امریکا کے 47ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج اپنے دورِ صدارت کے ابتدائی 100 دن مکمل ہونے کا جشن منارہے ہیں۔

ٹرمپ کی اس دوسری مدت صدارت کو امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع اور دُوررس اثرات والا دورکہا جارہا ہے، تاہم رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ امریکی عوام اقتصادی و سیاسی عدم استحکام سے نالاں نظر آ رہے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق ٹرمپ اپنی حکومت کے 100 دن مکمل ہونے پر ریاست مشی گن میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کریں گے۔ یہ ان سوئنگ اسٹیٹس میں سے ایک ہے جہاں گزشتہ نومبر کے انتخابات میں اُنہوں نے کملا ہیرس کو شکست دی تھی۔

مقبولیت میں کمی
ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف چند مہینوں میں امریکی سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ابتدائی 100 دنوں میں ٹرمپ کے قریبی اتحادی اور ارب پتی ایلون مسک کی قیادت میں وفاقی اداروں کی افرادی قوت میں زبردست کمی کی گئی ہے جبکہ خود صدر ٹرمپ نے اتحادی ممالک کو تنقید کا نشانہ بنانے، غیر ملکی امداد تقریباً مکمل طور پر ختم کرنے اور درآمدی اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کرنے جیسے اقدامات کیے ہیں۔

تازہ سروے کے مطابق صرف 39 فیصد امریکی صدر ٹرمپ کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، یہ فروری میں ہونے والے سروے کے مقابلے میں 6 فیصد کی کمی ہے۔ خاص طور پر امیگریشن کے حوالے سے سخت اقدامات، جو ٹرمپ کی مقبول ترین پالیسی سمجھی جاتی تھی، اب عوامی ناپسندیدگی کا شکار ہیں اور بغیر عدالتی کارروائی کے ملک بدری جیسے اقدامات پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

اے بی سی نیوز کے مطابق گزشتہ 80 سالوں میں کسی بھی صدر کے ابتدائی 100 دن کی کارکردگی کی مقبولیت کی یہ کم ترین شرح ہے۔ کم ترین مقبولیت کی شرح میں دوسرے نمبر پر بھی ٹرمپ ہی ہیں، ان کی پہلی مدت صدارت کے ابتدائی 100 دنوں میں مقبولیت بھی 42 فیصد تھی۔

ٹرمپ کا ردِعمل
صدر ٹرمپ نے ان سروے نتائج کو ’جعلی‘ قرار دیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا ’ہم زبردست کام کر رہے ہیں، پہلے سے کہیں بہتر!‘۔

تاہم خود ٹرمپ بھی کچھ پالیسیوں میں نرمی لانے پر مجبور نظر آتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب اسٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے۔ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے امریکی اسٹاک مارکیٹ میں 6 فیصد سے زائد کمی دیکھی گئی ہے تاہم منگل کو مارکیٹ میں کچھ بہتری اس وقت آئی جب یہ خبر سامنے آئی کہ صدر ٹرمپ گاڑیوں کی صنعت پر لگائے گئے بعض بھاری ٹیرف کو کم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

اسی دوران ٹرمپ نے فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول کو برطرف کرنے کی دھمکی سے بھی پیچھے ہٹنے کا عندیہ دیا ہے، پاول نے خبردار کیا تھا کہ ٹرمپ کے ٹیرف سے مہنگائی دوبارہ بڑھ سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ کچھ اور تبدیلیاں بھی لے کر آئے ہیں، انہوں نے وائٹ ہاؤس کی مرکزی راہداری میں سابق صدر باراک اوباما کی تصویر ہٹا کر وہاں اپنی ایک پینٹنگ لگا دی ہے جس میں وہ اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے سے بچ نکلتے دکھائے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ان لا فرمز پر بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے جن کے وکلا ماضی میں ٹرمپ کے خلاف مقدمات سے وابستہ رہے، ساتھ ہی ٹرمپ نے یونیورسٹیوں کی اربوں ڈالر کی فنڈنگ بھی منجمد کر دی ہے، جو اکثر ان کی حکومت پر تنقید کرتی ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ٹرمپ کے رہے ہیں

پڑھیں:

غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ

غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔

دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔

 حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔

جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔

ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔

لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔

امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟

کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔

ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔

امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔

سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 9مئی واقعات میں ملوث ہونے پر سہیل آفریدی کی عوامی عہدے کے لیے اہلیت سوالیہ نشان ہے، اختیار ولی خان
  • پنجاب دفعہ 144 نافذ، جلسے اور ریلیاں ممنوع، لاؤڈ اسپیکر صرف اذان و خطبے کے لیے محدود
  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • پنجاب، سندھ ، کے پی میں بار کونسلز کے انتخابات آج، تیاریاں مکمل
  • اپنی چھت اپنا گھر اسکیم، ایک ماہ میں ریکارڈ قرضے بلا سود جاری
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار
  • ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!
  • پنجاب کی 94 تحصیلوں میں کیمرے نصب کرنے کے فنڈز جاری