Express News:
2025-07-05@19:23:19 GMT

دنیا کا سب سے کڑوا ترین مادہ دریافت

اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT

Amaropostia stiptica عرف کڑوی بریکٹ فنگس نامی مشروم اگرچہ زہریلا نہیں ہے لیکن اس کا ذائقہ ایسا ہے کہ آپ کو لگے گا کہ آپ مرجائیں گے۔

سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ اس مشروم کی قسم میں ایک مادہ اتنا کڑوا پایا جاتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی مقدار بھی آپ کے کڑوے ذائقے کو انتہائی متحرک کر دیتی ہے۔

جیسا کہ اس کے نام سے پتہ چلتا ہے، کڑوی بریکٹ ایک ناقابل خوردنی مشروم ہے۔ جرمنی میں لیبنز انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سسٹمز بائیولوجی اینڈ پلانٹ بائیو کیمسٹری کی تحقیقی ٹیم نے اس کا تجزیہ کرنا شروع کیا لیکن انہیں اس میں دنیا کے سب سے کڑوے مرکب کو دریافت کرنے کی توقع نہیں تھی۔

یہ مشروم پورے یورپ، ایشیا اور شمالی امریکا میں ویران جنگلوں میں درختوں کے ساتھ جڑا ہوا اگتا ہے لیکن چونکہ یہ زیادہ قابل توجہ نہیں ہے اس لیے اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا رہا ہے۔

تاہم اس نے حال ہی میں oligopolyn D نامی مرکب کی وجہ سے سائنسی برادری کی اپنی طرف بہت زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کے سب سے کڑوے مادے کا دعویدار ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

کربلا اور کربلا والے!

اسلام ٹائمز: کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر انکے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، انکے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، انکا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ انکا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

کربلا ایک ایسا نام ہے، جس پر ہم سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، حتیٰ ٰسب سے قیمتی چیز جان ہوتی ہے، ہم اس کو بھی کربلا پر قربان کرنے سے نہیں گھبراتے۔ کربلا اور کربلا والوں نے ہمیں درس ہی ایسے دیا ہے کہ اس کے بعد کسی اور چیز میں بقاء ہی نہیں نظر آتی۔ کربلا والوں نے میدان کربلا میں تپتے ریگزار پر تین دن کی بھوک پیاس کے ہوتے ہوئے قلت تعداد میں ہو کر اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی جانوں کو قربان کر دیا تو ہم کون ہوتے ہیں، اپنی جانوں کی پرواہ کرنے والے۔ میدان کربلا میں فقط چند گھنٹوں کی لڑائی نے تاریخ کا ایسا دھارا بدلا کہ رہتی دنیا تک دنیا کے باضمیر، باغیرت، باحمیت، شجاعت و بہادری کے دلدادہ، عز و شرف کے متوالے، غیرت و حمیت کے پروانے، دین و ایمان کے سرباز، اسلام کو آفاقی و الہیٰ دین تسلیم کرکے زندگی کرنے والے انسانوں کو یہ رہنمائی و راستہ دکھاتی رہے گی۔ کربلا زندہ ضمیروں پر دستک دیتی رہے گی، کربلا طاقتوروں کو ان کی طاقت و قوت کے زور پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف للکارتی رہے گی۔

جو جو بھی کربلا سے خود کو وابستہ کرے گا، اس کو نجات کا راستہ مل جائے گا، ہدایت کا راستہ مل جائے گا، بقاء کا راستہ مل جائے گا۔ دنیا میں اربوں انسان موجود ہیں اور ارب ہا انسان فقط چودہ صدیوں میں اپنی زندگی گزار کر جا چکے ہیں، آج ان کا نام و نشان ہی باقی نہیں ہے، کوئی کسی کو جانتا بھی نہیں ہے، مگر میدان کربلا میں فقط بہتر شہداء کے ایثار و قربانی کے کردار نے ایسی ابدیت و ہمیشگی پائی ہے کہ ان کا ذکر مٹانے سے نہیں مٹتا۔ ہر سال ان کے ایام ہائے شہادت یعنی عاشورا میں دنیا کے ہر ملک و ملت میں ان کا ذکر ناصرف بلند ہوتا ہے بلکہ ہر سال کی بہ نسبت زیادہ قوت و طاقت اور زور و شور سے کیا جاتا ہے اور ایسا نہیں کہ یہ سب مفت میں ہو جاتا ہے۔ اس ذکر کو بلند رکھنے کیلئے جہاں مال کی بہت بڑی قربانی دی جاتی ہے اور وسیع پیمانے پر خرچ اخراجات کیے جاتے ہیں، وہیں اس ذکر کو بلند کرنے میں دیگر بہت سی رکاوٹوں کیساتھ بہت سے ممالک بشمول پاکستان میں جانوں کی قربانی بھی قبول کی جاتی رہی ہے اور ایسے خطرات و اندشوں کے ہوتے ہوئے یہ ذکر ہمیشہ بلند کیا جاتا ہے۔

گویا ایک عظیم قربانی کی یاد مناتے ہوئے بھی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ کسی دنبے یا لیلے کی قربانی نہیں بلکہ جیسے میدان کربلا میں اصل قربانیاں پیش کی گئیں تھیں، ایسے ہی ان کی یاد میں بھی انسانوں کی جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ فی زمانہ اگر ہم دیکھیں تو دنیا میں اس وقت جمہوری اسلامی ایران واحد مملکت اسلامی ہے، جس میں مکمل طور پر اسوہ کربلا کے پیروکاران طاقت و اقتدار میں ہیں۔ اسی وجہ سے جمہوری اسلامی ایران کے خلاف دنیا بھر کے یزیدی اور ان کے ہمنوا ایک ساتھ ہیں۔ گذشتہ سینتالیس برس سے انقلاب اسلامی ایران یزیدان عصر نو کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کو جھکانے والے جھک جاتے ہیں، مگر وہ نہیں جھکتا۔ اس کو مٹانے والے مٹ جاتے ہیں، مگر وہ نہیں مٹتا۔ اس کو نابود کرنے کی خواہش رکھنے والے نابود ہو جاتے ہیں، مگر وہ نابود نہیں ہوتا۔ یہ فقط اس راستے کی برکات ہیں، جو کربلا سے اور کربلا والوں سے متصل ہونے والوں کو ملتی ہیں۔

اس لیے کہ اٹھاون اسلامی ممالک نے اپنا سر دشمنان دین و ایمان، یزیدان عصر نو، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اسرائیل کے سامنے جھکا رکھا ہے، جبکہ جمہوری اسلامی ایران نے کبھی ان نام نہاد طاقتوروں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور ان کو یہ راہ کربلا والوں نے سکھائی و بتلائی ہے۔ بقول علامہ اقبال:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے آدمی کو دیتا ہے نجات
اہل ایران نے فقط اس کائنات کے مالک اصلی و خالق حقیقی کے سامنے سر جھکایا ہوا ہے۔ اس لیے انہیں کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکانا پڑتا، جبکہ دیگر مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں نے چھوٹے بڑے یزیدوں کے سامنے سر جھکانے میں اپنی بقا و سلامتی سمجھ رکھی ہے۔ لہذا وہ جھکتے ہیں اور جھکتے ہی چلے جاتے ہیں۔کربلا والوں کی منزل راہ شہادت سے ہو کر گزرتی ہے۔ لہذا اس راہ کے راہی کبھی بھی اس سے کتراتے نہیں بلکہ اپنی منزل کے حصول میں اس راہ پرخار سے گزرنے ہوئے ان کے اندر بے تابی اور اشتیاق زور و شور پر ہوتا ہے۔

ان کا اطمینان ہی اس وقت ہوتا ہے، جب انہیں اذن شہادت ملتا ہے۔ عاشور کے دن بھی تو ایسا ہی تھا، ہر ایک بے قرار تھا کہ جان نثار کرے، ہر ایک اذن شہادت مانگتا تھا، ہر ایک ہزار ہزار بار قتل ہوکر بار بار فدا ہونا چاہتا تھا۔ دراصل یہ عشق کی کہانی ہے، یہ عشق اور جنون کے معاملے ہیں، جو عام آدمی کی پہنچ سے یقیناً دور ہیں۔ اس کی گتھیاں ہر ایک سلجھانے کی طاقت و سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، بلکہ عاشقوں کے قبیلوں میں شامل ہی اس گتھی کو سلجھا سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں اور اس موت و شہادت میں بقا کو پا سکتے ہیں۔ بقول حسرت موہانی:
تم پر مٹے تو زندہء جاوید ہوگئے
ہم کو بقا نصیب ہوئی ہے فنا کے بعد
اور محمد علی جوہر بھی کہتے ہیں۔۔
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری، یہی انتہا کے بعد

کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر ان کے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، ان کے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، ان کا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ ان کا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • میرا ملک میری عزت
  • دنیا کا نایاب ترین نیا بلڈ گروپ دریافت؛ نام جانیے
  • زیمبیا؛ ہتھنی کے حملے میں برطانوی اور نیوزی لینڈ کی سیاح خواتین ہلاک
  • پاکستان میں ’امیر آدمی‘ کی گاڑی سستی اور ’عام آدمی‘ کی سواری مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟
  • پاکستان اور معاہدہ ابراہیمی
  • بھارت: انسٹاگرام کے زیادہ استعمال سے روکنے پر بیوی شوہر کیخلاف تھانے پہنچ گئی
  • تنہائی کا کرب
  • کربلا اور کربلا والے!
  • درآمدی ڈیوٹی میں کمی، چھوٹی گاڑیاں خریدنے والوں کوکتنا فائدہ ہو گا؟
  • ’کیک پر لکھ دینا چھیپا صاحب کی طرف سے تحفہ ہے لیکن یہ مت بتانا میں نے دیا ہے‘