دنیا کا سب سے کڑوا ترین مادہ دریافت
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
Amaropostia stiptica عرف کڑوی بریکٹ فنگس نامی مشروم اگرچہ زہریلا نہیں ہے لیکن اس کا ذائقہ ایسا ہے کہ آپ کو لگے گا کہ آپ مرجائیں گے۔
سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ اس مشروم کی قسم میں ایک مادہ اتنا کڑوا پایا جاتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی مقدار بھی آپ کے کڑوے ذائقے کو انتہائی متحرک کر دیتی ہے۔
جیسا کہ اس کے نام سے پتہ چلتا ہے، کڑوی بریکٹ ایک ناقابل خوردنی مشروم ہے۔ جرمنی میں لیبنز انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سسٹمز بائیولوجی اینڈ پلانٹ بائیو کیمسٹری کی تحقیقی ٹیم نے اس کا تجزیہ کرنا شروع کیا لیکن انہیں اس میں دنیا کے سب سے کڑوے مرکب کو دریافت کرنے کی توقع نہیں تھی۔
یہ مشروم پورے یورپ، ایشیا اور شمالی امریکا میں ویران جنگلوں میں درختوں کے ساتھ جڑا ہوا اگتا ہے لیکن چونکہ یہ زیادہ قابل توجہ نہیں ہے اس لیے اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا رہا ہے۔
تاہم اس نے حال ہی میں oligopolyn D نامی مرکب کی وجہ سے سائنسی برادری کی اپنی طرف بہت زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کے سب سے کڑوے مادے کا دعویدار ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔