حالیہ کشیدگی پر ترک صدر نے پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہنے کا اعلان کیا، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
حالیہ کشیدگی پر ترک صدر نے پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہنے کا اعلان کیا، عرفان صدیقی WhatsAppFacebookTwitter 0 6 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ میں پارلیمانی پارٹی لیڈر اور خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ برصغیر میں جاری حالیہ کشیدگی میں بھی صدر طیب اردوان نے کھل کر پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہنے کا اعلان کیا اور پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔
پاکستانی نژاد ترک ہیرو ’’عبد الرحمٰن پشاوری‘‘ کی 100 سالہ برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان صدیوں پر محیط اخوت اور بھائی چارے کے اٹوٹ رشتے استوار ہیں، ایک پاکستانی مرد آہن ’’عبدالرحمن پشاوری‘‘ اس برادرانہ تعلق کی روشن مثال ہے جس نے انگریز سامراج کے خلاف ترکوں کی آزادی کی جنگ میں داد شجاعت دی اور ترک قوم کا ہیرو بن گیا۔
سینیٹر عرفان صدیقی کو ’’عبدالرحمن پشاوری‘‘ کی صد سالہ تقریب کے موقع پر ترک حکومت اور تہران یونیورسٹی نے خاص طور مدعو کیا۔ اپنے خطاب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے دعوت دینے پر منتظمین، پاکستان میں یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ اور کلچر سینیٹرز کے کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر خلیل طوقار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ’’عبدالرحمٰن پشاوری‘‘ کی سو سالہ برسی پر خصوصی تقریب کے انعقاد کو سراہا اور کہا کہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ترک قوم اس جری پاکستانی اور ترکوں سے محبت کرنے والے بہادر کو نہیں بھولی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات صدیوں پر محیط ہیں اور عبد الرحمٰن پشاوری ان تعلقات کی نمایاں اور روشن مثال ہے۔ عبد الرحمٰن پشاوری پاکستان اور ترکیہ کے درمیان اسلامی اخوت کے اٹوٹ رشتوں کا ثبوت ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عبد الرحمٰن پشاوری پاکستان اور ترکیہ کے مشترکہ فرزند ہیں اور ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ عبد الرحمٰن پشاوری کی زندگی، آزادی کیلئے ان کی تڑپ اور جدوجہد کی داستان ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر رجب اردوان نے پاکستان کے متعدد دوروں کے دوران دونوں ممالک کے اسی رشتے کی بات کی اور عبدالرحمن پشاوری کو ضرور یاد کیا اور ترکیہ کے ساتھ عبدالرحمٰن پشاوری کی گہری محبت اور لازوال وابستگی کا بھی ذکر کیا۔ صدر رجب طیب اردوان نے عبدالرحمٰن پشاوری کی اس عملی جدوجہد کی بھی تحسین کی جو انہوں نے ترکوں کی آزادی کے لیے کی۔
افتتاحی تقریب میں پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار، وائس چانسلر سندھ مدرسۃ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر مجیب الدین صحرائی، وائس چانسلر شاہ عبداللطیف یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک، وائس ریکٹر استنبول یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر گلثوم آق، پاکستان کے ترکیہ میں سفیر یوسف جنید اور وائس گورنر حسن گوزین نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور ترکیہ کی صدیوں پر محیط تعلق اور عبد الرحمٰن پشاوری سمیت دیگر عظیم ہستیوں کی قربانیوں، ان کی عملی جدوجہد اور ترک عوام کے ساتھ والہانہ محبت پر روشنی ڈالی۔
مقررین کا کہنا تھا کہ عبد الرحمٰن پشاوری نظریاتی، نڈر اور بہادر شخصیت تھے۔ انہوں نے کہا کہ عبد الرحمٰن پشاوری کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا اور ان کی یاد آج بھی ترک عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عبد الرحمٰن پشاوری کی کہانی ہمیں آزادی اور حریت کے لیے جدوجہد کی ترغیب دیتی ہے۔
تقریب سے قبل سینیٹر عرفان صدیقی کی قیادت میں پاکستانی مندوبین کے وفد نے استنبول کے نائب گورنر اور استنبول یونیورسٹی کے وائس ریکٹر سے ملاقات کی۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے استنبول کے نائب گورنر کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا کہ ترکیہ آزمائش کی ہر گھڑی، ہر امتحان میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ برصغیر میں جاری حالیہ کشیدگی میں بھی صدر طیب اردوان نے کھل کر پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہنے کا اعلان کیا ہے اور پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان کی بھرپور حمایت کرنے پر پاکستان کی حکومت اور عوام کی طرف سے خاص طور پر گورنر استنبول کے ذریعے صدر اردوان اور حکومت ترکیہ کا شکریہ ادا کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبررچرڈ گرینل کا ایک بار پھر عمران خان کے حق میں بیان، پی ٹی آئی کو اب بھی امید رچرڈ گرینل کا ایک بار پھر عمران خان کے حق میں بیان، پی ٹی آئی کو اب بھی امید اسلام آباد ہائی کورٹ: ہائی پاور سلیکشن بورڈ کے فیصلوں کی قانونی حیثیت چیلنج، حکومتی جواب غیر تسلی بخش قرار افغانستان میں خود کش حملہ آوروں کو تربیت دے کر مختلف دہشت گرد تنظیموں کو بیچے جانے کا انکشاف مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے پر نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے منظور، 2 ججوں کا اختلاف سینئر صحافی جان محمد مہر کے قتل میں مطلوب ملزم بیٹے سمیت ڈرون حملے میں ہلاک وزیر داخلہ کی قطر کے وزیراعظم سے ملاقات، پاک بھارت کشیدگی پر پاکستان کا مؤقف پیشCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سینیٹر عرفان صدیقی نے کہ عبد الرحم ن پشاوری پاکستان اور ترکیہ کے الرحم ن پشاوری کی انہوں نے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر حالیہ کشیدگی نے پاکستان اردوان نے کے لیے
پڑھیں:
ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
فاروق بھائی، فلم دیکھیں گے؟
برادرِ محترم ڈاکٹر خلیل طوقار نے یہ سوال پوچھا تو میں چونک گیا۔ احباب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر خلیل طوقار سنجیدہ فکر ادیب اور محقق ہیں اتنے سنجیدہ کہ افسانہ و ناول کو بھی ان کی توجہ پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ پس منظر تھا جب انھوں نے فلم دیکھنے کی دعوت دی تو میں چونکا۔ یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے جب پاکستان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اعلان کے مطابق ہفتہ ترکیہ منایا جا رہا تھا۔
ترکیہ کی قومی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر عالمی استعماری طاقتوں نے نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے بلکہ استنبول پر بھی قبضہ کر لیا۔ یوں ترکیہ کی آزادی ہی داؤ پر لگ گئی۔
یہ بڑا مشکل زمانہ تھا، مگر ترکیہ کی قومی فوج نے غازی مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں استعماری قوتوں کے خلاف کامیابی سے جنگ لڑی اور اپنے ملک کی آزادی برقرار رکھی۔ اکتوبر 1915 میں چناق قلعے کا معرکہ ہوا جس میں اتحادی فوج کو فیصلہ کن شکست ہوئی، اور 29 اکتوبر 1923 کو غازی مصطفی کمال اتاترک نے انقرہ کو دارالحکومت قرار دے کر جدید جمہوریہ ترکیہ کے قیام کا اعلان کیا۔ ہمارے ترک بھائی یہ دن بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔ اسی تاریخی پس منظر پر مبنی وہ فلم تھی جسے دیکھنے کی دعوت مجھے ڈاکٹر خلیل طوقار نے دی۔
فلم کا نام ہے آخری خط۔ یہ سلطنتِ عثمانیہ کی فضائیہ کے ایک بہادر پائلٹ صالح کی سرفروشی اور محبت کی کہانی ہے۔ ترکیہ میں میرا آنا جانا بہت رہا ہے۔ استنبول میں قیام کے دوران استقلال جادہ سی پر جانا ہمیشہ ایک خوش گوار تجربہ رہا۔ وہاں ہر وقت ہزاروں سیاح مٹرگشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان ہی گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے ترکیہ کی فلم انڈسٹری سے بھی تعارف ہوتا ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے پوسٹر نظر آتے ہیں، جیسے کبھی ہماری فلموں کے ہوا کرتے تھے۔ مجھے ایک فلم کا نام یاد ہے بابا میراثی۔ یہ نام دیکھ کر میں چونکا کہ کیا ترکیہ میں بھی میراثی ہوتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہاں میراثی سے مراد صاحبِ میراث ہے، نہ کہ ہمارے روایتی قصہ گو۔ہمارا میراثی تو امتدادِ زمانہ سے بے حال ہو چکا ہے، ورنہ ماضی میں وہ عزت دار شخص تھا جو خاندان کے شجرے کا ریکارڈ رکھا کرتا تھا۔ اگر آج بھی کوئی برگزیدہ میراثی مل جائے تو وہ اپنی بے نظیر یادداشت کے سہارے ایسے دل چسپ انداز میں شجرہ سناتا ہے کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
بات کسی اور طرف جا نکلی۔ استقلال جادہ سی میں فلموں کے اشتہار دیکھ کر میری رائے بنی تھی کہ ترکیہ کی فلمیں بھی ہماری فلموں جیسی ہی ہیں۔ اگر کبھی ترکیہ میں کوئی فلم دیکھنے کا موقع ملتا تو شاید یہ خیال بدل جاتا، مگر ایسا کوئی موقع میسر نہ آ سکا۔ اب کئی برس کے بعد ڈاکٹر خلیل طوقار کی دعوت پر یہ فلم دیکھی تو اندازہ ہوا کہ ترکیہ کی فلم انڈسٹری تو معیار کے اعتبار سے ہالی ووڈ کو شرماتی ہے۔فلم دیکھ کر دوہری خوشی ہوئی: ایک فلم کے اعلی معیار کی، اور دوسری وزیرِ اعظم کے اس فیصلے کی۔ اگر انھوں نے ہفت ترکیہ منانے کا اعلان نہ کیا ہوتا تو شاید یہ فلم دیکھنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
کچھ عرصہ قبل سردیوں کی ایک خوش گوار شب ڈاکٹر خلیل طوقار نے عشائیے کا اہتمام کیا۔ ان کے مہمان دو تھے: برادرِ محترم پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اور ان سطور کا لکھنے والا۔ ڈاکٹر طوقار ترکیہ کے ثقافتی مرکز یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی پاکستان شاخ کے سربراہ ہیں۔ پاکستان ان کے لیے اجنبی ملک نہیں ۔وہ اس کے داماد بھی ہیں اور فرزندِ اردو بھی۔ انھوں نے گزشتہ پینتیس چالیس برس میں اردو زبان و ادب کو مالا مال کر دیا ہے۔ تیس چالیس کتابوں کے مصنف ہیں اور ہندکو زبان کی گرامر بھی انھوں نے مرتب کی ہے۔
یوں وہ پاکستان میں ہوں یا ترکیہ میں، ہمارے لیے اجنبی نہیں لیکن وہ چوں کہ ایک سرکاری اسائنمنٹ پر یہاں ہیں، اس لیے انھیں بھی یہ احساس تھا اور ہمیں بھی کہ جیسے ہی وہ واپس جائیں گے، ان کے دم قدم سے قائم یہاں تہذیبی رونقیں ماند پڑ جائیں گی۔ یہی احساس تھا جس نے اس رات کے کھانے کو یادگار بنا دیا، کیونکہ اسی نشست میں تجویز ہوا کہ پاک ترکیہ دوستی اور ثقافتی رشتوں میں مزید گہرائی پیدا کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے۔
یہ تنظیم آج بنے یا کل، ان ہی باتوں میں کافی وقت گزر گیا یہاں تک کہ ڈاکٹر یوسف خشک شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن کر خیرپور جا پہنچے۔ اس پیش رفت نے احساسِ زیاں کو بڑھا دیا۔ یوں مشاورت کا دائرہ وسیع کر دیا گیا جس میں جناب خورشید احمد ندیم، ڈاکٹر مجیب میمن، ڈاکٹر زاہد مجید، محترمہ نعیم فاطمہ علوی، ڈاکٹر محمد کامران اور ڈاکٹر صدف نقوی سمیت دیگر احباب شامل ہوئے۔ مکمل اتفاقِ رائے سے دوست کے نام سے پاک ترکیہ فرینڈشپ فورم قائم کیا گیا۔اس فورم کے قیام کا اعلان 30 اکتوبر کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں کیا گیا جو ہفتہ ترکیہ کے سلسلے میں یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں شہر کی مختلف جامعات اور کالجوں کے اساتذہ و طلبہ امڈ آئے۔
ہفت ترکیہ کی تقریبات بھرپور رہیں۔ پی این سی اے کے تعاون سے ترک موسیقی کی محفل ہوئی، فلم شو کا ذکر آ چکا۔ لوک ورثہ میں بحیرہ اسود کے معروف رقص ہورون کا مظاہرہ ہوا۔ ترکوں کے مختلف خطوں میں الگ الگ رقص رائج ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کی ثقافت اور روایت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تہذیبی مظاہر میں نظم و ترتیب کے کیا معنی ہیں۔ ہورون ان سب سے بڑھ کر ہے۔
ہفتہ ترکیہ ہر اعتبار سے کامیاب اور شاندار رہا، پاکستانیوں اور ترک بھائیوں، سب نے مل کر ہفت ترکیہ پورے جوش و خروش سے منایا۔ اس موقع پر اسلام آباد میں چھ تصویری نمائشوں کے علاوہ خیر پور اور جامعہ کراچی میں ایک ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا ۔ ان مواقع پر حاضرین کی تواضع ترک کافی سے کی گئی۔ اس گہما گہمی کے پیچھے ایک بڑی قوت محرکہ یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی تھی جس کے ان تھک سربراہ ڈاکٹر خلیل طوقار ہیں جو ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو سفیر کی حیثیت سے اسلام آباد تشریف لائے ہیں۔ ترکیہ کے تمام سفیر متحرک ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو کے عوامی انداز نے ترک سفارت خانے کو بہت متحرک کر دیا ہے یہی سبب ہے کہ اس ہفتے کی رونقیں صرف وفاقی دارالحکومت میں نہیں بلکہ خیرپور کی شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی جیسے دور دراز علاقوں میں بھی دیکھی گئیں۔ہم اب تک یومِ پاکستان اور یومِ آزادی کے موقع پر آبنائے باسفورس کے اساطیری پل کو پاکستان کے رنگ میں رنگا دیکھتے آئے تھے مگر اس بار پورا پاکستان ترکیہ کے رنگ میں رنگا گیا۔