تحریکِ خالصتان کے مرکزی رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملے کی حماقت کی تو یہ نہ صرف مودی سرکار بلکہ بھارت کی بطور ریاست آخری جنگ ثابت ہوگی۔ بھارتی پنجاب بھارتی تسلط سے آزاد ہو کر ایک نئی آزاد ریاست ’خالصتان‘ کی بنیاد رکھے گا۔

ایک ویڈیو پیغام میں گرپتونت پنوں نے کہا کہ بھارت کے سکھ اب بیدار ہوچکے ہیں اور کسی بھی صورت میں پاکستان کے خلاف بھارتی جنگی جنون کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی پنجاب میں کئی مقامات پر فوجی چھاؤنیوں کی دیواروں پر چاکنگ کی گئی ہے، جس میں سکھ نوجوانوں کو پاکستان سے نہ لڑنے کا پیغام دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پہلگام فالس فلیگ آپریشن: بھارتی جنگی جنون کے باعث مقبوضہ کشمیر کے عوام ظلم و جبر کا شکار

گرپتونت پنوں نے کہا کہ اگر مودی نے پاکستان پر حملہ کیا تو ہم بھارتی پنجاب میں پاک فوج کے لیے لنگر لگائیں گے اور بھارتی فوج کا میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

انہوں نے پاکستان کی قیادت اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ ’خالصتان ریفرنڈم‘ کو بھی بین الاقوامی سطح پر اٹھائیں، کیونکہ بھارتی پنجاب کے کروڑوں سکھ اب بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔

مزید پڑھیں: پہلگام واقعہ: پاکستان کے خلاف مہم جوئی سے انکار پر بھارتی فوج کے جنرل کی چھٹی

انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی پنجاب پاکستان کی پشت پر کھڑا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ دونوں قومیں، پنجابی مسلمان اور پنجابی سکھ، مل کر اس خطے میں امن، آزادی اور خودمختاری کی ایک نئی تاریخ رقم کریں۔

گرپتونت پنوں کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت، ایل او سی کے نزدیک دیہاتوں کو جبری خالی کروانا اور پاکستان پر حملے کے خدشات کے حوالے سے اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت پاکستان پنجاب تحریکِ خالصتان جنگ خالصتان گرپتونت سنگھ پنوں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارت پاکستان تحریک خالصتان خالصتان گرپتونت سنگھ پنوں بھارتی پنجاب کہ بھارت کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

بھارتی اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ

ریاض احمدچودھری

مودی حکومت کی پالیسیاں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ چھیڑ رہی ہیں اوریہ پالیسیاںان کی زندگیوں، حقوق اور آزادیوں کے لئے خطرہ ہیں۔بین الاقوامی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے سے نہ صرف اس کی جمہوریت بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی تاکہ بھارت کو ہندو انتہا پسندی پر مبنی فسطائی ریاست بننے سے روکا جاسکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے سے مراد بھارت کے سیاسی، سماجی اور ادارہ جاتی ڈھانچے کی نظریاتی تبدیلی کو ہندوتوا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کی صورت حال کے حوالے سے انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومنٹیشن سینٹر کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر روی نائرکاکہنا ہے کہ یوں تو مودی حکومت اور ہندوتوا کی طاقتوں نے جو خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے اس سے تمام ہی اقلیتی فرقے خوف زدہ ہیں لیکن مسلمانوں کی صورت حال کچھ زیادہ خراب ہے۔ حکومت بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے منصوبہ بند کوششیں کررہی ہے۔ این آر سی اور سی اے اے جیسے قوانین اسی لیے لائے گئے ہیں۔ اترپردیش میں انسداد تبدیلی مذہب کا قانون اسی سلسلے کا حصہ ہے اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کردیے گئے ہیں۔مودی حکومت نے مسلمانوں کے بارے میں تو یہ طے کردیا ہے کہ وہ ملک کے اندر ملک کے دشمن ہیں اور انہیں دوسرے درجے کی شہریت تسلیم کرنی ہوگی ورنہ انہیں حکومت اور حکومت کے حامیوں کی طرف سے مزید مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومنٹیشن سینٹر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے مسیحیوں کو بھی پریشان کرنا شروع کردیا ہے۔ مسیحی تنظیموں کو غیر ملکی مالی امداد سے متعلق قانون (ایف سی آر اے) اور تبدیلی مذہب کے نام پر پریشان کیا جارہا ہے۔ مسیحی مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے کئی ریاستوں میں کافی خوف کی فضا ہے۔ایف سی آر اے قانون میں ترمیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نئے قانون کی آڑ میں ترقی پسند اور غیر سرکاری تنظیموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلم اداکاروں، انسانی حقوق کے وکلاء ، سماجی کارکنوں، ماہرین تعلیم، صحافیوں، دانشوروں اور جو بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان پر حملے کیے گئے۔ انسانی حقوق کے کارکن، پابندی، تشدد، ہتک عزتی اور استحصال کا سامنا کر رہے ہیں۔اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کوبھارت میں دو محاذ پر کوشش کرنا ہوگی۔ ایک تو آئینی طریقے سے اپنا حق لینے کے لیے جدوجہد کریں اور دوسرے ستیہ گرہ یعنی پر امن تحریک کا راستہ اپنائیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر معاملے میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں لیکن جو اہم معاملات ہوں ان پر غور و خوض کرنے اور ماہرین قانون کے مشورے کے بعد عدالت سے ضرور رجوع کرنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ ستیہ گرہ ہونی چاہیے۔جس طرح کسان اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر ہیں اسی طرح مسلمانوں کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھنا چاہیے تھا۔ انہیں کورنا وائرس کے چکر میں آکر اپنی تحریک ختم نہیں کرنی چاہیے تھی۔
بھارت کے سابق ہوم سیکرٹری گوپال پلئی نے مودی سرکار کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت ملک میں فرقہ وارانہ بیانیے کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ کرن تھاپر کی جانب سے پروگرام میں سوال کیا گیا کہ سرعام کہا جاتا ہے کہ گولی مارو سالوں کو تو ایسے لوگوں کو ہٹانے کے بجائے ان کو ترقی دیدی جاتی ہے؟سابق ہوم سیکرٹری گوپال پلئی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کو ترقی دینے سے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ آپ نفرت انگیز بات کریں گے تو حکومت کی حمایت آپ کے ساتھ ہو گی۔وزیراعظم مودی نے آئینی حلف کی روح کو پامال کیا۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویہ ریاستی سرپرستی میں جاری ہے۔ جو ہندو اس وقت بھارت کے حالات پر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں وہ دراصل بھارت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس طرح کے منفی کام بھارت میں مذہبی تفریق، داخلی انتشار کو جنم دے سکتے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک بھارت کی جمہوریت کے لیے چیلنج ہے۔
وزیراعظم مودی کا طرزِ عمل ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ملک کا اتحاد مذہبی رواداری سے مشروط ہے۔ کوئی بھی ملک جہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوں، ترقی نہیں کر سکتا اور اگر تبدیلی نہ لائی گئی تو موجودہ حکومت کو تاریخ ایک تاریک باب کے طور پر یاد رکھے گی۔بھارتی سابق ہوم سیکرٹری کے خیالات ثابت کرتے ہیں کہ بھارت کا سیکولر ملک ہونے کا دعوی جھوٹا ہے۔ یہ باتیں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کی حکومت میں اداروں کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کی ایک خطرناک مہم جاری ہے۔ہندوتوا کے نظریے کو منظم طریقے سے مسلط کرنے سے ملک کا سیاسی اور سماجی تانا بانا تبدیل ہورہا ہے جس سے مذہبی اقلیتیں تیزی سے پسماندہ اور کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ہندوتوانے بھارت کی عدلیہ اور مسلح افواج تک اپنی رسائی کو بڑھا دیا ہے جس کے انصاف اور جمہوریت کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ بھارتی عدلیہ دائیں بازو کی مودی حکومت کا آلہ کار بن چکی ہے۔ تجزیہ کاروں نے اہم فیصلوں کا حوالہ دیا جن میں حجاب پر پابندی، بابری مسجد کا انہدام اور دفعہ 370کی منسوخی شامل ہے اوران فیصلوںکو ہندوتوا پر مبنی تعصب قرار دیاگیا ہے۔یہ فیصلے مودی حکومت کے ایجنڈے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، ان میںانصاف کو پس پشت ڈالا گیا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کو مجروح کیاگیا ہے۔ہندوتوا کا ایجنڈا اقلیتوں خاص طوپر مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کو مٹا کر ہندو بالادستی کو مسلط کرنا بھی ہے۔ مسلمانوں کے ناموں سے منسوب شہروں اور علامتوں کا نام تبدیل کرنا اور تاریخ کو دوبارہ لکھنا بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ
  • مودی سرکارکی رسوائی
  • مودی کی لوک سبھا میں ’آپریشن سندور‘ پر تقریر جھوٹ کا پلندہ قرار، عالمی میڈیا
  • اے کے بھارتی نے بے وقوف بنایا، امریندر سنگھ نے رافیل گرنے کے شواہد پیش کردیئے
  • صدر ٹرمپ کا گروپتونت سنگھ کو خط، ’ خالصتان تحریک کو نئی تقویت
  • مودی حکومت کو ایک اور جھٹکا؛ ٹرمپ کا خالصتان تحریک کے رہنما کو خط
  • اگر ایک بھی رافیل نہیں گرا تو مودی 35 طیارے قوم کو دکھائیں، کانگریس کا بھارت سرکار کو چیلنج
  • سابق بھارتی وزیر داخلہ نے مودی سرکار کو آئینہ دکھا دیا: شیری رحمان
  • پاکستان سے فوجی تنازع سیاسی و عسکری مقاصد کے حصول کے بعد ختم کیا، بھارتی وزیر دفاع کا دعویٰ
  • بھارتی سابق وزیر داخلہ چدمبرم نے مودی حکومت کو آئینہ دکھادیا: شیری رحمان