Daily Ausaf:
2025-04-25@05:00:24 GMT

خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ

اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
نیشنل ڈیفنس سٹاک پائل کے مطابق امریکا کے پاس اگلے دوسال کی ضرورت کے لئے نایاب معدنیات کاہنگامی ذخیرہ موجودہے لیکن سالانہ ضرورت کے لئے ساڑھے چارہزارٹن معدنیات صرف فوجی ہوئی جہازوں کے لئے درکارہوتاہے اورسالانہ ضرورت کا 10 فیصد نایاب معدنیات یعنی ایک ہزارٹن بیٹریاں بنانے کے لئے درکارہوتاہے۔اس لئے خدشہ یہ ہے کہ ہنگامی سٹاک سے استعمال کرنے کی پالیسی مستقبل کے کسی بڑے خطرے کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
امریکانے چینی نایاب معدنیات کے متبادل کے لئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں جس میں مغربی آسٹریلیامیں نئے کان کنی منصوبوں میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری بھی کی گئی ہے۔اسی طرح کیوبک کینیڈا میں(دنیاکا60 فیصد ) نائوبیئم کے ذخائر موجود ہیں لیکن پروسیسنگ نہ ہونے کے برابرہے۔جرمنی کی کمپنی سیمنز نے گرین لینڈ میں کان کنی کاآغازکررکھاہے لیکن 2020ء تک پیداوارممکن نہیں۔
بد قسمتی سے امریکی صدرٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں قدم جماتے ہی اپنے ہمسایہ کینیڈاکو دھمکیوں سے اس قدرخوفزدہ کردیاکہ کینیڈاکے سربراہ جسٹن ٹروڈوکووقت سے پہلے اس لئے مستعفی ہوناپڑگیاکہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں امریکاکی کسی قسم کی غلامی کے پلان میں شریک نہ ہوسکیں اوراسی طرح کی دھمکی سے ڈنمارک کوبھی خوفزدہ کردیاکہ گرین لینڈامریکاکاحصہ ہے اوروہ کسی بھی وقت گرین لینڈپر قبضہ کرسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے سب سے مضبوط اتحادی یورپی یونین کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے نیٹوپر بھرپورتنقید کرتے ہوئے یورپی یونین کوبھی ٹیرف کی ممکنہ پابندیوں میں شامل کردیاہے۔
ادھردوسری طرف چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں جہاں ٹیرف میں اضافہ کیاہے وہاں چینی پابندیوں کے بعدامریکامیں چینی نایاب معدنیات کی قیمتوں میں تین سوفیصد اضافہ ہوگیاہے۔اس سے جہاں ملٹری انڈسٹری کمپلیکس شدیدمتاثرہواہے وہاں جیوپولیٹیکل دباؤ میں بھی اضافہ کاامکان ہے جس کی وجہ سے امریکا کے اقتصادی اورسیاسی خطرات میں واضح اضافہ ہوتا دکھائی دے رہاہے۔چین کی ان پابندیوں کی وجہ سے لاکہیڈ مارٹن، بوئنگ جیسی کمپنیوں کوہرماہ 50ملین ڈالرکااضافی خرچ برداشت کرناپڑرہاہے۔ سیاسی، اقتصادی دفاعی ماہرین کاکہناہے کہ مستقبل میں چین تائیوان کے تنازعہ میں نایاب معدنیات کو’’ہتھیار‘‘کے طورپراستعمال کر سکتا ہے۔
تاریخی تناظرمیں نایاب معدنیات کی خود کفالت میں امریکابتدریج زوال پذیر ہوا ہے۔ 1980ء تک ان معدنیات میں وہ دنیاکی100فیصد پیداوارکے مقا بلے میں60 فیصد تک خودکفیل تھالیکن1990ء کی دہائی میں موحولیاتی قوانین اورچین کی سستی مزدوری نے امریکی صنعت کوتباہ کردیا۔بعدازاں2000ء کے بعد جونہی ’’رئیرایکسپورٹ کوٹا سسٹم ‘‘ کاآغازہوا،چین نے عالمی منڈی پراپنا کنٹرول مضبوط کر لیاجس کے نتیجے میں آج چین معاشی طورپرامریکااورمغربی ممالک کے لئے ایک بہت بڑامعاشی خطرہ بن گیاہے لیکن اس کے پیچھے چین کی برسوں سے مستقل مزاجی، انتھک محنت اور پالیسیوں کااستحکام نظرآتاہے۔
ان نایاب معدنیات کے عالمی ذخائرنے جغرافیا ئی سیاست پربھی گہرااثرچھوڑاہے۔ اگرچہ نایاب معدنیات کا 37فیصد ذخیرہ چین میں ہے، لیکن دنیا کی 75 معدنیات کی پروسیسنگ پراس کاغلبہ ہے۔ویت نام، برازیل،روس،پاکستان اوربھارت جیسے ممالک میں بھی معدنیات کی قابل ذکرمقدار موجود ہے۔ تاہم،ان ممالک میں ٹیکنالوجی اورسرمایہ کی کمی نے چین کو اجارہ داربنادیاہے۔امریکااب ان ممالک کے ساتھ معاہدے کرکے اپنی سپلائی چین کومتنوع بنانے کی کوشش کررہاہے۔مثال کے طورپرآسٹریلیاکے ساتھ ایک مشترکہ منصوبہ’’دی سولر سٹریٹجی‘‘ کے تحت چین سے آزاد ہونے کی کوشش کی جارہی ہے مگریہ راستہ بھی کانٹوں سے بھراہواہے کیونکہ پروسیسنگ کی سہولتیں تعمیرکرنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن وسائل پرکنٹرول ہو، وہی قومیں عروج پرہوتی ہیں۔چین کی یہ حرکت 2010ء کے اس واقعے کی یادایک تاریخی سبق اور مستقبل کااشارہ یاد دلاتی ہے جب اس نے جاپان کو سمندری تنازعے کے دوران نایاب معدنیات کی ترسیل روک دی تھی۔آج یہی حکمت عملی امریکاکے خلاف استعمال ہورہی ہے۔اگرچہ امریکا نے ’’ریئرارتھ انڈیپینڈنس ایکٹ’’2023‘‘ ایسے قوانین متعارف کرائے ہیں، مگرچین کے سامنے یہ کوششیں ابھی ناکافی ہیں۔
جس طرح کبھی سلطنتِ روماکولوہے پرکنٹرول حاصل تھااوربرطانیہ کوکوئلے پر،آج چین نے نایاب معدنیات کواپنی عظمت کانشان بنا لیاہے۔یہ تجارتی جنگ محض محصولات تک محدودنہیں،بلکہ یہ ایک ایسی جغرافیائی شطرنج ہے جس میں ہرچال مستقبل کے عالمی توازن کو متاثرکرتی ہے۔یادرکھیں کہ’’زبانِ سیاست میں خاموشی بھی ایک بیان ہے‘‘۔چین کایہ خاموش اعلان نایاب معدنیات کی پابندی دراصل ایک طاقتوربیان ہے جو امریکاکی اقتصادی اورتکنیکی بالادستی کوللکاررہا ہے۔ امریکا کایہ انحصارصرف اقتصادی نہیں،بلکہ قومی سلامتی کامسئلہ ہے۔ جیساکہ لارڈمیکالے نے کہاتھا: ’’طاقت کا اصل سرچشمہ دولت نہیں،بلکہ اس دولت کوکنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے‘‘۔چین نے اس صلاحیت کواپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اورامریکاکواپنی حکمت عملی ازسرنومرتب کرنی ہوگی۔
تاریخی تناظرمیں اگرمعدنیات کی اس جنگ کاجائزہ لیاجائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ جیسے قدیم رومانے لوہے کی تلواروں سے یورپ کو فتح کیاتھا،چین آج نایاب معدنیات سے عظیم الشان ڈیجیٹل سلطنت بنارہا ہے۔ جس طرح 1973ء میں عربوں نے تیل کا ہتھیار استعمال کرکے ایک عالمی بحران پیداکر دیا تھا، اسی طرح چین’’رئیرارتھ‘‘کواسی طرح استعمال کر رہا ہے۔ مجھے اس موقع پرونسٹن چرچل کاایک قول یاد آرہاہے کہ ’’تاریخ فاتحین کے حق میں لکھی جاتی ہے‘‘۔چین اس وقت تاریخ لکھنے کی پوزیشن میں ہے۔
چین کی اس حکمت عملی نے تجارتی جنگ کو ایک نئے دورمیں داخل کردیاہے۔جس طرح اڈمنڈبرک نے کہاتھا:
’’جنگ صرف تلواروں سے نہیں،بلکہ اقتصادی پالیسیوں سے بھی لڑی جاتی ہے‘‘۔
چین نے یہ سبق یادرکھاہے۔اگرامریکااپنی پروسیسنگ صلاحیت نہ بڑھاسکا،تویہ جنگ صرف ٹیرف تک نہیں،بلکہ ٹیکنالوجی کی بالادستی تک پھیل سکتی ہے۔ مجھے یہ کہنے دیں کہ’’ ــزبان علم ہویاسیاست،الفاظ کا انتخاب ہی تاریخ بناتاہے‘‘۔چین کے الفاظ(نایاب معدنیات)نے اسے تاریخ کے دھارے میں ایک طاقتور مقام دے دیاہے جس میں امریکی نخوت وتکبر اور اس کی ظالمانہ اورانسانیت کش پالیسیوں کا بہت بڑاعمل دخل ہے۔بالخصوص تیسری دنیاکے کسی بھی ملک کے باشندوں میں امریکی پالیسیوں کے لئے کوئی ہمدردی نہیں پائی جاتی۔
تجارتی جنگ کانیامحاذنایاب معدنیات پرچین کی حکمت عملی اورامریکاکی مجبوری ایک نئے انقلاب کی نویدبننے جارہاہے جہاں طاقت کاسرچشمہ صرف معاشی فتوحات سے آنے والی خوشیوں سے ناپاجائے گا اور چین اس معرکے میں تیزی کے ساتھ کامیابی کے جھنڈے گاڑرہاہے۔
کہاں ہیں امریکا اور مغرب میں بیٹھے ہمارے وہ محترم دوست!وہ کیوں آج کے امن دشمنوں کے سامنے خاموش ہیں؟ اس کرہ ارض پر آپ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ حق کے لئے میدان میں اتریں وگرنہ اس تجارتی جنگ کی آڑ میں امن کے دشمن پھر سے جنگ کے شعلوں پر پٹرول پھینک کر اس دنیا کو تاریک کرنے کی کوششوںمیں کامیاب ہو جائیں گے۔ یقینا میری اس درخواست پر امن اور دوستی کا مضبوط ہاتھ بڑھانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔
اے اہلِ خرد!اے اربابِ دانش وشعور!کب تک خاموشی کوتدبرکانام دیتے رہوگے؟دنیاکے گلی کوچے لہوسے ترہورہے ہیں،انسانیت کی سانسیں بے صداہوچکی ہیں،اورامن صرف بین الاقوامی اجلاسوں کی دستاویزات میں قیدہے۔وقت کاتقاضاہے کہ وہ اہلِ مغرب،وہ اہلِ امریکا،جن کے دلوں میں ابھی انسانیت کی رمق باقی ہے،وہ خاموشی توڑیں۔ورنہ یادرکھو،تاریخ وہی بولے گی جوسچ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔کہیں ایسانہ ہوکہ تمہارے سناٹے میں ظلم کی آوازگونجنے لگے،اورپھرتم صرف تعزیتیں لکھنے کے قابل رہ جاؤ ۔آج کی خاموشی کل کی پشیمانی بن سکتی ہے۔اٹھو،کہ امن تمہیں آوازدے رہاہے۔
امن کی راہ تمہارے قدموں کی منتظر ہے کیا تم اب بھی خاموش رہو گے؟
اٹھو!قبل اس کے کہ امن کا چراغ بجھ جائے اور اندھیرا ہم سب کو نگل جائے۔
تم خاموش رہے، اور وقت بول پڑااب بھی مہلت باقی ہے، فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔
اے امن کے دعویدارو! امن تمہیں آواز دے رہا ہے کیا تم نے سننے سے انکار کر دیا؟
اگر تم نہ نکلے، تو وہ نکل آئیں گے جو امن کے نہیں، جنگ کے پیامبر ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نایاب معدنیات کی تجارتی جنگ استعمال کر حکمت عملی نہیں بلکہ کے ساتھ چین نے کے لئے چین کی

پڑھیں:

اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس، مائنز اینڈ منرلز بل مسترد

اے پی سی میں شریک سیاسی جماعتوں نے مائنز اینڈ منرلز بل کو مسترد کردیا۔ میاں افتخار حسین نے کہا کہ مائنز اینڈ منرل بل خیبر پختون خوا کی معدنیات ت پر وفاق کا کنٹرول دینا ہے۔ یہ بل صوبے کی معدنیات و وسائل پر قبضے کے برابر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عوامی نیشنل پارٹی کے تحت پشاور میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکا نے مائنز اینڈ منرلز بل مسترد کردیا۔ مائنز اینڈ منرلز بل پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ اے پی سی میں شریک سیاسی جماعتوں نے مائنز اینڈ منرلز بل کو مسترد کردیا۔ میاں افتخار حسین نے کہا کہ مائنز اینڈ منرل بل خیبر پختون خوا کی معدنیات ت پر وفاق کا کنٹرول دینا ہے۔ یہ بل صوبے کی معدنیات و وسائل پر قبضے کے برابر ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاک فوج کے زیر انتظام کمرشل سرگرمیوں کی تفصیل عوام کے سامنے لائی جائے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے بھی مطالبہ ہے کہ اس بل کو مسترد کیا جائے، یہ یہ زبردستی منظور کیا گیا تو صوبہ بھر میں تحریک چلائی جائے گی۔

قبل ازیں کانفرنس میں شرکت کے لیے پی ٹی آئی کا وفد صوبائی جنرل سیکرٹری علی اصغر خان کی قیادت میں پہنچا۔  جے یو آئی کی جانب سے مولانا عطا الرحمٰن، پیپلز پارٹی کے محمد علی شاہ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بشریٰ گوہر، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، ن لیگ کے مرتضیٰ جاوید عباسی شریک ہوئے۔ اے پی سی  کی صدارت اے این پی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے کی۔ کانفرنس کا مقصد صوبے کے معدنی وسائل سے متعلق مجوزہ ایکٹ پر تمام فریقین کی مشاورت حاصل کرنا تھا۔ کانفرنس میں طارق احمد خان کی قیادت میں قومی وطن پارٹی کا وفد، عادل محمود کی قیادت میں مزدور کسان پارٹی، خورشید کاکاجی کی قیادت میں پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی، بیرسٹر عنایت اللہ کی قیادت میں عوامی ورکرز پارٹی کا وفد شریک تھا۔

علاوہ ازیں چیمبر آف کامرس، وکلا، ماہرینِ معدنیات اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شریک تھے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں تاجر تنظیموں اور مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن کے نمائندگان بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کا مشترکہ اعلانیہ بھی جاری کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ووٹ کی طاقت ہی جمہوریت کو مضبوط بناتی ہے: ملک محمد احمد خان
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
  • بحیرہ مرمرہ میں طاقت ور زلزلے نے استنبول کو ہلا کر رکھ دیا
  • اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس، مائنز اینڈ منرلز بل مسترد
  • چکوال: سالٹ رینج میں نایاب جنگلی بھیڑیا ایک بار پھر نظر آ گیا
  • بہاولپور: چرواہوں نے نایاب نسل کے انڈین سرمئی بھیڑیے کو ہلاک کر دیا
  • شکر گڑھ میں بھارتی نایاب نسل کا ہرن گھس آیا
  • خاموش بہار ۔وہ کتاب جوزمین کے دکھوں کی آواز بن گئی