بھارت سن لے! دریائے سندھ سے ہمارا پانی بہے گا یا تمہارا خون: بلاول
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
اسلام آباد؍ سکھر (نوائے وقت رپورٹ) بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ دریائے سندھ پر ایک اور حملہ بھارت کی طرف سے ہوا ہے، کہنا چاہوں گا کہ دریائے سندھ ہمارا ہے اور یہ ہمارا رہے گا، اس دریا سے ہمارا پانی بہے گا یا ان کا خون بہے گا۔ سکھر میں جلسے سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس دفعہ بھارت کی طرف سے سندھو پر حملہ ہوا ہے، مقبوضہ کشمیر میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا تھا، جس کا الزام نئی دہلی نے پاکستان پر لگایا، مودی نے اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے جھوٹے الزامات لگائے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک دن فیصلہ کرے کہ آپ سندھ طاس معاہدے کو نہیں مانتے، نہ بین الاقوامی سطح پر یہ مانا جائے گا، نہ پاکستان کے عوام یہ مانیں گے۔ جیسے ہم نے پاکستان کے شہروں اور گلیوں میں دریائے سندھ پر آواز اٹھائی اور وفاقی حکومت کو قائل کیا کہ وہ نئی نہریں نہیں بنائے گی، ویسے ہی جدوجہد کریں گے، پاکستان کے عوام بہادر لوگ ہیں، ہم بھارت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، سرحد پر ہماری افواج آپ کو منہ توڑ جواب دیں گی۔ تمام صوبے مانیں گے تو نہریں بنیں گی، یہ بات ہو چکی ہے کہ یہ حکومت پاکستان کی پالیسی ہے کہ آپ کی مرضی کے بغیر کوئی نئی کینالز نہیں بنیں گی۔ یہ پرامن جمہوری جدوجہد کی کامیابی ہے، شہباز شریف کے شکر گزار ہیں کہ آپ (عوام) کے اعتراضات کو سن کر اب مشترکہ مفادات کونسل میں اکثریتی جماعتوں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی فیصلہ کر چکے ہیں کہ کوئی نئی کینال آپ کی مرضی کے بغیر نہیں بنے گی۔ وفاقی حکومت یہ مان چکی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس فوراً بلایا جائے۔ ایک انٹرویو میں بلاول نے کہا ہے کہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے ہمیں سلامتی کمیٹی کے فیصلوں پر بریف کیا۔ بھارت نے پاکستان کیخلاف جو اقدامات کئے ہم نے ان کی مذمت کی ہے۔ بھارت دہشتگردی کا مقابلہ کرنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا۔ کشمیر میں دہشتگردی ہو تو اسے دیکھنے سے پہلے ہی پاکستان پر الزام لگا دیتے ہیں۔ یہ خطرناک صورتحال ہے۔ ہمارے خطے میں مغربی ممالک کے اپنے مفادات ہیں۔ دہشتگردی اور اپنے لوگوں کی ناراضی سے توجہ ہٹانے کیلئے جعفر ایکسپریس جیسے واقعہ کی بھارت مذمت نہیں کرتا تو کیا اسے سراہتا ہے؟۔ بھارت دہشتگردی کو اپنی خارجہ پالیسی آگے بڑھانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ حالیہ اقدامات سے بھارت اندرونی اور بین الاقوامی طور پر تنہا ہوگا۔ مودی پہلی بار جیتے تو یہ غلط فہمی تھی کہ شاید حالات بہتر کر لیں گے۔ میرا خیال ہے اب لوگ بھارتی اقدامات کی حقیقت سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ کچھ ایسی سیاسی قوتیں ہیں جو نہروں کے مسئلے کا حل نہیں چاہتیں۔ کچھ قوتیں مسائل کھڑے کرنا چاہتی ہیں۔ کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ سندھ اور پنجاب کو لڑوا کر فائدہ اٹھایا جائے۔ منفی قوتوں کو سیاسی طور پر جواب دیں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: دریائے سندھ
پڑھیں:
حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ملک بھر میں مختلف تقریبات میں کبھی مایوسی کی باتیں نہیں کرتے بلکہ عوام کو اچھے خواب ہی دکھاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شہر کے لوگوں کو بتایا تھا کہ حکومت نے ملک کو دلدل سے نکالا جو اب اپنی اڑان بھر رہا ہے اور ہر طرف پاکستان کے چرچے ہو رہے ہیں۔
معرکہ حق میں کامیابی کے بعد پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے اور مسلح افواج نے دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کا دفاع کیا اور پاکستان پر آنچ نہیں آنے دی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہاں بیٹھے سامعین کو یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ سندھ کا مقابلہ کسی شہر یا صوبے سے نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اور یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔ پورے ملک کو ایک ہو کر دنیا سے مقابلہ کرنا چاہیے اور آپس میں تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ ملک میں کہیں بھی تعمیری و ترقیاتی کام ہو رہا ہو یہ پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے۔
غربت کے خاتمے کے عالمی دن پر لاہور میں ایک تقریب میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ساڑھے دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی اہم وجوہات ملک میں کرپشن اور مہنگائی ہے۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہوگا۔ بیڈ گورننس، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، کم وسائل، آمدن میں کمی اور سماجی ناہمواری کی وجہ سے دنیا میں مہنگائی ہوتی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہوگا اور وسائل کم ہوں گے تو غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ پاکستان کی 41.7 فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کے دعوؤں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ معاشی صورت حال میں بہتری کی جو باتیں سرکاری طور پر ہو رہی ہیں، اس کے باوجود ملک کی تقریباً آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔احسن اقبال کے پاکستان سے متعلق اڑان کے بیان اور بلاول بھٹو کے سندھ کے دنیا سے مقابلے کے برعکس حقائق یکسر مختلف ہیں۔ جب ملک کی 41.7 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو تو ایسے حالات میں حکمرانوں کے بیانات خواب ہی نظر آتے ہیں جن کی کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ جب بڑوں کے بیانات ایسے ہوں تو ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر مرتضیٰ وہاب بھی کہاں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ہی شہر کے لوگوں کو خواب دکھا دیا کہ کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔
کراچی پاکستان کا دل ہے اور ایک ایسا شہر جو معاشی سرگرمیوں، ثقافتی تنوع اور انسانی استقامت کی علامت ہو سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے وژن کے مطابق مستقبل میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا۔ انھوں نے یہ بات دنیا کے جدید شہر دبئی ایشیا پیسفک سیٹیز سمٹ سے خطاب میں کہی۔ میئر کراچی نے دبئی میں مزید کہا کہ کراچی میں منصوبے صرف سڑکوں، عمارتوں یا بنیادی ڈھانچے کی بہتری تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی وقار، مساوات اور انصاف کی بحالی کا سفر ہے۔
جنرل پرویز مشرف ملک میں تقریباً نو سال اقتدار میں رہے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور سندھ میں 17 سالوں سے مسلسل برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور دو بار اقتدار میں رہنے والی ان کی والدہ بے نظیر بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر انھوں نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کو ترجیح دی اور نہ ہی کراچی سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو کراچی کو اہمیت و ترجیح نہیں دے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کا حق ادا کیا تھا اور ایم کیو ایم کے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال کو اتنے فنڈز دیے تھے کہ انھوں نے چار سالوں میں ترقی دلا کر دنیا کے 13 میگا سیٹیز میں کراچی کو شامل کرا دیا تھا جو کراچی کی ترقی کا دور تھا۔
مصطفیٰ کمال کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور میئر کراچی کا تعلق بھی کراچی سے ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے کراچی کے پہلے ناظم ہیں جو تقریباً دو سال سے اقتدار میں ہیں اور دبئی کی ایک تقریب میں یہ خواب دکھا رہے ہیں کہ ہم کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔ میئر کراچی حکومت سے اپنے لیے آئینی اختیارات لے سکے اور کراچی کی ضرورت کے لیے ضروری فنڈ حاصل کر سکے۔
کراچی کی حالت ڈھکی چھپی نہیں جس کو 2008 میں جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومتوں نے اہمیت و ترجیح دی اور نہ ہی وفاق سے تین حکومتوں میں وہ فنڈز ملے جو ملنے ہی نہیں چاہیے تھے بلکہ وہ فنڈز کراچی کا حق تھا جس کے متعلق ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ یونس ڈھاگا تفصیلات بتا چکے ہیں۔
سندھ حکومت کی ترجیح کراچی رہا ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک کراچی کمائی کا گڑھ اور سونے کی چڑیا ہے جو اپنی آمدنی سے ملک اور صوبے کو پال رہا ہے۔
صدر زرداری اور مراد علی شاہ کا تعلق کراچی سے نہیں مگر کراچی بلاول بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صدر زرداری کی دونوں بیٹیوں کا پیدائشی شہر ہے اور ان پر کراچی کا حق ہے کہ کراچی والوں کو صرف خواب نہ دکھائیں۔ بلاول بھٹو دنیا کو چھوڑیں اور سندھ کا موازنہ پنجاب سے اور کراچی کا موازنہ لاہور سے کر لیں تو انھیں حقائق کا اندازہ ہو جائے گا۔ پنجاب کی ترقی پاکستان سے نہیں صوبہ پنجاب سے ہے۔ اندرون سندھ کے شہروں کی جو ابتر حالت ہے انھیں دیکھ کر کوئی نہیں مانے گا کہ سندھ کا مقابلہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ پاکستان اڑان بھر رہا ہوتا تو غربت میں کمی آتی اور سندھ حکومت کراچی کی سڑکیں ہی بنوا دے تو سڑکوں کی ترقی ہی نظر آ جائے گی۔