نئے پوپ کے انتخاب کیلیے اجلاس شروع؛ علامتی سیاہ یا سفید دھوئیں سے کیا مراد ہوگی؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
رومن کیتھولک چرچ کے 133 کارڈینلز نئے پوپ کے انتخاب کے لیے روایتی کونکلیو میں داخل ہو گئے جہاں وہ دنیا سے کٹ کر اس وقت تک رہیں گے جب تک نیا روحانی پیشوا منتخب نہیں کر لیتے۔
کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ فرانسس کے گزشتہ ماہ انتقال کے بعد نئے پوپ کے انتخاب کے لیے تاریخی عمل شروع ہو گیا۔
کارڈینلز نے ویٹیکن کے سینٹ پیٹرز باسیلیکا میں ایک دعائیہ اجتماع کے بعد سسٹین چیپل میں داخل ہو کر خفیہ ووٹنگ کا آغاز کیا۔ پہلے دن صرف ایک ووٹ ڈالا جائے گا اس کے بعد روزانہ زیادہ سے زیادہ چار بار ووٹنگ ہو سکتی ہے۔
ووٹنگ کے بعد جلائے گئے بیلٹ کا دھواں چیپل کی چھت سے باہر آئے گا۔ سیاہ دھواں کا مطلب ہو گا کہ انتخاب نہیں ہوا جب کہ سفید دھواں اور گھنٹیوں کی آواز نئے پوپ کے انتخاب کی نشاندہی کرے گی۔
کارڈینل جیووانی بٹسٹا ری، جو کارڈینلز کے کالج کے ڈین ہیں، نے دعا میں کہا کہ نیا پوپ ایسا ہو جو "دنیا پر گہری نگاہ رکھے۔"
کونکلیو میں اس بار ریکارڈ 133 کارڈینلز حصہ لے رہے ہیں جو 70 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعداد 2013 میں پوپ فرانسس کے انتخاب کے وقت 115 تھی۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پوپ فرانسس نے چرچ کو دنیا کے دور دراز خطوں تک پھیلانے کی کوشش کی۔
فی الحال کوئی واضح امیدوار سامنے نہیں آیا، تاہم اطالوی کارڈینل پیئیترو پیروولین اور فلپائنی کارڈینل لوئس انتونیو ٹیگلے کو مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔
دیگر ممکنہ ناموں میں فرانس کے ژاں مارک ایولین، ہنگری کے پیٹر ایرڈو، امریکا کے رابرٹ پرووسٹ اور یروشلم کے اطالوی کارڈینل پیئرباتستا پیزابالا شامل ہیں۔
ویٹیکن نے کونکلیو کے دوران کسی قسم کی معلومات کے اخراج کو روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے، جن میں جیمرز شامل ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی خفیہ بات چیت لیک نہ ہو۔
کئی کارڈینلز نے امید ظاہر کی ہے کہ انتخاب جلد مکمل ہو جائے گا تاکہ چرچ کے اندر تقسیم یا بے سمتی کا تاثر پیدا نہ ہو۔
موجودہ کونکلیو میں 80 فیصد کارڈینلز ایسے ہیں جنہیں پوپ فرانسس نے مقرر کیا تھا، اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ نیا پوپ بھی ان کی اصلاحات کا تسلسل قائم رکھے گا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پوپ فرانسس کے انتخاب نئے پوپ کے بعد
پڑھیں:
نومبر 1984ء میں سکھوں کی نسل کشی بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب ہے
یکم نومبر 1984ء بھارت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت میں یکم نومبر 1984ء وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم کی گئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کر دیا۔ ذرائع کے مطابق 31 اکتوبر 1984ء کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتل عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔یکم نومبر 1984ء بھارت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف دہلی میں 2800 سکھو ں کو قتل کیا گیا جبکہ ملک بھر میں 3350 سکھوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، تاہم آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر 8 ہزار سے 17ہزار سکھوں کو قتل کیا گیا جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ عالمی جریدے ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوئوں نے ووٹر لسٹوں سے سکھوں کی شناخت اور پتے معلوم کئے اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔ شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بھارتی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔ انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں سکھوں کے گھروں کی نشاندہی کرتے اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہو کر انہیں قتل کرتے اور ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے تھے۔ یہ خونیں سلسلہ کئی روز تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
بھارت میں 1984ء کے قتل عام سے قبل بھی اور بعد میں بھی سکھوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہا۔1969ء میں گجرات، 1984ء میں امرتسر اور 2000ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ 2019ء میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے بیرون ملک مقیم سکھ رہنمائوں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔ 18 جون 2023ء کو کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کر دیا گیا جس پر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔ ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔