چھنگ ڈاؤ(شِنہوا)چین کے مشرقی ساحلی شہر چھنگ ڈاؤ میں واقع چائنہ- ایس سی او مقامی اقتصادی اور تجارتی تعاون کا نمائشی علاقہ (ایس سی او ڈی اے) چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے میں تیزی سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وسیع تر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے حصے کے طور پر ایس سی او ڈی اے زراعت، بنیادی شہری سہولتوں، نقل وحمل اور تجارت میں تعاون کے لئے ایک اہم پل بن گیا ہے۔ پاکستان کو اپنی مضبوط زرعی بنیاد کے ساتھ چین میں ایک معاون شراکت دار مل گیا ہے جو زرعی ٹیکنالوجی اور آلات میں بہترین ہے۔ چھنگ ڈاؤ میں ایس سی او بین الاقوامی ماحول دوست زرعی پیداوار نمائش اور تجارتی مرکز کے جنرل منیجر لی بائی ان نے کہا کہ یہ مرکز اہم پاکستانی مصنوعات جیسے تل اور مرچ کی درآمدات کو مضبوط بنا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی فرموں کے ساتھ شراکت داری میں مرچ پروسیسنگ کی اعلیٰ سہولیات قائم کرنے کے منصوبے جاری ہیں، جس کا مقصد کیپسیسن نکالنا اور دیگر تیارمصنوعات حاصل کرنا ہے۔ بی آر آئی کا اہم منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پہلے ہی خاطر خواہ نتائج دے چکا ہے۔ پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات میں سی پیک کے سابق ایگزیکٹو سیکرٹری عدنان شاہ کے مطابق سی پیک نے گزشتہ دہائی کے دوران قابل ذکر پیشرفت کی ہے، جس نے پاکستان کے معاشی منظر نامے کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہراہوں، ریلوے اور گوادر بندرگاہ کی ترقی سمیت بنیادی شہری سہولتوں کے بڑے منصوبوں نے تجارتی راستوں میں اضافہ کیا ہے اور علاقائی اقتصادی مرکز کے طور پر پاکستان کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ اس پیشرفت سے نہ صرف ملکی معاشی سرگرمیوں میں سہولت ملی ہے بلکہ عالمی منڈیوں کے ساتھ پاکستان کے انضمام میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایس سی او ڈی اے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے نفاذ میں بھی قابل ذکر کردار ادا کر رہا ہے۔ ایس سی او ڈی اے کا قیام 2018 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے چھنگ ڈاؤ سربراہ اجلاس کے بعد عمل میں آیا تھا۔ یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کے درمیان تجارت، نقل وحمل، سرمایہ کاری اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے ایک کلیدی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ ایس سی او ڈی اے کے مرکز میں چھنگ ڈاؤ ایس سی او ڈی اے پرل بین الاقوامی نمائشی مرکز واقع ہے اور پاکستان کا قومی پویلین، جو چین۔ ایشیا اقتصادی ترقیاتی ایسوسی ایشن کی سرحد پار تجارتی کمیٹی کا حصہ ہے، اسی مرکز میں واقع ہے۔ یہ پویلین چین اور پاکستان کے مابین اقتصادی اور تجارتی شراکت داری کو اجاگر کرنے کے لئے ایک اہم “کھڑکی” بن گیا ہے۔ پویلین کی نگرانی کرنے والے چھن لونگ نے کہا کہ سرحد پار تجارتی کمیٹی کی رہنمائی میں یہ پلیٹ فارم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور ثقافتی تبادلوں کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پویلین نہ صرف پاکستان کے شاندار ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس کی منفرد مصنوعات بھی پیش کرتا ہے جو چینی صارفین کی ایک بڑی تعداد کو راغب کرتا ہے۔ ایسے میں جب چین اس موسم خزاں میں تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے، مضبوط علاقائی تعاون کی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ چین اور پاکستان ابھرتے ہوئے شعبوں جیسے سمارٹ زراعت، ڈیجیٹل معیشت اور ماحول دوست توانائی میں تعاون بڑھانے کے لئے تیار ہیں۔ عدنان شاہ نے کہا کہ اپنے قیام کے بعد سے شنگھائی تعاون تنظیم سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی تعاون کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر ابھری ہے جو استحکام، ترقی اور رابطے میں مشترکہ مفادات والے ممالک کو اکٹھا کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی قابل کاشت زرخیز زمین کی وجہ سے مشرقی ایشیا کے لئے خوراک کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور بی آر آئی کے لائحہ عمل کے تحت پاکستان اور چین کے درمیان زرعی تعاون مزید مستحکم ہونے کی توقع ہے۔ چین ایشیا اقتصادی ترقیاتی ایسوسی ایشن کے نائب صدر ژو چھیان چھیو نے شِنہوا کو بتایا کہ ماہی گیری اور زرعی مصنوعات میں چین اور پاکستان کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی مصنوعات زیادہ مسابقتی طور پر چینی مارکیٹ میں داخل ہو رہی ہیں، بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کر رہی ہیں جبکہ پاکستانی برآمد کنندگان کے لئے زیادہ آمدنی پیدا کررہی ہیں۔ ژو نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرکے چینی کمپنیاں سمندری خوراک کی قابل اعتماد رسد حاصل کرسکتی ہیں جبکہ پاکستان کی ماہی گیری پروسیسنگ ٹیکنالوجی کو بڑھانے اور مقامی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں بھی مدد کرسکتی ہیں

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: شنگھائی تعاون تنظیم چین اور پاکستان ایس سی او ڈی اے کہ پاکستان پاکستان کی پاکستان کے کے لئے ایک کے درمیان کے طور پر نے کہا کہ انہوں نے کے ساتھ کرتا ہے رہا ہے

پڑھیں:

امریکا اور بھارت کے دفاعی معاہدے کی کیا اہمیت ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-03-6

 

وجیہ احمد صدیقی

امریکا اور بھارت نے 31 اکتوبر 2025 کو ایک اہم 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستاویزی شکل میں دستخط کیے ہیں، جو کہ ان کے درمیان دفاعی تعاون کی نئی دہائی کی شروعات کا اعلان ہے۔ یہ معاہدہ ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں ASEAN Defense Ministers Meeting-Plus کے دوران بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹ کے مابین ہوا۔ اس دفاعی فریم ورک کا مقصد اگلے دس سال میں فوجی تعاون کو بڑھانا، ٹیکنالوجی کے تبادلے کو فروغ دینا، اور مشترکہ فوجی مشقوں کو وسعت دینا ہے۔ معاہدے میں خصوصاً ’’Make in India, Make for the World‘‘ کے لیے دفاعی صنعتوں کی مشترکہ پیداوار اور ترقی پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اطلاعات اور انٹیلی جنس کے تبادلے کو مضبوط بنانے، سائبر اور بحری تحفظ جیسے عسکری چیلنجز سے نمٹنے، اور علاقائی استحکام کے لیے ایک آزاد اور قوانین پر مبنی انڈو- پیسفک خطے کو قائم رکھنے کی ذمے داریوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اسے ’’دوسری دہائی کے لیے ایک متحد دفاعی حکمت عملی‘‘ قرار دیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک شراکت مضبوط ہوگی۔ امریکی وزیر دفاع نے بھی اس کو دونوں ممالک کے درمیان ایک ادارہ جاتی اور وسیع تعاون کا اہم سنگ میل قرار دیا، جو خاص طور پر چین کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں کے پیش نظر انڈو- پیسفک خطے میں امریکا کے حق میں توازن قائم رکھنے کی کوشش ہے۔

یہ معاہدہ گزشتہ برسوں کے دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کرتا ہے، جس میں بھارت کو امریکا سے جدید ہتھیاروں اور تکنیکی معاونت حاصل کرنے، اور مشترکہ دفاعی پیداوار کو فروغ دینے کے مواقع شامل ہیں۔ خلاصہ کے طور پر، امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والا یہ 10 سالہ دفاعی معاہدہ علاقائی سلامتی، دفاعی صنعتوں کی ترقی، اور فوجی تعاون کو نئی بلندیوں تک لے جانے والا ایک کلیدی اقدام ہے، جو دونوں ملکوں کے تعلقات کی گہرائی اور اسٹرٹیجک مفادات کا عکاس ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کا علم ہونے کے باوجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آسیان اجلاس میں شرکت نہیں کی اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کا موقع کھو دیا۔

امریکا نے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے ہیں جن میں جاپان، جرمنی، برطانیہ، اسرائیل، ترکیہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان کئی دفاعی معاہدے ہوئے ہیں، جن میں جدید میزائل پروگرام میں پاکستان کی شمولیت بھی شامل ہے۔ پاکستان امریکا کے اس عالمی میزائل پروگرام میں 30 ممالک کی فہرست میں شامل ہوا ہے جہاں جدید میزائل خریدے جاتے ہیں، اور پاکستان نے اپنے ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لیے امریکی تعاون حاصل کیا ہے۔ یہ معاہدے پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے فوجی اور اقتصادی تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔

امریکا نے بھارت کے ساتھ کسی جنگ میں ساتھ دینے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا، تاہم دفاعی معاہدوں کے ذریعے علاقائی سیکورٹی تعاون کو فروغ دیا جارہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکا نے متعدد دفاعی معاہدے کیے ہیں جن کے تحت جدید ہتھیاروں اور میزائلوں کی فراہمی، فوجی تربیت اور اسٹرٹیجک تعاون شامل ہیں، لیکن پاکستان اور امریکا کے درمیان جنگ کی صورت میں براہ راست حمایت کا کوئی معاہدہ نہیں۔

یہ معاہدے علاقائی سیکورٹی کے تناظر میں امریکا کی عسکری اور سفارتی پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں جو پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مختلف انداز میں سنوارتے ہیں۔ مزید تفصیلات معاہدوں کی نوعیت، تاریخ اور اثرات پر مزید تحقیق اور دستاویزی مواد کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح امریکا نے دفاعی معاہدات کے ذریعے خطے میں اپنی سیاسی اور فوجی حکمت عملی کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکا کے بین الاقوامی دفاعی معاہدوں کی مکمل فہرست تیار کرنا ایک وسیع موضوع ہے کیونکہ امریکا نے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ مختلف دوروں میں متعدد دفاعی معاہدے کیے ہیں۔ تاہم، موجودہ معتبر ذرائع کی بنیاد پر امریکا کے چند نمایاں اور اہم بین الاقوامی دفاعی معاہدات سال وار ترتیب میں یہ ہیں۔

2017: جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کا معاہدہ؛ جو نیوکلیئر ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے قانونی اور بین الاقوامی معاہدہ ہے۔

2020: دوحا امن معاہدہ؛ امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جنگ بندی کے لیے۔

2020: نگورنو کاراباخ جنگ بندی معاہدہ؛ جس نے 2020 کی ناگورنو کاراباخ جنگ ختم کی۔

2025: امریکا نے پاکستان کو جدید درمیانی فاصلے کے میزائل پروگرام میں شامل کیا، جس میں ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن بھی شامل ہے۔

2025: امریکا اور بھارت نے 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت دفاعی تعاون، حساس ڈیٹا کا تبادلہ، اور تکنیکی شراکت داری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں بھارت کو امریکی فوجی سیٹلائٹ سے حساس معلومات کی رسائی بھی دی گئی ہے۔ امریکا کے ساتھ دیگر ممالک کے بھی دفاعی معاہدات ہیں جن میں مختلف فوجی مشقیں، ہتھیاروں کی فراہمی، اور اسٹرٹیجک تعاون شامل ہیں۔ یہ فہرست جامع تو نہیں لیکن اہم اور تازہ ترین معاہدات کی نمائندگی کرتی ہے جو امریکا کی عالمی دفاعی حکمت عملی کے بنیادی ستون ہیں۔ تفصیلی معاہدات کی مکمل فہرست عالمی دفاعی اور سفارتی اداروں کی دستاویزات میں دستیاب ہوتی ہے۔ امریکی بین الاقوامی دفاعی معاہدوں کے کلیدی شرائط اور فریقین درج ذیل ہیں، جن کا خلاصہ اہم معاہدوں کی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہے۔

امریکا، بھارت 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدہ (2025) فریقین: امریکا اور بھارت۔ کلیدی شرائط: دفاعی تعاون، حساس فوجی معلومات کی باہمی فراہمی، مشترکہ فوجی مشقیں، دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی، دہشت گردی کے خلاف اشتراک عمل۔ مقصد: علاقائی استحکام اور دفاعی شراکت داری کو مضبوط کرنا۔

امریکا، پاکستان جدید میزائل پروگرام میں شمولیت (2025): فریقین: امریکا اور پاکستان۔ کلیدی شرائط: پاکستان کے جدید درمیانی فاصلے کے میزائل پروگرام میں شمولیت، ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن، فوجی ہتھیاروں کی فراہمی، مشترکہ دفاعی تربیت۔ مقصد: پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو جدید بنانا اور دو طرفہ تعلقات کو تقویت دینا۔

دوحا امن معاہدہ (2020): فریقین: امریکا اور طالبان۔ کلیدی شرائط: لڑائی بند کرنا، افغان حکومت سے بات چیت شروع کرنا، غیر ملکی افواج کا انخلا، طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی حمایت ختم کرنا۔ مقصد: افغانستان میں پائیدار امن قائم کرنا۔

جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے معاہدات (متعدد برسوں میں) فریقین: امریکا اور دیگر عالمی ممالک۔ کلیدی شرائط: نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری، جانچ اور استعمال کی روک تھام، نیوکلیئر تکنیکی معلومات کی از سر نو جانچ اور کنٹرول۔ مقصد: عالمی نیوکلیئر استحکام اور ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنا۔ یہ معاہدے تمام شرائط میں قانونی، فنی اور سیاسی پہلوؤں پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں فریقین کی ذمے داریوں، تعاون کی حدود، مدت، سیکورٹی تصدیق، اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار کی تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔ یہ فریقین کے درمیان اعتماد قائم کرنے، دفاعی تعاون مضبوط بنانے، اور علاقائی اور عالمی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ مزید تفصیلی شرائط ہر معاہدے کی سرکاری دستاویزات یا متعلقہ حکومتی و عالمی اداروں کے مواد میں موجود ہوتی ہیں۔

 

وجیہ احمد صدیقی

متعلقہ مضامین

  • امریکا اور بھارت کے دفاعی معاہدے کی کیا اہمیت ہے؟
  • پنجاب بھر میں اساتذہ کے ساتھ ریشنلائزیشن میں ہونے والی حق تلفی کا ازالہ کیا جائے، اساتذہ کا مطالبہ
  • افغانستان سفارتی روابط اور علاقائی مفاہمت کے لیے پرعزم ہے، امیر خان متقی
  • کیا کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ ختم ہو گئی؟
  • مقبوضہ فلسطین کا علاقہ نقب صیہونی مافیا گروہوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکا ہے، عبری ذرائع
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • وزیر تجارت سے ایرانی سفیر کی ملاقات: اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • سعودی عرب سے فنانسنگ سہولت، امارات سے تجارتی معاہدہ؛ پاکستانی روپیہ مستحکم ہونے لگا
  • ٹی ایل پی پر پابندی اچھی بات ہے، کسی دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرنی چاہیے: اسپیکر پنجاب اسمبلی