برطانیہ کا بعض ممالک کے شہریوں کے ویزے محدود کرنے پر غور، کیا پاکستانی بھی متاثر ہوں گے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 6 May, 2025 سب نیوز

لندن(آئی پی ایس ) برطانوی حکومت کی جانب سے بعض ممالک کے شہریوں کے ویزے محدود کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزرا کا کہنا ہے کہ ان ممالک سے کام یا تعلیمی ویزے پر آنے والے سیاسی پناہ طلب کرلیتے ہیں۔برطانوی ہوم آفس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ایک لاکھ 8 ہزار افراد نے سیاسی پناہ طلب کی۔

سیاسی پناہ طلب کرنے والوں میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ 10 ہزار 542 تھی جبکہ دوسرے نمبر پر 2 ہزار 862 سری لنکن اور تیسرے پر 2 ہزار 841 نائجیرین شہری تھے۔رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ میں ایک لاکھ 7 ہزار 480 بھارتی اور 98 ہزار 400 چینی طلبہ موجود تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مجوزہ منصوبے سے پاکستان، نائجیریا اور سری لنکا سے برطانیہ آنا مشکل ہوسکتا ہے۔ابھی یہ واضح نہیں کہ کون سے ممالک کے افراد زائد المدت قیام کرتے ہیں کیونکہ ہوم آفس نے 2020 کے بعد ایگزٹ چیک کے اعداد و شمار شائع نہیں کیے ہیں۔ایک تھنک ٹینک یوکے ان چینجنگ یورپ کے فیلو پروفیسر جوناتھن پورٹس کا کہنا ہے کہ ویزوں پر پابندی سے پناہ کی درخواستوں پر کافی کم اثر پڑے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت کی زرعی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش اعلان جنگ تصور ہوگی: پاکستان بھارت کی زرعی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش اعلان جنگ تصور ہوگی: پاکستان اسرائیل کا یمنی دارالحکومت پر فضائی حملہ، صنعا ائیرپورٹ کو مکمل طور پر ناکارہ کرنیکا دعوی مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن گرینڈ الائنس میں شامل ہونے سے انکار کردیا بلوچستان میں کالعدم بی ایل اے کے دہشت گردوں کا حملہ، سیکیورٹی فورسز کے 7 جوان شہید وزیراعظم کا سروسز چیفس کے ہمراہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرزکا دورہ، وطن کے دفاع کے عزم کا اعادہ حالیہ کشیدگی پر ترک صدر نے پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہنے کا اعلان کیا، عرفان صدیقی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ممالک کے

پڑھیں:

پناہ گزینوں کے حقوق کی عوامی حمایت برقرار, سروے رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 جون 2025ء) نازک علاقائی سیاسی حالات اور امدادی وسائل میں نمایاں کمی کے باوجود حصول تحفظ کے لیے پناہ گزینوں کے حقوق کی حمایت میں کمی نہیں آئی۔ 29 ممالک میں لیے گے جائزے کی رو سے لوگ سمجھتے ہیں کہ امیر ممالک کو پناہ گزینوں کی مدد کے حوالے سے مزید ذمہ داری لینی چاہیے۔

20 جون کو منائے جانے والے پناہ گزینوں کے عالمی دن سے قبل عالمی تحقیقی و مشاورتی ادارے 'اپسوس' نے بتایا ہے کہ ان ممالک میں 67 فیصد لوگ اس نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ پناہ کے خواہش مند لوگوں کو ضروری مدد کی فراہمی ہونی چاہیے۔

اگرچہ یہ تعداد گزشتہ سال اس خیال کے حامی افراد کے مقابلے میں 2 فیصد کم ہے۔ تاہم، سویڈن، ارجنٹائن، نیدرلینڈز اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں پناہ گزینوں کے لیے عوامی سطح پر مضبوط حمایت برقرار ہے۔

(جاری ہے)

Tweet URL

اپسوس میں عوامی امور کے شعبے کی مینیجنگ ڈائریکٹر ٹرِن ٹو نے کہا ہے کہ اس جائزے سے پناہ کی فراہمی سے متعلق سامنے آنے والا لوگوں کا عزم حوصلہ افزا ہے۔

اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ پناہ گزینوں کے حوالے سے ترغیبات اور اپنے میزبان ممالک میں ان کے انضمام سے متعل قلوگوں میں پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پناہ گزینوں اور ان کے میزبان معاشروں میں متنوع نقطہ ہائے نظر کا ادراک کرتے ہوئے اس حوالے سے ایک مزید متوازن بیانیہ تشکیل دیا جانا چاہیے۔

پناہ گزینوں کے عالمی دن پر اپسوس کے سالانہ عالمی جائزے کا مقصد ایسی معلومات مہیا کرنا ہے جن کی بدولت ایسی تعمیری بات چیت ہو اور ایسے طریقہ کار وضع کیے جا سکیں جن سے ناصرف پناہ گزینوں بلکہ ان کے میزبانوں کو بھی فائدہ پہنچے۔

پناہ گزین مخالف بیانیہ

امدادی وسائل میں بڑے پیمانے پر کمی اور دنیا بھر میں بعض سیاست دانوں کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر پناہ گزینوں کو اپنے میزبان ممالک میں مسائل کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے سے ان کے لیے مشکلات کھڑی ہوئی ہیں۔

جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ 62 فیصد لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پناہ گزین خطرات سے بچنے کے لیے اپنا ملک نہیں چھوڑتے بلکہ معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے نقل مکانی کرتے ہیں۔

اس نقطہ نظر نے پناہ گزینوں کی سلامتی اور بہبود کے حوالے سے کئی طرح کے خدشات کو جنم دیا ہے اور 49 فیصد لوگ پناہ گزینوں کے لیے اپنے ملک کی سرحدیں مکمل طور پر بند کرنے کے حامی ہیں۔

تاہم، اب بھی 40 فیصد لوگ میزبان معاشروں میں پناہ گزینوں کے مثبت کردار کا اعتراف کرتے ہیں۔ ایسے ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے جہاں 56 فیصد لوگ پناہ گزینوں کے حامی ہیں۔

جائزے کے مطابق، پناہ گزینوں کے حق میں عملی اقدامات کرنے والوں کی تعداد کم ہے جو 38 فیصد سے کم ہو کر 29 فیصد پر آ گئی ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے ہمدردانہ جذبات میں کمی آنا اور مالی وسائل کی قلت اس کے بنیادی اسباب ہیں۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد میں بڑے پیمانے پر کمی کے بعد انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور ترکیہ اس معاملے میں بین الاقوامی اداروں کی مزید شمولیت چاہتے ہیں۔

مشترکہ کوششوں کی ضرورت

'یو این ایچ سی آر' کے ڈائریکٹر برائے خارجہ تعلقات ڈومینیک ہائڈ کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کے حوالے سے ہمدردی کے جزبات اور عملی اقدامات میں واضح فاصلہ دیکھا جا سکتا ہے۔ لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ تحفظ کا حصول تمام انسانوں کا حق ہے اور امیر ممالک کو یہ حق یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے لیکن موجودہ معاشی صورتحال اور عالمگیر سیاسی ماحول میں پناہ گزینوں کے لیے حمایت کم ہونے لگی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتوں، اداروں، نجی شعبے اور عوام کی جانب سے پناہ گزینوں کے مسائل کا حل نکالنے اور انہیں امید دینے کے لیے متحدہ کوششوں کے بغیر امدادی نظام قائم نہیں رہ پائے گا۔

یہ جائزہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دنیا میں نقل مکانی پر مجبور لوگوں کی تعداد 122 ملین تک جا پہنچی ہے، ان میں 42.7 ملین پناہ گزین بھی شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یہ پناہ گاہ صرف یہودیوں کے لیے ہے
  • ایران اسرائیل کشیدگی کے بعد 8 ہزار سے زائد اسرائیلی بےگھر، اسرائیلی میڈیا کا انکشاف
  • پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود لاکھوں مہاجرین کی با عزت طریقے سے میزبانی کی:مریم نواز
  • پاکستان نے اپنے شہریوں کو عراق، لبنان اور شام کا سفر کرنے سے روک دیا
  • فوجداری قوانین میں ترمیم کا بل، خاتون کو سرعام برہنہ کرنے اور ہائی جیکر کو پناہ دینے پر سزائے موت ختم کرنیکی تجویز
  • امریکی اسٹوڈینٹ ویزے پر پابندی ختم، مگر اس کا سوشل میڈیا سے کیا تعلق ہے؟
  • پناہ گزینوں کے حقوق کی عوامی حمایت برقرار, سروے رپورٹ
  • ساڑھے 18 ہزار پاکستانی قیدی بیرون ملک سے رہا
  • بیرون ممالک میں قید ساڑھے 18 ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی
  • کویت کے ویزے بحال، پاکستانیوں کے لیے روزگار کے کون سے مواقع موجود ہیں؟