Daily Ausaf:
2025-07-26@01:13:55 GMT

اےکابل وقندھار کےمیرے اپنےلوگو !

اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
پاکستانی اور افغانی کا خون، رنگ ایک ہے ، جزبات اور ایمان کی حرارت بھی ایک ، یار ہماری قبروں کی سانجھ ہے ، کتنے میرے پاکستانی مائوں کے سپوت ہیں ، جو گھر سے جہا دپر نکلے اور واپس نہ پلٹے ، کوئی جانتا ہی نہیں کہ کس کی قبر کہاں ہے ، معلوم ہی نہیں کہ کس قبر کے سپرد کی گئی انسانی ہڈیوں میں سے افغان جسم کا حصہ کون ساتھا اور پاکستانی کا کون سا، تصور تو کرو ، روزقیامت کتنی قبروں میں پاکستانی اور افغان مائوں کے بیٹے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے تکبیریں بلند کرتے اٹھیں گے۔اور تو اور ہماری تو مائیں بلکہ مائوں کی دعائیں تک سانجھی ہیں ، شہیدوں کی مائیں ، جو آج بھی کہتی ہیں سارے شہید میرے بچے ہیں ، کبھی افغان ماں کو تفریق کرتے نہیں دیکھا ، کبھی کسی پاکستانی ماں کو فرق کرتے نہیں سنا ۔کیسے بھول جائیں ،بھائیوں سےبڑھ کر ان ساتھیوں کو جو افغان بھی تھے پاکستانی بھی، جب گئے تو ہم اکٹھے تھے ، لوٹے تو چند ایک، باقی آزادی کی نیلم پری کی تلاش میں دوردیس کے مسافر ہوگئے ۔کون کہاں بچھڑا ، کس کا خون کہاں گرا یاد نہیں مگر ہماری نسل کے لوگوں کے لئے تو کابل وقندھار کی ساری سرزمین ہی مزار شہیداں ہے۔ صرف افغان سرزمین ہی نہیں پاکستان کی سرزمین میں کتنے ہزار بلکہ لاکھوں افغانوں کی قبریں ہیں ،جن میں اکثریت جنگ سے بچنے ، پناہ لینے ایک بھائی کے گھر آئی تھی اور ایک بہت بڑی تعداد جہاد آزادی کی تیاری کے لئے ، اب قبروں کو کیسے بھولو گے ، کیسے الگ کرو گے،کیسےاپنی قبروں سے ہم دونوں طرف کے لوگ دشمنی کرسکیں گے؟ کیسے؟ میں اپنی بات کروں تو راتیں بیت جاتی ہیں ، یاروں کی یادیں ختم نہیں ہوتیں ،وہ مورچوں کے ساتھی ، وہ سفرحضر کے یارانے ، ویران پہاڑوں میں دشمن کے تعاقب میں بتائی تاریک راتیں ،گولیوں کی بوچھاڑ اوربموں کی برسات میں ایک دوسرے کو بچانےکی فکر ، اس جنگ کے ہنگام میں سرزد ہونے والی حماقتیں ، لطیفے اور گرما گرمی بھی تو یادوں کا اثاثہ ہے۔ محبتوں کے اس قرض ، خون کے اس گہرے رشتے اور قبروں کی سانجھ کے ہوتے ہوئے ،کس طرح ممکن ہے کہ جس دشمن کےخلاف ہم سیسہ پلائی دیوار تھے ،وہ ہمیں میدان میں نہیں ہراسکا تو ان سازشوں سے ہرادے، نہیں یہ ممکن نہیں ۔۔ اسحاق ڈار کا دورہ اور متقی و ملا حسن اخوند کا استقبال اعلان کر رہا ہےکہ ہم دشمن سے ہارنے والے نہیں ، لیکن جس منزل کی جانب قدم اٹھائے گئے ہیں ، پھولوں کی جس فصل کی کاشت کی کوشش کی گئی ہے ، یہ آسان نہیں ۔دشمن کے شاطر ہونے کا اندازہ اس سے لگالیں کہ چالیس برس ایک دوسرے کے جاں نثار رہنے والوں کو تین برس میں مدمقابل میدان کارزار تک کھینچ لایا تھا ، کیا اب وہ نچلا بیٹھے گا؟ نہیں ، قطعاً نہیں ۔آج کابل اور اسلام آباد کے درمیان یہ سفارتی ہوا، جو امید کی خوشبو لیے چل رہی ہے، اسے تیز آندھیوں سے بچانا دونوں جانب کے ارباب بست وکشاد کی ذمہ داری ہے ۔یہ وقت الزامات کا نہیں، اصلاح کا ہے۔ یہ وقت دروازے بند کرنے کا نہیں، کھڑکیاں کھولنےکا ہے۔ کاش امید کے یہ چراغ صرف سفارتی کمروں تک محدود نہ رہیں، بلکہ دلوں میں بھی اُتر جائیں کیونکہ ہماری محبت سچی ہے ، جو کانٹوں کے درمیان گلاب کھلانے کی سکت رکھتی ہے ۔
یہ سچ ہے کہ یہ نفرتیں صرف دشمنوں کی دین نہیں، ہمارے درمیان ایسی آوازیں بھی ہمیشہ سے موجود رہی ہیں جو فساد، فتنہ اور انتشار کے بیج بوتی رہی ہیں۔ یہ صرف بیرونی سازشیں نہیں تھیں جنہوں نے پاک افغان محبت کو زہر آلود کیا، بلکہ اندر کے وہ عناصر بھی شامل رہےجوجنگ، خونریزی اور لاشوں کی سیاست سے اپنے ایوان آباد کرتے رہے۔ ان کی تجوریاں ہمارے نوجوانوں کے لاشوں سے بھرتی رہیں، ان کا رزق اس خون کی ندیوں سے وابستہ رہا جو دونوں طرف بہتی رہیں۔یہ فتنے صرف ایک طرف نہیں، دونوں جانب موجود ہیں۔ وہ عناصرجو افغانستان میں امن کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اور وہ گروہ جو پاکستان کے استحکام سےخائف ہیں۔ ان کے لیے ہر قدم جو محبت کی طرف اٹھے، خطرہ بن جاتا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ہم نے ان “گِدھ صفت” لوگوں کو پہچانا نہیں، اور ان کی سازشوں کو روکا نہیں، تو یہ سفر جو ابھی شروع ہوا ہے، کہیں بیچ راستے میں تھم نہ جائے۔یہ طاقتیں، یہ سازشی گروہ، صرف باہر سے نہیں آتے، وہ ہمارے اندر موجود ہیں۔ ہر اس ادارے، ہر اس سیاست دان، ہر اس مکتبِ فکر میں ان کا اثر پایا جاتا ہے جو بداعتمادی، نفرت، اور تعصب کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ان کی فیکٹریوں میں نفرت کی فصل تیار ہوتی ہے۔ ان کی معیشت لاشوں پر کھڑی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے امن ایک کاروبار کا خاتمہ ہے۔ہمیں ایسے لوگوں سے بچنا ہے۔ ریاستوں کو صرف دشمن سے نہیں، اندرونی دشمنوں سے بھی بچاؤ کی حکمت عملی بنانی ہوتی ہے۔ ہمیں اب قومی سلامتی کا مفہوم صرف سرحدی دفاع تک محدود نہیں رکھنا، بلکہ ذہنوں اور دلوں کے تحفظ تک پھیلانا ہے۔
طالبان قیادت نے ڈار کی بات سنی، مثبت رویہ اپنایا، یہ خوش آئند قابل قدر ہے مگر صرف بیانات اور ملاقاتیں کافی نہیں، عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ افغان ہمارے دوست نہیں ، بھائی ہیں ، ہمارا مطالبہ ، ہمارا شکوہ شکائت اور خواہش صرف اتنی ہے کہ کل جس دشمن کے مقابل ہم مل کر لڑے تھے ، آج اسے ہماری لاشیں گرانے کی سہولت نہ دیں ، ارباب بست وکشاد ، دونوں جانب کے ارباب بست وکشاد من وتو کی تقسیم سےنکلیں ، سمجھ لیں کہ یہ تقسیم ہی دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ، جان لیں کہ گولی کابل میں چلے یا اسلام آباد میں لاش مسلمان کی گرتی ہے ، نقصان پاکستان اور افغانستان دونوں کا ہوتا ہے ۔ دہشت گرد پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر حملہ آور ہو یا افغان سرزمین استعمال کرکے پاکستان کا خون بہائے ، دونوں کا دشمن ہے ، آج ایک جانب رخ ہے، کل اسے بندوق کا رخ بدلتے دیر نہیں لگے گی ، یہ تاریخ کا سبق ہے ۔
اے کابل وقندھار کے لوگو
آئو مل کر پھول چنیں 
ان اپنوں کی یادوں کے
جو شہید ہوئےجو زندہ ہیں
آئیں ان کو یاد کریں
جو تیرے تھے جو میرے ہیں 
اے کابل اور قندھار کے لوگو
اے اسلام آباد لاہور کے لوگو

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دشمن کے

پڑھیں:

ایک بھیانک جنگ کا سامنا

اسلام ٹائمز: رہبر انقلاب اسلامی نے قوم کے دلوں سے ہر طرح کے خوف کو نکال باہر کرنے اور انہیں خود اعتمادی کی دولت سے آشنا کرنے کو امام خمینی (رح) کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری قوم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے عظیم کام انجام دینے کی طاقت رکھتی ہے اور دشمن جس طرح اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، حقیقت میں اتنا طاقتور نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عسکری میدان میں خوف پیدا کرنے اور پسپائی پر مجبور کرنے کو دشمن کی نفسیاتی جنگ کا اہم ہدف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق کسی بھی میدان میں حکمت عملی کے بغیر عقب نشینی اختیار کرنا، چاہے وہ عسکری میدان ہو یا سیاسی اور معاشی میدان، خدا کے غضب کا باعث بنتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

دنیا میں ایک خاموش اور بے رحم جنگ جاری ہے۔ سوچ پر غلبہ حاصل کرنے کی جنگ۔ یہ جنگ دماغ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی جنگ ہے اور اس جنگ کا آخری نتیجہ ذہنی سرحدوں پر قبضہ کرنے کے بعد جغرافیائی سرحدوں پر بلاچون و چرا اور بغیر کسی فوجی کارروائی کے قبضہ کرنا ہے۔ اس جنگ میں دشمن ہماری سرزمین کو فتح کرنے کے لیے پہلے ہمارے قلب و ذہن کے دروازے کو عبور کرتا ہے اور اس کے لئے نت نئے ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ آج کی جنگ معلومات، افواہوں اور ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے شروع ہوتی ہے۔ آج کے اس نئے دور میں قوموں کے ذہنوں اور ادراک کی سرحدوں پر موجود مورچوں کو فتح کرنے کے لیے نظریاتی میزائل اور ڈرونز استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر دشمن کے دل و دماغ کے مورچے فتح ہو جائیں تو ایک بھی گولی چلائے بغیر وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا۔ منصوبہ یہ ہے کہ انگلستان اور امریکہ کے لیڈروں کی رائے تمام دنیا کی رائے بن جائے۔۔۔۔ یہ سوچ اور دماغوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے دماغ پر قبضہ ہو جائے تو وہ قوم اپنی سرزمین کو دونوں ہاتھوں سے پلیٹ میں رکھ کر دشمن کے حوالے کر دیتی ہے۔ سوچ و فکر پر غلبے کے لئے نوجوانوں کے قلب و ذہن کو سب سے پہلے نشانہ پر لیا جاتا ہے۔ تحریف اور بہتان اسی کے لیے بہترین ہتھیار ہیں۔ یہ انداز جنگ دشمن کی نفسیاتی کارروائیوں کے خطرے کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک خفیہ جنگ جس کا مقصد علاقوں پر فوجی قبضہ کرنے کے بجائے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو فتح کرنا ہے۔ علمی جنگ، سادہ الفاظ میں، انسانی ادراک، عقیدہ اور فیصلہ سازی کو متاثر کرتی ہے اور متاثر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی جنگ میں انسانی دماغ اہم میدان جنگ ہوتا ہے۔

مغربی فوجی ماہرین کے الفاظ میں، ’’انسانی دماغ اکیسویں صدی کا  اصلی میدان جنگ ہے۔‘‘ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے، دشمن طاقتیں ٹارگٹ معاشرے کے خیالات کو اپنی مرضی کی ہدایت دینے کے لیے معلومات، میڈیا اور سائنسی آلات کا استعمال کرتی ہیں۔ نیٹو کے محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیورو سائنس، نفسیات، ڈیٹا مائننگ اور مصنوعی ذہانت میں پیشرفت نہ صرف انسانی ادراک کو فوراً متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے نظریاتی ہتھیاروں کو بھی بے کار بنا سکتی ہے۔ اس کے خیالات، یادوں اور فیصلوں کو اس طرح بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ اسے خود یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ یہ سب فیصلے خود کر رہا ہے۔ اس وجہ سے اس جنگ کو کلاسیکل نفسیاتی جنگ (پروپیگنڈا) سے الگ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں پیغام کے مواد میں براہ راست ہیرا پھیری کرنے کے بجائے مخاطب کے ذہن میں معلومات کو اس طرح منتقل کیا جاتا ہے کہ پیغام موصول کرنے والا اس میں باہر کی مداخلت کو محسوس ہی نہیں کر پاتا۔

دوسرے لفظوں میں، دشمن کے ذہن پر اس کے علم کے بغیر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگلے مرحلے میں اسے ریموٹ کنٹرول کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ تزویراتی نقطہ نظر سے، کسی قوم کے ذہن پر قبضہ اس کی سرزمین پر قبضے کا متبادل بھی ہوسکتا ہے۔ نیٹو نے اپنی دستاویزات میں اس علمی جنگ کی تعریف اس طرح کی ہے: "رویوں اور طرز عمل کو متاثر کرنے والی سرگرمیوں کے ذریعے حقیقت کے ادراک کو تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر معاشرے کے حقائق میں ہیرا پھیری کرنا۔ درحقیقت علمی جنگ میں حقیقت کو مسخ کرنا اور مخالف کو کمزور کرنے کے لیے سچائیوں کو الٹ پلٹ کر بیان کرنا ہے۔ یہ ترقی یافتہ نرم جنگ کسی ملک کے لوگوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سے روکتی ہے اور وہ اپنی مرضی سے یا نہ چاہتے ہوئے بھی دشمن کے خیالات اور خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے۔

روایتی جنگوں کے برعکس جس کا دائرہ کار محدود اور صرف فوجی مقاصد تک محدود ہوتا ہے، اس جنگ کا دائرہ کار زیادہ وسیع، پائیدار اور پورے معاشرے کو اپنے گھیرے میں لے سکتا ہے۔ یہ پورے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ 1990ء کی دہائی کے اوائل سے یہ تصور فوجی میدان سے آگے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ نئی انفارمیشن ٹیکنالوجیز کا ہر صارف علمی جنگ میں ممکنہ ہدف ہے اور یہ جنگ کسی قوم کے تمام انسانی سرمائے کو نشانہ بناتی ہے۔ سیدھے الفاظ میں، آبادی کے تمام افراد، خاص طور پر نوجوان، اس چھپی ہوئی جنگ کی فائر لائن میں ہیں۔ دشمن اپنی علمی جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے کلاسک نفسیاتی آپریشنز اور نئی میڈیا ٹیکنالوجیز کے امتزاج کا استعمال کرتا ہے۔ ان تمام تکنیکوں کا مشترکہ مقصد براہ راست فوجی تصادم کے بغیر لوگوں کے جذبات اور عقائد کو متاثر کرنا ہے۔

جھوٹ پھیلانا اور حقائق کو مسخ کرنا نفسیاتی آپریشن کے سب سے اہم ہتھیار ہیں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک خطاب میں اشارہ کیا ہے کہ افواہوں، جعلی خبروں اور بہتانوں کا ایک سیلاب معاشرے کے فعال ذہنوں بالخصوص نوجوانوں پر اثر انداز ہونے کی نیت سے پیدا کیا اور پھیلایا جاتا ہے۔ سائنسی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سائبر اسپیس میں جھوٹی معلومات اور افواہیں سچ سے کہیں زیادہ تیزی سے اور وسیع پیمانے پر پھیلتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ "جھوٹ سچائی سے کافی دور، تیز اور گہرا سفر کرتا ہے۔" اس بات کو افسوس کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں، غلط معلومات کا تیزی سے پھیلاؤ سچائی کے سامنے آنے سے پہلے رائے عامہ کو متاثر کرچکا ہوتا ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے الفاظ میں، جب غلط معلومات زور پکڑ لیتی ہیں تو اس سے پہلے کہ  سچائی مخاطب تک پہنچنے جھوٹ عوام پر اپنا اثر مرتب کرچکا ہوتا ہے۔

کیا اس جنگ کا مقابلہ ممکن ہے۔؟ اس سوال کا جواب رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کے اقتباس میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے نفسیاتی جنگ کے حوالے سے ایران کے بدخواہوں کی چالوں کا ذکر کرتے ہوئے ایرانی قوم کو مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور دشمن کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے بچنے کو اس جنگ کے مقابلے کا اہم ذریعہ قرار دیا اور کہا: شہداء اپنی قربانیوں اور جدوجہد سے اس نفسیاتی جنگ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ناکام بنا دیا۔ لہذا شہداء کے ایام مناتے وقت اس سچائی کو اجاگر کیا جائے اور اسے زندہ رکھا جائے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کی صلاحیتوں کے بارے میں مبالغہ آمیزی کو ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی وہ ہماری قوم کو مختلف طریقوں سے امریکہ، برطانیہ اور صیہونیوں سے ڈرانے کے حربے استعمال کرتے آرہے ہیں۔

انہوں نے قوم کے دلوں سے ہر طرح کے خوف کو نکال باہر کرنے اور انہیں خود اعتمادی کی دولت سے آشنا کرنے کو امام خمینی (رح) کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری قوم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے عظیم کام انجام دینے کی طاقت رکھتی ہے اور دشمن جس طرح اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، حقیقت میں اتنا طاقتور نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عسکری میدان میں خوف پیدا کرنے اور پسپائی پر مجبور کرنے کو دشمن کی نفسیاتی جنگ کا اہم ہدف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق کسی بھی میدان میں حکمت عملی کے بغیر عقب نشینی اختیار کرنا، چاہے وہ عسکری میدان ہو یا سیاسی اور معاشی میدان، خدا کے غضب کا باعث بنتا ہے۔

انہوں نے کمزوری اور تنہائی کے احساس اور دشمن کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو سیاسی میدان میں اس کی طاقت کی وسعت کے اثرات قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہ حکومتیں جو آج بڑی اور چھوٹی قوموں کے ساتھ مل کر استکبار کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہیں۔ وہ اپنی قوموں کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اور دشمن کے کھوکھلی طاقت کا ادراک حاصل کر لیں تو وہ دشمن کو ”آنکھیں“ دکھا سکتی ہیں اور اس کے مطالبات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتی ہیں۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دشمن کی ثقافت سے مرعوب ہونے اور اپنی ثقافت کو حقیر سمجھنے کو ثقافتی میدان میں دشمن کی برتری تسلیم کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کی کمزوری کا نتیجہ دوسرے فریق کے طرز زندگی کو قبول کرنے اور یہاں تک کہ اغیار کی زبان کو استعمال کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک بھیانک جنگ کا سامنا
  • پاکستان نے افغان طالبان کو تسلیم کرنے کی خبروں کو قیاس آرائی قرار دے کر مسترد کر دیا
  • طالبان حکومت تسلیم کرنے کی خبریں قیاس آرائی پر مبنی ہیں( ترجمان دفتر خارجہ)
  • افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں پر ہمارے تحفظات پر مثبت ردعمل دکھایا ہے:پاکستان
  • دہشت گرد پناہ گاہوں پر تشویش، طالبان حکومت تسلیم کرنے کی خبریں قیاس آرائی: دفتر خارجہ
  • پی ٹی آئی بانی کے بیٹے آ رہے ہیں، جس نے گرفتار کرنا ہے کر لیں، علیمہ خان
  • وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا
  • طالبان، لوٹنے والے افغان شہریوں کے ’حقوق کی خلاف ورزیاں‘ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ
  • پاک افغان معاہدہ طے، کن سبزی و پھلوں کی تجارت ہوگی، ٹیرف کتنا؟
  • نومئی کرنے اور کرانے والے پاکستان کے اصل دشمن ہیں، عظمی بخاری