج کے درمیان مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے حال ہی میں بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کی تھی۔ دونوں رہنماو ¿ں نے دوطرفہ تعلقات اور خطے کی سلامتی پر گفتگو کی۔
یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں امریکا اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی تھی، جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 50 فیصد تجارتی محصولات عائد کیے تھے اور نئی دہلی پر روس سے تیل خریدنے کے الزامات لگائے تھے۔
اسی سلسلے میں بھارت کو امریکا 2025ءمیں خطے میں چین کی فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ڈیجیٹل خفیہ معلومات کا نظام بھی دیا تھا لیکن اس کے بعد چین نے خاموشی سے گلوان ویلی اور لداخ کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر تھا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے 10مئی 2025ءکو جب پاکستان نے بھارت پر جوابی حمہ کی اتھا اس وقت بھی امریکا اور بھارت کا دفاعی معاہدہ ای طرح قائم تھا لیکن پاکستان نے جم کر بھارت کی خوب پٹائی کی اور امریکا اس وقت سے آج تک یہی کہہ رہا ہے اگر صدر ٹرمپ جنگ نہ رکوائی ہوتی تو بھارت کو نا قابل ِحد تک تباہ کن صورتحال کا سامنا کر نا پڑتا۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقئقت یا فسانہ ہے ۔