اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے اس سرکلر کو غیرآئینی قرار دیا ہے جس کے تحت پنشنر والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کے پنشن کے حق کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک کی جانب سے 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں  سندھ حکومت کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ  یہ  سرکلر اپنے آغاز سے ہی  غیر آئینی اور کسی قانونی اثر کے بغیر ہے اور اسے پنشنر کی وفات کے وقت زندہ رہنے والی بیٹی کے پنشن کے حق کو ختم کرنے کے لیے  استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ 

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے قرار دیا کہ پاکستان کی بین الاقوامی قانون کے تحت ذمہ داریاں اس اصول کو تقویت دیتی ہیں کہ خواتین کو صرف ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر معاشی حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

بیٹیوں کو ضرورت کی بنیاد پر پنشن دی جاتی ہے نہ کہ ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر۔ درحقیقت، بھارت میں بھی معذور بچوں کو ان کی مالی ضرورت کی بنیاد پر زندگی بھر خاندانی پنشن حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

بنگلہ دیش میں سماجی تحفظ کے پروگراموں کے ذریعے بھی اسی طرح کے اقدامات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب وہ بھی بیوہ یا طلاق یافتہ بیٹیوں کے لیے پنشن کی اجازت دیتا ہے اور بعض اوقات ان پوتوں کے لیے بھی جو پنشنر پر منحصر ہوتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ  پنشن کی بروقت ادائیگی صرف ایک انتظامی اقدام نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے۔

یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ پنشنر کی وفات کے بعد زندہ رہنے والی بیٹی کے لیے پنشن کی اہلیت کا انحصار مکمل طور پر اس کی ازدواجی حیثیت پر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک منظم تعصب موجود ہے جو بیٹی کو صرف ایک ڈیپینڈینٹ کے طور پر دیکھتا ہے  جس کا مالیاتی انحصار شادی کے بعد والدین سے شوہر کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔

یہ مفروضہ  اس غلط رائے پر  مبنی ہے کہ غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ خواتین مالیاتی طور پر  ڈیپینڈینٹ ہوتی ہیں  جبکہ شادی شدہ خواتین مالی طور پر محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ ذہنیت اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ شادی شدہ خواتین کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ پنشن معاملات میں اس مفروضے کے تحت  ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر اس قسم کا اخراج غیر آئینی، امتیازی سلوک اور آئین کے آرٹیکلز 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر کی وفات کے قرار دیا کے بعد کے لیے

پڑھیں:

گورنرسندھ اور اسپیکر کے درمیان اختیارات کا تنازع، سپریم کورٹ 3 نومبر کو سماعت کرے گی

سپریم کورٹ میں گورنر ہاؤس سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی کے درمیان اختیارات کا تنازع ایک بار پھر زیرِ بحث آنے والا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قائم مقام گورنر کے اختیارات کا معاملہ: کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا

قائم مقام گورنر کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کے اُس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے جس میں اسپیکر سندھ اسمبلی کو گورنر ہاؤس تک مکمل رسائی دینے کا حکم دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ ایک 3 نومبر کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی رافیل کے ماڈل کو آگ لگا کر چائے کی چسکی، کامران ٹیسوری کی ویڈیو وائرل

سندھ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قائم مقام گورنر کی غیر موجودگی میں اسپیکر سندھ اسمبلی کو گورنر ہاؤس میں داخلے اور اس کے استعمال کا مکمل اختیار حاصل ہے۔

کامران ٹیسوری نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ فیصلہ آئینی اختیارات سے متصادم ہے اور نظرثانی کا متقاضی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اویس قادر سپریم کورٹ سندھ سندھ ہائیکورٹ کامران ٹیسوری گورنر ہاؤس

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ میں خانپور ڈیم کیس کی سماعت، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری کر دیا
  • سپریم کورٹ کراچی رجسٹری  نے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفے پر پنشن کیس کا24سال بعد فیصلہ سنا دیا
  • سپریم کورٹ؛ خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ کے فریقین کو نوٹسز جاری
  • سپریم کورٹ میں اہم تقرریاں، سہیل لغاری رجسٹرار تعینات 
  • کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
  • سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل
  • گورنرسندھ اور اسپیکر کے درمیان اختیارات کا تنازع، سپریم کورٹ 3 نومبر کو سماعت کرے گی
  • سپریم کورٹ میں تقرریاں، سیشن جج سہیل لغاری ڈیپوٹیشن پر رجسٹرار سپریم کورٹ تعینات
  • پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ