پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی معروف اداکارہ یمنیٰ زیدی سپر اسٹار کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ 2012 میں ’تھکن‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والی یمنیٰ زیدی نے نہ صرف اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے بلکہ اپنے منفرد انتخاب سے خود کو الگ مقام پر فائز کیا۔ ان کی مقبولیت صرف پاکستان تک محدود نہیں رہی، بلکہ دنیا بھر میں ان کے مداح موجود ہیں۔

یمنیٰ زیدی نے ابتدا ہی سے ایسے کردار منتخب کیے جو پیچیدہ، باوزن اور حقیقی زندگی سے قریب تر تھے۔ ’اُلّو برائے فروخت نہیں‘ جیسے مشکل موضوع پر مبنی ڈرامے سے لے کر ’پیار کے صدقے‘ میں معصوم مہ جبین اور ’دلِ نا امید تو نہیں‘ میں تلخ حقیقتوں سے جُڑی اللہ رکھی تک، انہوں نے ہر کردار میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

مزید پڑھیں: کترینہ کیف ہندی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتی تھیں، اکشے کمار کا انکشاف

2017 سے 2019 کا دور ان کے لیے کمرشل کامیابیوں کا آغاز ثابت ہوا، خاص طور پر ’یہ رہا دل‘ اور ’عشق زہِ نصیب‘ میں ان کی کارکردگی کو بے حد سراہا گیا۔ بعد ازاں ’تیرے بن‘ جیسا بلاک بسٹر ان کے کریئر کا ایک نیا سنگ میل ثابت ہوا، لیکن اس کے بعد بھی انہوں نے آسان کمرشل راستہ نہیں اپنایا بلکہ ’قرضِ جاں‘ اور ’جینٹل مین‘ جیسے مواد پر مبنی منصوبوں کو ترجیح دی۔

یمنیٰ زیدی کی کامیابی کا راز صرف ان کے اداکاری کے ہنر میں نہیں بلکہ ان کی عاجزی، پیشہ ورانہ رویے، اور باصلاحیت نوواردوں کی حوصلہ افزائی میں بھی پوشیدہ ہے۔ ’قرضِ جاں‘ میں نامیر خان اور فجر شیخ کے ساتھ کام کرنا ہو یا ’بختاور‘ میں زاویار نعمان اعجاز کو سہارا دینا، انہوں نے ہمیشہ نئے فنکاروں کے ساتھ کھلے دل سے کام کیا۔

مزید پڑھیں: ’کترینہ کیف نے مجھے انتہائی رومانٹک بنادیا ہے‘ وکی کوشل

یمنیٰ زیدی کے ساتھی اداکار بھی ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ ہمایوں سعید نے کہا کہ یمنیٰ زیدی کا کام پر فوکس قابلِ ستائش ہے اور وہ ظاہری چیزوں سے زیادہ کردار پر توجہ دیتی ہیں۔ نامور اداکار نعمان اعجاز نے تو یہاں تک کہا کہ یمنیٰ زیدی کی اداکاری نے انہیں الجھن میں ڈال دیا، جو ان کے بقول کسی اور فنکار نے نہیں کیا۔

یمنیٰ زیدی سوشل میڈیا پر بھی بے حد مقبول ہیں، تاہم انہوں نے کبھی محض شہرت کے لیے سستے ہتھکنڈے نہیں اپنائے۔ وہ پاکستان کی نمائندگی عالمی سطح پر خوبصورتی سے کر چکی ہیں اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ ماہرہ خان، تزئین حسین، اور دیگر فنکاروں نے بھی ان کی پیشہ ورانہ اخلاقیات اور فن سے لگن کو سراہا ہے۔

یمنیٰ زیدی آج کی نوجوان نسل کے لیے مثال بن چکی ہیں کہ شہرت حاصل کرنے کے لیے صرف ظاہری چمک دمک کافی نہیں، بلکہ مسلسل محنت، درست انتخاب اور انکساری ہی اصل کامیابی کی کنجی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

Yumna Zaidi تیرے بن یمنٰی زیدی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تیرے بن انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

اسلام آباد کے علاقائی بلڈ سینٹر کی ’پراسرار بندش‘ اور اس کے پیچھے چھپی کہانی!

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 جون 2025ء) یہ بلڈ سینٹر، جو ملک بھر کے 15 علاقائی مراکز کا حصہ ہے، جرمن حکومت کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا تاکہ قومی سطح پر محفوظ خون کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ جب ڈی ڈبلیو کی نمائندہ نے اس مرکز کا دورہ کیا تو دروازوں پر تالے لگے تھے۔ صحن میں ایک ایمبولینس سمیت چند گاڑیاں موجود تھیں، لیکن وہاں موجود واحد چوکیدار کو مرکز کے مستقبل کی کوئی خبر نہ تھی۔

’مسلم لیگ (ن) کا منصوبہ‘ اپنی ہی حکومت میں ناکام

اس بلڈ سینٹر کا سنگ بنیاد سن 2017 میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور اس وقت کے وزیر مملکت برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے رکھا تھا۔ حکومتی خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق جرمن ترقیاتی بینک کی 175 ملین روپے (تقریباً 1.6 ملین یورو) کی مالی امداد سے یہ مرکز جدید آلات سے لیس کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ مرکز تین سال تک فعال رہا لیکن مستقل سرپرستی اور فنڈز کی کمی کے باعث اسے بند کر دیا گیا۔ مرکز فعال کیوں نہ رہ سکا؟

سابق ملازم محمد اسامہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس مرکز کے قیام سے بندش تک کبھی مستقل سربراہ تعینات نہیں کیا گیا۔ یہ وزارت صحت کے تحت چلتا رہا، جہاں تین سال میں مختلف جوائنٹ سیکرٹریز اور ایڈیشنل سیکرٹریز کو اضافی چارج سونپا گیا۔

ان افسران نے مرکز کا شاذ و نادر دورہ کیا اور اکثر عملے کو وزارت میں طلب کر لیا جاتا تھا۔

اسامہ کے مطابق ابتدائی طور پر یہ ذمہ داری آئی ایچ آر سی کو دی گئی تھی لیکن ادارے نے ناکافی صلاحیت اور مطابقت کی بنیاد پر چارج لینے سے انکار کر دیا۔

کروڑوں روپے کا طبی سامان ضائع

ایک سابق خاتون ملازمہ نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ 20 کنال اراضی پر قائم یہ جدید مرکز اربوں روپے کی گاڑیوں، مشینری، پلازما، کٹس اور فرنیچر سے لیس تھا۔

تاہم، عدم استعمال کی وجہ سے یہ سامان یا تو ضائع ہو چکا ہے یا تباہی کے دہانے پر ہے۔ ملازمین کی برطرفی کا تنازع

ایک سابق سینئر خاتون ملازمہ کے مطابق مرکز کے 50 سے زائد ملازمین نے گزشتہ چھ ماہ سے برطرفی اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف وزارت صحت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔

مقدمے کے سربراہ محمد اسامہ کا کہنا ہے کہ عدالت نے وزارت صحت کو عید سے قبل تنخواہیں ادا کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

حکومتی موقف جاننے کے لیے وفاقی وزیر صحت، وزارت کے ترجمان اور مرکز کے بانی رہنما سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی، لیکن کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

تاہم سابق چیئرمین اسلام آباد بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی پروفیسر حسن عباس ظہیر کا کہنا ہے کہ اس مرکز نے کبھی باقاعدہ کام شروع ہی نہیں کیا تھا۔

پاکستان میں محفوظ خون کی قلت

پاکستان بلڈ ڈونیشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر فضل ربی کے مطابق پاکستان کو سالانہ 48 لاکھ خون کے تھیلوں کی ضرورت ہے، لیکن 16 لاکھ مریضوں کو محفوظ خون میسر نہیں ہوتا، یعنی ہر تیسرا مریض محروم رہتا ہے۔

تھیلیسیمیا کا علاج اب جین تھیراپی سے ممکن

انہوں نے بتایا کہ محفوظ خون حاصل کرنے والوں کا 50 فیصد خون غریب یا منشیات کے عادی افراد سے خریدا جاتا ہے، 40 فیصد رشتہ دار فراہم کرتے ہیں اور صرف 10 فیصد سے کم رضاکارانہ عطیات سے آتا ہے، جو سب سے محفوظ ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں رضاکارانہ خون کے عطیات کی شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ دنیا کے 57 ممالک میں محفوظ خون کی منتقلی مکمل طور پر رضاکارانہ عطیات پر مبنی ہے۔

مریضوں کے لیے خون کی اہمیت

راویئنز بلڈ ڈونر سوسائٹی کے بانی عرفان خاور ڈار کے مطابق صاف اور محفوظ خون زندگی اور موت کا معاملہ ہے کیونکہ آلودہ خون مریض کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر فضل ربی کا کہنا ہے کہ زچگی، ٹریفک حادثات، کارڈیک سرجریز اور تھیلیسیمیا جیسے حالات میں خون کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ تھیلیسیمیا کے بچوں کو باقاعدہ خون کی ضرورت پڑتی ہے، جو جسمانی، ذہنی اور مالی طور پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، خاص طور پر نایاب بلڈ گروپس کے لیے۔

عرفان خاور ڈار نے بتایا کہ نجی بلڈ سینٹرز میں شفافیت کا فقدان ہے۔ یہ ادارے عطیہ دہندگان سے خون لیتے ہیں لیکن بعد میں اسے منافع کے لیے فروخت کرتے ہیں، ''ان کے پاس نہ کوئی مقررہ نرخوں کا نظام ہے اور نہ ہی مؤثر ضابطہ کار۔ کئی جگہوں پر یہ عمل غیر قانونی طور پر جاری ہے، جو عطیہ دہندگان کے اعتماد اور مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • پشاور کے نوجوان گلوکار جنید کامران کی کامیابی کی کہانی
  • ہم سب قصور وار ہیں
  • یمنی فوج کی کارروائی، سپرسونک میزائل اسرائیل پر داغے گئے
  • اسلام آباد کے علاقائی بلڈ سینٹر کی ’پراسرار بندش‘ اور اس کے پیچھے چھپی کہانی!
  • ہیٹ ویو: خطرہ یا انتباہ؟
  • صرف سکھر-حیدرآباد نہیں بلکہ حیدرآباد سے کراچی موٹروے بھی بنائیں گے، وفاقی وزیر
  • پنجاب میں غیر معیاری پٹرول اور ڈیزل کی چیکنگ کا سخت نظام لاگو
  • موت پر خوشی نہ مناؤ، کیونکہ سب کو مرنا ہے
  • ایران پر اسرائیلی جارحیت، ایم ڈبلیو ایم کراچی کا احتجاج، علامہ باقر زیدی کا خطاب
  • یمن نے ایران پر اسرائیل کے جارحانہ حملے کی مذمت کر دی