پاکستان اور ترکیہ کی غزہ بربریت کی مذمت، اردوان کی دہشتگردی کے خاتمے کیلیے پاکستان کی حمایت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
انقرہ: پاکستان اور ترکیہ نے غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کی مذمت کی ہے جبکہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کیلیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
انقرہ میں ترکیہ کے صدر اور وزیراعظم شہباز شریف نے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ رجب طیب اردوان نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلیے پُرعزم ہے، ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کیلیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں دفاعی شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں جبکہ عالمی امور پر دونوں ممالک میں ہم آہنگی ہے۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ دونوں ممالک آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں اور غزہ میں جاری مظالم کی مذمت کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان باہمی رابطے مضبوط دوستی کی علامت ہیں۔
ترک صدر نے کہا کہ پاکستان نے غزہ میں ہونے والی بربریت کی بھرپور انداز میں مذمت کی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے ترکیہ کے صدر سے ایک بار پھر ملاقات پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اردوان کی قیادت کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ طیب اردوان کی قیادت میں ترکیہ نے ترقی کی منازل طے کیں۔
شہباز شریف نے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کرنے پر میزبان صدر کا شکریہ ادا کیا جبکہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن میں ترکیہ کی حمایت بھی مانگی۔
وزیراعظم نے بلوچستان میں جاری دہشت گردی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی اور بی ایل اے پر عائد کی اور ان کے خاتمے میں ترکیہ سے تعاون کی درخواست کی۔
شہباز شریف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی امن کیلیے تعاون بہت ضروری ہے۔ مشرق وسطیٰ اور غزہ کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے، جہاں بے گناہ بچوں، خواتین اور مردوں کی شہادتیں ہورہی ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ صدر رجب طیب اردوان ایک دور اندیش اور وژنری لیڈر ہیں جن کی قیادت میں ترکیہ اور اس کے عوام ترقی کررہے ہین۔
انہوں نے 2010 کے سیلاب میں پاکستان کا دورہ کر کے متاثرین سے یکجہتی کرنے پر ترکیہ کے صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ترکیہ کے صدر نے 2022 کے تباہ کن سیلاب میں ایک بار پھر پاکستان کا دورہ کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے مختلف شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے، انسداد دہشت گردی کیلئے ترکیہ کے تعاون کے مشکور ہیں، دونوں ملکوں نے توانائی، کان کنی ، معدنیات اور آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ غزہ میں پچاس ہزار معصوم جانوں کے ضیاع کی شدید مذمت اور غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
شہباز شریف نے مسئلہ کشمیر پر ترکیہ کی غیر متزلزل حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شمالی قبرص کے معاملے پر ترکیہ کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر غزہ کے لوگوں کو فوری مدد فراہم کی جائے اور مسئلہ فلسطین کو مستقل بنیادوں پر حل کرتے ہوئے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا جائے کیونکہ یہ آخری اور واحد حل ہے۔
قبل ازیں انقرہ پہنچنے کے بعد وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے جمہوریہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی۔ جس میں دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
وزیراعظم نے خاص طور پر مشترکہ منصوبوں اور دو طرفہ سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی تعاون بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے دونوں ممالک کے مابین توانائی، کان کنی، دفاع، زرعی پیداوار کے مشترکہ منصوبوں، تجارت و عوامی تبادلوں کے فروغ، علاقائی اور دو طرفہ روابط میں اضافے، مصنوعی ذہانت اور سائبر سیکیورٹی جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے حوالے تعاون کے مواقع اجاگر کئے.
بات چیت کے دوران، دونوں رہنماؤں نے 13 فروری 2025 کو اسلام آباد میں منعقدہ 7ویں اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل (HLSCC) کے فیصلوں کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لیا۔
دونوں رہنماؤں پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کثیر جہتی دوطرفہ تعاون کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور صدر اردوان نے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا اور قومی مفاد کے امور پر ایک دوسرے کی حمایت کا اعادہ کیا۔
رہنماؤں نے غزہ میں انسانی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی اور متاثرہ آبادی کو انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا۔ صدر اردوان نے فلسطین کے لیے پاکستان کی مسلسل حمایت اور انسانی امداد کو سراہا۔
دونوں رہنماؤں نے خطے میں امن، استحکام، ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان اور ترکیہ کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔
پاکستانی وفد میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، معاون خصوصی طارق فاطمی اور ترکیہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر یوسف جنید شامل تھے۔
صدر اردوان نے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وزیراعظم شہباز شریف گردی کے خاتمے کیلیے پاکستان اور ترکیہ رجب طیب اردوان شہباز شریف نے ترکیہ کے صدر دہشت گردی کے دونوں ممالک پاکستان کی میں ترکیہ اردوان نے کے درمیان کرتے ہوئے نے کہا کہ کا اظہار کرتے ہیں انہوں نے کی حمایت
پڑھیں:
ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
فاروق بھائی، فلم دیکھیں گے؟
برادرِ محترم ڈاکٹر خلیل طوقار نے یہ سوال پوچھا تو میں چونک گیا۔ احباب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر خلیل طوقار سنجیدہ فکر ادیب اور محقق ہیں اتنے سنجیدہ کہ افسانہ و ناول کو بھی ان کی توجہ پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ پس منظر تھا جب انھوں نے فلم دیکھنے کی دعوت دی تو میں چونکا۔ یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے جب پاکستان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اعلان کے مطابق ہفتہ ترکیہ منایا جا رہا تھا۔
ترکیہ کی قومی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر عالمی استعماری طاقتوں نے نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے بلکہ استنبول پر بھی قبضہ کر لیا۔ یوں ترکیہ کی آزادی ہی داؤ پر لگ گئی۔
یہ بڑا مشکل زمانہ تھا، مگر ترکیہ کی قومی فوج نے غازی مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں استعماری قوتوں کے خلاف کامیابی سے جنگ لڑی اور اپنے ملک کی آزادی برقرار رکھی۔ اکتوبر 1915 میں چناق قلعے کا معرکہ ہوا جس میں اتحادی فوج کو فیصلہ کن شکست ہوئی، اور 29 اکتوبر 1923 کو غازی مصطفی کمال اتاترک نے انقرہ کو دارالحکومت قرار دے کر جدید جمہوریہ ترکیہ کے قیام کا اعلان کیا۔ ہمارے ترک بھائی یہ دن بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔ اسی تاریخی پس منظر پر مبنی وہ فلم تھی جسے دیکھنے کی دعوت مجھے ڈاکٹر خلیل طوقار نے دی۔
فلم کا نام ہے آخری خط۔ یہ سلطنتِ عثمانیہ کی فضائیہ کے ایک بہادر پائلٹ صالح کی سرفروشی اور محبت کی کہانی ہے۔ ترکیہ میں میرا آنا جانا بہت رہا ہے۔ استنبول میں قیام کے دوران استقلال جادہ سی پر جانا ہمیشہ ایک خوش گوار تجربہ رہا۔ وہاں ہر وقت ہزاروں سیاح مٹرگشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان ہی گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے ترکیہ کی فلم انڈسٹری سے بھی تعارف ہوتا ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے پوسٹر نظر آتے ہیں، جیسے کبھی ہماری فلموں کے ہوا کرتے تھے۔ مجھے ایک فلم کا نام یاد ہے بابا میراثی۔ یہ نام دیکھ کر میں چونکا کہ کیا ترکیہ میں بھی میراثی ہوتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہاں میراثی سے مراد صاحبِ میراث ہے، نہ کہ ہمارے روایتی قصہ گو۔ہمارا میراثی تو امتدادِ زمانہ سے بے حال ہو چکا ہے، ورنہ ماضی میں وہ عزت دار شخص تھا جو خاندان کے شجرے کا ریکارڈ رکھا کرتا تھا۔ اگر آج بھی کوئی برگزیدہ میراثی مل جائے تو وہ اپنی بے نظیر یادداشت کے سہارے ایسے دل چسپ انداز میں شجرہ سناتا ہے کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
بات کسی اور طرف جا نکلی۔ استقلال جادہ سی میں فلموں کے اشتہار دیکھ کر میری رائے بنی تھی کہ ترکیہ کی فلمیں بھی ہماری فلموں جیسی ہی ہیں۔ اگر کبھی ترکیہ میں کوئی فلم دیکھنے کا موقع ملتا تو شاید یہ خیال بدل جاتا، مگر ایسا کوئی موقع میسر نہ آ سکا۔ اب کئی برس کے بعد ڈاکٹر خلیل طوقار کی دعوت پر یہ فلم دیکھی تو اندازہ ہوا کہ ترکیہ کی فلم انڈسٹری تو معیار کے اعتبار سے ہالی ووڈ کو شرماتی ہے۔فلم دیکھ کر دوہری خوشی ہوئی: ایک فلم کے اعلی معیار کی، اور دوسری وزیرِ اعظم کے اس فیصلے کی۔ اگر انھوں نے ہفت ترکیہ منانے کا اعلان نہ کیا ہوتا تو شاید یہ فلم دیکھنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
کچھ عرصہ قبل سردیوں کی ایک خوش گوار شب ڈاکٹر خلیل طوقار نے عشائیے کا اہتمام کیا۔ ان کے مہمان دو تھے: برادرِ محترم پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اور ان سطور کا لکھنے والا۔ ڈاکٹر طوقار ترکیہ کے ثقافتی مرکز یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی پاکستان شاخ کے سربراہ ہیں۔ پاکستان ان کے لیے اجنبی ملک نہیں ۔وہ اس کے داماد بھی ہیں اور فرزندِ اردو بھی۔ انھوں نے گزشتہ پینتیس چالیس برس میں اردو زبان و ادب کو مالا مال کر دیا ہے۔ تیس چالیس کتابوں کے مصنف ہیں اور ہندکو زبان کی گرامر بھی انھوں نے مرتب کی ہے۔
یوں وہ پاکستان میں ہوں یا ترکیہ میں، ہمارے لیے اجنبی نہیں لیکن وہ چوں کہ ایک سرکاری اسائنمنٹ پر یہاں ہیں، اس لیے انھیں بھی یہ احساس تھا اور ہمیں بھی کہ جیسے ہی وہ واپس جائیں گے، ان کے دم قدم سے قائم یہاں تہذیبی رونقیں ماند پڑ جائیں گی۔ یہی احساس تھا جس نے اس رات کے کھانے کو یادگار بنا دیا، کیونکہ اسی نشست میں تجویز ہوا کہ پاک ترکیہ دوستی اور ثقافتی رشتوں میں مزید گہرائی پیدا کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے۔
یہ تنظیم آج بنے یا کل، ان ہی باتوں میں کافی وقت گزر گیا یہاں تک کہ ڈاکٹر یوسف خشک شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن کر خیرپور جا پہنچے۔ اس پیش رفت نے احساسِ زیاں کو بڑھا دیا۔ یوں مشاورت کا دائرہ وسیع کر دیا گیا جس میں جناب خورشید احمد ندیم، ڈاکٹر مجیب میمن، ڈاکٹر زاہد مجید، محترمہ نعیم فاطمہ علوی، ڈاکٹر محمد کامران اور ڈاکٹر صدف نقوی سمیت دیگر احباب شامل ہوئے۔ مکمل اتفاقِ رائے سے دوست کے نام سے پاک ترکیہ فرینڈشپ فورم قائم کیا گیا۔اس فورم کے قیام کا اعلان 30 اکتوبر کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں کیا گیا جو ہفتہ ترکیہ کے سلسلے میں یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں شہر کی مختلف جامعات اور کالجوں کے اساتذہ و طلبہ امڈ آئے۔
ہفت ترکیہ کی تقریبات بھرپور رہیں۔ پی این سی اے کے تعاون سے ترک موسیقی کی محفل ہوئی، فلم شو کا ذکر آ چکا۔ لوک ورثہ میں بحیرہ اسود کے معروف رقص ہورون کا مظاہرہ ہوا۔ ترکوں کے مختلف خطوں میں الگ الگ رقص رائج ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کی ثقافت اور روایت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تہذیبی مظاہر میں نظم و ترتیب کے کیا معنی ہیں۔ ہورون ان سب سے بڑھ کر ہے۔
ہفتہ ترکیہ ہر اعتبار سے کامیاب اور شاندار رہا، پاکستانیوں اور ترک بھائیوں، سب نے مل کر ہفت ترکیہ پورے جوش و خروش سے منایا۔ اس موقع پر اسلام آباد میں چھ تصویری نمائشوں کے علاوہ خیر پور اور جامعہ کراچی میں ایک ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا ۔ ان مواقع پر حاضرین کی تواضع ترک کافی سے کی گئی۔ اس گہما گہمی کے پیچھے ایک بڑی قوت محرکہ یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی تھی جس کے ان تھک سربراہ ڈاکٹر خلیل طوقار ہیں جو ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو سفیر کی حیثیت سے اسلام آباد تشریف لائے ہیں۔ ترکیہ کے تمام سفیر متحرک ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو کے عوامی انداز نے ترک سفارت خانے کو بہت متحرک کر دیا ہے یہی سبب ہے کہ اس ہفتے کی رونقیں صرف وفاقی دارالحکومت میں نہیں بلکہ خیرپور کی شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی جیسے دور دراز علاقوں میں بھی دیکھی گئیں۔ہم اب تک یومِ پاکستان اور یومِ آزادی کے موقع پر آبنائے باسفورس کے اساطیری پل کو پاکستان کے رنگ میں رنگا دیکھتے آئے تھے مگر اس بار پورا پاکستان ترکیہ کے رنگ میں رنگا گیا۔