پروفیسر خورشید احمد مرحوم سے تعارف تو اسی وقت ہو گیا تھا جب اسلامی جمعیت طلبہ کی وساطت سے تحریک اسلامی سے تعارف ہوا لیکن یہ تعلق اس وقت گہرائی سے استوار ہوا جب اسلام آباد میں انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے نام سے ایک نامور تھنک ٹینک کا آغاز کیا اس کے انتظامی امور کے ذمہ داران میں عبدالملک مجاہد خالد رحمان راؤ محمد اختر اسلامی جمعیت طلبہ کے دور سے ہمارے قائدین رہے جن سے ایک عقیدت کا تعلق تھا چنانچہ تحریک اسلامی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنے ان قائدین سے مشاورت کا عمل جاری رہتا اور انہی کی وساطت سے وقتا فوقتا پروفیسر صاحب سے بھی ملاقاتوں اور نیاز مندی کا تعلق استوار ہوا یہ 1980ء کی دہائی کا اوائل تھا جب جہاد افغانستان کامیابی کی طرف پیش رفت کر رہا تھا اور اس کے اثرات ساری مسلم دنیا کے نوجوانوں پر مرتب ہو رہے تھے بیس کیمپ کی تحریک کے حوالے سے تحریک آزادی کشمیر اسلامی تحریک کی اولیں ترجیح رہی ہے چنانچہ اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے طلبہ اور نوجوانوں کی اگہی کے لیے بڑے بڑے پروگرامز اور کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا اور نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر فکری طور پر منظم کرنے کی کوشش کی گئی اس سلسلے میں ہر قدم پر پروفیسر صاحب مرحوم کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل رہی آزاد جموں وکشمیر میں تحریک اسلامی کی تقویت کے لئے انہوں نے ممکنہ تعاون کا اہتمام کیا اسی عرصے میں مقبوضہ کشمیر سے مولانا سعد الدین صاحب مرحوم تشریف لائے ان کے دورے سے پہلے آزاد کشمیر جماعت کے بانی امیر مولانا عبدالباری صاحب مرحوم جن کا اپنا تعلق بھی مقبوضہ کشمیر سے تھا اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا لیکن دورے کے دوران ہی میں انہیں ناپسندیدہ فرد قرار دے کرہمسفر عزیزوں سمیت ڈیپورٹ کر دیا گیا یہ براہ راست مقبوضہ ریاست سے ذمہ دارانہ سطح پر اولیں رابطہ تھا جس کے پس منظر میں مولانا سعد الدین مرحوم مقبوضہ کشمیر سے تشریف لائے اور ایک طویل مشاورت کا عمل شروع ہوا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی جبر کے خلاف نوجوانوں میں حریت اور آزادی کے جو جذبات کار فرما ہیں انہیں کیسے منظم کیا جائے تاکہ بھارتی استعماری ہتھکنڈوں سے ملت اسلامیہ کو محفوظ کیا جا سکے اس حوالے سے پروفیسر صاحب کی رہنمائی میں اس امر پر اتفاق ہوا کہ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اپنے دعوتی تربیتی کام پر توجہ رکھے اور کوئی بڑی تحریک برپا کرنے سے پہلے سفارتی محاذ پر اس مسئلے کواجاگر کرنے کا اہتمام کیا جائے اس سلسلے میں تحریک کشمیر کے نام سے برطانیہ میں کشمیریوں کو منظم کرنے کے لیے ایک غیر متنازع پلیٹ فارم مولانا منور حسین مشہدی کی قیادت میں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا مشھدی صاحب مرحوم نے پورے برطانیہ میں تحریک منظم کرنے کیلئے شب وروز ایک کئے ان کے بعد برادر محمد غالب اور برادر فہیم کیانی محمود شریف اور ان کی ٹیم بر طانیہ اور یورپ میں تحریک کو وسعت دینے میں شب وروز ایک کئے ہوئے ہیں اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج مزمل ایوب ٹھوکر شائستہ صفی ظفر قریشی بھارتی پروپیگنڈا کے توڑ کے لئے قابل رشک کردار ادا کررہے ہیں پروفیسر نذیر احمد شال اور بیگم شمیم شال نے بھی بھرپور کردار ادا کیا پروفیسرشال مرحوم تا دم واپسیں ذمہ داریاں ادا کرتے رہے برطانیہ میں سفارتی محاز پر متحرک رہنماؤں بشمول بیرسٹر عبد المجید ترمبو ڈاکٹر عنائت اللہ اندرابی اور ڈاکٹر نذیر گیلانی کی تحسین کرتے رہے
اس کے ساتھ ہی خرم مراد مرحوم ؒ جو اس وقت اسلامی فاؤنڈیشن لیسٹرمیں ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے کی قیادت میں ایک کشمیر ریسرچ سینٹر قائم کرنے کا فیصلہ بھی ہوا جس میں مقبوضہ کشمیر سے جناب حسام الدین ایڈوکیٹ اور آزاد کشمیر سے سردار اعجاز افضل خان ایڈوکیٹ کو ذمہ داریاں تفویض کرنے کا فیصلہ کیا گیا حسام الدین صاحب تو تشریف لے ائے اور انہوں نے وہاں کام شروع کر دیا لیکن سردار اعجاز افضل خان باوجوہ اس پروجیکٹ کو جائن نہ کر سکے یوں سفارتی اور علمی سطح پرساتھ ساتھ کام شروع ہوا اور منظم طور پر عوامی اجتماعات اور کانفرنسز کا اہتمام ہوا اسی کی دہائی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں امیر جماعت آزاد کشمیر کرنل رشید عباسی مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم اور کے ایچ خورشید مرحوم سمیت اس وقت کی ساری کشمیری قیادت نے شرکت کی یوں ایک طویل عرصے بعد کشمیر پر پہلی ایسی کانفرنس منعقد ہوء جس میں دونوں حصوں کے ریاستی قائدین نے ایک جامع ڈیکلریشن منظور کیا اور ایک کل جماعتی رابطہ کونسل قائم کرنے کا فیصلہ ہوا جو آج بھی فعال ہے اسی عرصے میں افغان جہاد عروج پہ پہنچا اور سوویت رشیا کی پسپائی کا عمل شروع ہوا جس کے نتیجے میں نئے امکانات پیدا ہوئے اس عمل نے ساری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے جذبات کو جلا بخشی اور کشمیر میں بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے جس طرح ساری دنیا سے جذبہ جہاد سے سرشار نوجوان افغان جہاد میں شرکت کو ایک سعادت سمجھتے تھے اسی طرح کشمیری نوجوان بھی جوق در جوق اس میں شامل اور منظم ہوتے رہے اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے قائدین سے مزید صلاح مشورہ کا عمل بھی جاری رہا نیپال ہو سعودی عرب ہو قطر ہو انگلینڈ ہو اور دوسرے مقامات پر یہ مشاورتی اجتماعات منعقد ہوتے رہے جن کی سرپرستی پروفیسر خورشید احمد ہی فرماتے رہے ان اجتماعات میں مرحوم قائد حریت سید علی گیلانی سمیت دیگر زعما بھی شریک ہوتے رہے سید علی گیلانی مرحوم جرات واستقامت کا ایک استعارہ اور تحریک کے روح رواں تھے یہی وجہ ہے کہ پروفیسر صاحب ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور ان کی را ئے کا احترام بھی کرتے تھے مقبوضہ کشمیر میں تحریک کی تقویت اور ملت اسلامیہ کے بقا اور تحفظ کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے الحمدللہ۔
گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط یہ سفر انہی کی سرپرستی اور قیادت میں طے ہوا اور میں اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں کہ اس میں ایک کارکن کی حیثیت سے مجھے بھی کردار ادا کرنے کا موقع ملا پروفیسر صاحب مرحوم اول روز ہی سے مسئلہ کشمیر کو اپنی علمی اور فکری ترجیحات میں سرفہرست سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب وہ کراچی کے ادارہ معارف اسلامی کے سربراہ تھے ممتاز سکالر ڈاکٹر ممتاز احمد کو یہ فریضہ تفویض کیا کہ مسئلہ کشمیر پر ایک ایسی جامع کتاب تالیف کی جائے جو اس مسئلے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہو ڈاکٹر ممتاز مرحوم نے موضوع کا حق ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر ایک نہایت ہی جامع تصنیف تخلیق کی جس کا دیباچہ سید ابو الاعلی مودودیؒ نے تحریر کیا اسی طرح علمی اور فکری ساری جہتوں میں ہمیشہ پروفیسر صاحب مرحوم اس مسئلے کی اہمیت اجاگر کرتے رہے چنانچہ اسی کی دہائی کے بعد کے سارے مراحل میں وہ اس عظیم جدوجہد میں ایک رہنما اور مربی کا کردار ادا کرتے رہے اس سلسلے میں انہیں مرحوم قاضی حسین اور آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی تحریکی قائدین کا بھرپور اعتماد حاصل تھا پروفیسر صاحب کی رائے اور رہنمائی کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے نام ور سکالرز ڈاکٹر غلام نبی فائی مرحوم حسام الدین ایڈوکیٹ مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھوکر نذیر احمد قریشی اور دوسرے احباب بیرون ملک منتقل ہوئے خلیجی ممالک ہوں امریکہ یا برطانیہ اور یورپ ان محاذوں پر ان رہنماؤں نے سفارتی محا ز پر انتھک جدوجہد کی اور مختلف ادارے اور تھنک ٹینکس قائم کیے بین الاقوامی کانفرنسز منعقد کی کی اور عالمی سطح پر رائے عامہ منظم کرنے کے لیے کردار ادا کیا ان کی سربراہی میں قائم نامور تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ اف پالیسی سٹڈیز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مسئلہ کشمیر پر سیمینارز اور کانفرنسز کے انعقاد کے علاوہ سکالرز نے بھارتی مظالم اجاگر کرنے کے لیے کشمیر کی جدوجہد کو حقیقی تناظر میں بھرپور طور پر اجاگر کیا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پروفیسر صاحب مسئلہ کشمیر میں تحریک حوالے سے کرتے رہے کا فیصلہ تحریک ا کرنے کا میں ایک کے لیے کا عمل اور ان

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر صحافیوں کیلئے دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں سے ایک،

2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد سے مقامی صحافیوں کو کالے قوانین کے تحت ہراساں کیے جانے، نگرانی اور الزامات کا سامنا ہے، جب کہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو مقبوضہ علاقے تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ اسلام ٹائمز۔  مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کے ان خطرناک ترین مقامات میں شامل ہے جہاں صحافت اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد مشکل ترین حالات میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1989ء سے اب تک کم از کم 20 صحافی اپنے پیشہ فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیے گئے۔ قتل کئے جانیوالے صحافیوں میں شبیر احمد ڈار، مشتاق علی، محمد شعبان وکیل، خاتون صحافی آسیہ جیلانی، غلام محمد لون، غلام رسول آزاد، پرویز محمد سلطان، شجاعت بخاری، علی محمد مہاجن، سید غلام نبی، الطاف احمد فکتو، سیدان شفیع، طارق احمد، عبدالمجید بٹ، جاوید احمد میر، پی این ہنڈو، محمد شفیع، پردیپ بھاٹیہ، اشوک سودھی اور رئیس احمد بٹ شامل ہیں۔ 2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پریس کی آزادی میں تیزی سے کمی آئی ہے، مقامی صحافیوں کو کالے قوانین کے تحت ہراساں کیے جانے، نگرانی اور الزامات کا سامنا ہے، جب کہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو مقبوضہ علاقے تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ تنقیدی رپورٹنگ پر انہیں مقبوضہ علاقے سے چلے جانے پر مجبور کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج، پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں کو ہراسانی، اغوا، قاتلانہ حملوں، گرفتاریوں، تھانوں میں طلبی اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کیلئے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔

عرفان معراج، سرتاج الطاف بٹ اور عادل سمیت کئی صحافی اب بھی بھارت کی مختلف جیلوں میں غیر قانونی حراست کا سامنا کر رہے ہیں۔ 23 اپریل 2025ء کو جموں میں مقیم سینئر صحافی راکیش شرما کو کٹھوعہ میں ایک احتجاج کے دوران بی جے پی رہنماﺅں نے پہلگام واقعے کے دوران بھارتی فورسز کی عدم موجودگی پر سوال اٹھانے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس کے خلاف صحافیوں نے جموں اور کٹھوعہ میں بھرپور احتجاج کیا۔ جلاوطن کشمیری ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ 31 سالہ مسرت زہرہ کو بھارتی پولیس کی دھمکیوں کی وجہ سے کشمیر چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے متنازعہ علاقے میں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دینے پر توجہ مرکوز کی تھی۔ وہ مارچ 2021ء میں ایک جرمن این جی او کی مدد سے مقبوضہ علاقے سے چلی گئیں۔ زہرہ کو ان کی فیس بک پوسٹس کے لیے نشانہ بنایا گیا، جنہیں پولیس نے "بھارت مخالف” قرار دیا تھا اور زہرہ کو کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

جنوری 2022ء میں زہرہ نے کہا تھا کہ پولیس نے سری نگر میں اس کے والدین کو مارا پیٹا تھا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا ”پولیس نے آج شام 5 بجے کے قریب بٹاملو میں میرے والدین کو مارا پیٹا۔ پولیس والوں نے میرے والد کا شناختی کارڈ چھین لیا ہے اور جب میری والدہ نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی مارا پیٹا گیا۔ چیلنجوں اور دھمکیوں کے باوجود زہرہ نے اپنی صحافت میں ثابت قدمی سے کشمیر میں زندگی کے حقائق کو دستاویزی شکل دی۔ ان کے کام کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • او آئی سی کا بھارت میں اسلاموفوبیا اور کشمیر میں مسلم کش اقدامات پر سخت ردعمل
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا ٹرک 600 فٹ گہری کھائی میں گر گیا، 3 اہلکار ہلاک
  • بھارت ظلم و جبر کی کارروائیوں سے تحریک آزادی کشمیر کو ہرگز دبا نہیں سکتا، بیرسٹر سلطان
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا ٹرک کھائی میں جاگرا، 3 فوجی ہلاک
  • مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کا ٹرک حادثے کا شکار، 3 فوجی ہلاک
  • مقبوضہ کشمیر صحافیوں کیلئے دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں سے ایک،
  • مودی سے ملاقات کرنے والے وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر نے خود کو لعنت کا حقدار کیوں قرار دیا
  • مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ کی مودی سے ملاقات
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، مشعال ملک کا اقوامِ متحدہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ