پروفیسرخورشید احمد ..اہل کشمیر کے پشتیبان وامت کے پاسباں
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
پروفیسر خورشید احمد مرحوم سے تعارف تو اسی وقت ہو گیا تھا جب اسلامی جمعیت طلبہ کی وساطت سے تحریک اسلامی سے تعارف ہوا لیکن یہ تعلق اس وقت گہرائی سے استوار ہوا جب اسلام آباد میں انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے نام سے ایک نامور تھنک ٹینک کا آغاز کیا اس کے انتظامی امور کے ذمہ داران میں عبدالملک مجاہد خالد رحمان راؤ محمد اختر اسلامی جمعیت طلبہ کے دور سے ہمارے قائدین رہے جن سے ایک عقیدت کا تعلق تھا چنانچہ تحریک اسلامی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنے ان قائدین سے مشاورت کا عمل جاری رہتا اور انہی کی وساطت سے وقتا فوقتا پروفیسر صاحب سے بھی ملاقاتوں اور نیاز مندی کا تعلق استوار ہوا یہ 1980ء کی دہائی کا اوائل تھا جب جہاد افغانستان کامیابی کی طرف پیش رفت کر رہا تھا اور اس کے اثرات ساری مسلم دنیا کے نوجوانوں پر مرتب ہو رہے تھے بیس کیمپ کی تحریک کے حوالے سے تحریک آزادی کشمیر اسلامی تحریک کی اولیں ترجیح رہی ہے چنانچہ اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے طلبہ اور نوجوانوں کی اگہی کے لیے بڑے بڑے پروگرامز اور کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا اور نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر فکری طور پر منظم کرنے کی کوشش کی گئی اس سلسلے میں ہر قدم پر پروفیسر صاحب مرحوم کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل رہی آزاد جموں وکشمیر میں تحریک اسلامی کی تقویت کے لئے انہوں نے ممکنہ تعاون کا اہتمام کیا اسی عرصے میں مقبوضہ کشمیر سے مولانا سعد الدین صاحب مرحوم تشریف لائے ان کے دورے سے پہلے آزاد کشمیر جماعت کے بانی امیر مولانا عبدالباری صاحب مرحوم جن کا اپنا تعلق بھی مقبوضہ کشمیر سے تھا اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا لیکن دورے کے دوران ہی میں انہیں ناپسندیدہ فرد قرار دے کرہمسفر عزیزوں سمیت ڈیپورٹ کر دیا گیا یہ براہ راست مقبوضہ ریاست سے ذمہ دارانہ سطح پر اولیں رابطہ تھا جس کے پس منظر میں مولانا سعد الدین مرحوم مقبوضہ کشمیر سے تشریف لائے اور ایک طویل مشاورت کا عمل شروع ہوا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی جبر کے خلاف نوجوانوں میں حریت اور آزادی کے جو جذبات کار فرما ہیں انہیں کیسے منظم کیا جائے تاکہ بھارتی استعماری ہتھکنڈوں سے ملت اسلامیہ کو محفوظ کیا جا سکے اس حوالے سے پروفیسر صاحب کی رہنمائی میں اس امر پر اتفاق ہوا کہ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اپنے دعوتی تربیتی کام پر توجہ رکھے اور کوئی بڑی تحریک برپا کرنے سے پہلے سفارتی محاذ پر اس مسئلے کواجاگر کرنے کا اہتمام کیا جائے اس سلسلے میں تحریک کشمیر کے نام سے برطانیہ میں کشمیریوں کو منظم کرنے کے لیے ایک غیر متنازع پلیٹ فارم مولانا منور حسین مشہدی کی قیادت میں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا مشھدی صاحب مرحوم نے پورے برطانیہ میں تحریک منظم کرنے کیلئے شب وروز ایک کئے ان کے بعد برادر محمد غالب اور برادر فہیم کیانی محمود شریف اور ان کی ٹیم بر طانیہ اور یورپ میں تحریک کو وسعت دینے میں شب وروز ایک کئے ہوئے ہیں اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج مزمل ایوب ٹھوکر شائستہ صفی ظفر قریشی بھارتی پروپیگنڈا کے توڑ کے لئے قابل رشک کردار ادا کررہے ہیں پروفیسر نذیر احمد شال اور بیگم شمیم شال نے بھی بھرپور کردار ادا کیا پروفیسرشال مرحوم تا دم واپسیں ذمہ داریاں ادا کرتے رہے برطانیہ میں سفارتی محاز پر متحرک رہنماؤں بشمول بیرسٹر عبد المجید ترمبو ڈاکٹر عنائت اللہ اندرابی اور ڈاکٹر نذیر گیلانی کی تحسین کرتے رہے
اس کے ساتھ ہی خرم مراد مرحوم ؒ جو اس وقت اسلامی فاؤنڈیشن لیسٹرمیں ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے کی قیادت میں ایک کشمیر ریسرچ سینٹر قائم کرنے کا فیصلہ بھی ہوا جس میں مقبوضہ کشمیر سے جناب حسام الدین ایڈوکیٹ اور آزاد کشمیر سے سردار اعجاز افضل خان ایڈوکیٹ کو ذمہ داریاں تفویض کرنے کا فیصلہ کیا گیا حسام الدین صاحب تو تشریف لے ائے اور انہوں نے وہاں کام شروع کر دیا لیکن سردار اعجاز افضل خان باوجوہ اس پروجیکٹ کو جائن نہ کر سکے یوں سفارتی اور علمی سطح پرساتھ ساتھ کام شروع ہوا اور منظم طور پر عوامی اجتماعات اور کانفرنسز کا اہتمام ہوا اسی کی دہائی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں امیر جماعت آزاد کشمیر کرنل رشید عباسی مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم اور کے ایچ خورشید مرحوم سمیت اس وقت کی ساری کشمیری قیادت نے شرکت کی یوں ایک طویل عرصے بعد کشمیر پر پہلی ایسی کانفرنس منعقد ہوء جس میں دونوں حصوں کے ریاستی قائدین نے ایک جامع ڈیکلریشن منظور کیا اور ایک کل جماعتی رابطہ کونسل قائم کرنے کا فیصلہ ہوا جو آج بھی فعال ہے اسی عرصے میں افغان جہاد عروج پہ پہنچا اور سوویت رشیا کی پسپائی کا عمل شروع ہوا جس کے نتیجے میں نئے امکانات پیدا ہوئے اس عمل نے ساری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے جذبات کو جلا بخشی اور کشمیر میں بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے جس طرح ساری دنیا سے جذبہ جہاد سے سرشار نوجوان افغان جہاد میں شرکت کو ایک سعادت سمجھتے تھے اسی طرح کشمیری نوجوان بھی جوق در جوق اس میں شامل اور منظم ہوتے رہے اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے قائدین سے مزید صلاح مشورہ کا عمل بھی جاری رہا نیپال ہو سعودی عرب ہو قطر ہو انگلینڈ ہو اور دوسرے مقامات پر یہ مشاورتی اجتماعات منعقد ہوتے رہے جن کی سرپرستی پروفیسر خورشید احمد ہی فرماتے رہے ان اجتماعات میں مرحوم قائد حریت سید علی گیلانی سمیت دیگر زعما بھی شریک ہوتے رہے سید علی گیلانی مرحوم جرات واستقامت کا ایک استعارہ اور تحریک کے روح رواں تھے یہی وجہ ہے کہ پروفیسر صاحب ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور ان کی را ئے کا احترام بھی کرتے تھے مقبوضہ کشمیر میں تحریک کی تقویت اور ملت اسلامیہ کے بقا اور تحفظ کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے الحمدللہ۔
گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط یہ سفر انہی کی سرپرستی اور قیادت میں طے ہوا اور میں اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں کہ اس میں ایک کارکن کی حیثیت سے مجھے بھی کردار ادا کرنے کا موقع ملا پروفیسر صاحب مرحوم اول روز ہی سے مسئلہ کشمیر کو اپنی علمی اور فکری ترجیحات میں سرفہرست سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب وہ کراچی کے ادارہ معارف اسلامی کے سربراہ تھے ممتاز سکالر ڈاکٹر ممتاز احمد کو یہ فریضہ تفویض کیا کہ مسئلہ کشمیر پر ایک ایسی جامع کتاب تالیف کی جائے جو اس مسئلے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہو ڈاکٹر ممتاز مرحوم نے موضوع کا حق ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر ایک نہایت ہی جامع تصنیف تخلیق کی جس کا دیباچہ سید ابو الاعلی مودودیؒ نے تحریر کیا اسی طرح علمی اور فکری ساری جہتوں میں ہمیشہ پروفیسر صاحب مرحوم اس مسئلے کی اہمیت اجاگر کرتے رہے چنانچہ اسی کی دہائی کے بعد کے سارے مراحل میں وہ اس عظیم جدوجہد میں ایک رہنما اور مربی کا کردار ادا کرتے رہے اس سلسلے میں انہیں مرحوم قاضی حسین اور آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی تحریکی قائدین کا بھرپور اعتماد حاصل تھا پروفیسر صاحب کی رائے اور رہنمائی کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے نام ور سکالرز ڈاکٹر غلام نبی فائی مرحوم حسام الدین ایڈوکیٹ مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھوکر نذیر احمد قریشی اور دوسرے احباب بیرون ملک منتقل ہوئے خلیجی ممالک ہوں امریکہ یا برطانیہ اور یورپ ان محاذوں پر ان رہنماؤں نے سفارتی محا ز پر انتھک جدوجہد کی اور مختلف ادارے اور تھنک ٹینکس قائم کیے بین الاقوامی کانفرنسز منعقد کی کی اور عالمی سطح پر رائے عامہ منظم کرنے کے لیے کردار ادا کیا ان کی سربراہی میں قائم نامور تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ اف پالیسی سٹڈیز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مسئلہ کشمیر پر سیمینارز اور کانفرنسز کے انعقاد کے علاوہ سکالرز نے بھارتی مظالم اجاگر کرنے کے لیے کشمیر کی جدوجہد کو حقیقی تناظر میں بھرپور طور پر اجاگر کیا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پروفیسر صاحب مسئلہ کشمیر میں تحریک حوالے سے کرتے رہے کا فیصلہ تحریک ا کرنے کا میں ایک کے لیے کا عمل اور ان
پڑھیں:
عدلیہ آزاد ہوئی تو تمام کیسز ختم ہو جائیں گے، علی امین گنڈا پور
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ جس دن ملک میں عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہو گئی، تمام جھوٹے مقدمات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
جس دن عدلیہ آزاد ہوئی تمام کیسز ختم ہو جائیں گے۔ اِس مُلک کے اُوپر جو بیٹھے ہیں، جب وہ اپنی غلطیوں پر معافی مانگ لیں گے اور اُس راستے پر چل پڑیں گے جس کےلیے آئینی طور پر اُن کو رکھا گیا ہے تو مُلک بھی ٹھیک اور حالات بھی ٹھیک، علی امین گنڈا پور pic.twitter.com/iA8003s3qq
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) June 19, 2025
انہوں نے کہا کہ اس ملک پر جو لوگ مسلط ہیں، جب وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگ لیں گے، اور اس آئینی راستے پر چل پڑیں گے جس کے لیے انہیں مقرر کیا گیا ہے، تو نہ صرف ملک کے حالات بہتر ہوں گے بلکہ نظام بھی درست سمت میں چلے گا۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ جب تک آئین و قانون کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور ادارے اپنی حدود میں نہیں رہتے، اس وقت تک بحران ختم نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:‘بل کو وکیلوں سے پڑھوا لیں’، منرلز بل کی حمایت میں علی امین گنڈا پور کی آڈیو ہدایت
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جلد یا بدیر عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہوگی، اور ملک ایک بار پھر قانون، انصاف اور جمہوریت کی بنیاد پر کھڑا ہوگا۔
انہوں نے احتجاجی تحریک سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا اعلان ان شاء اللہ دوبارہ کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احتجاجی تحریک پی ٹی آئی تحریک انصاف علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا