فن لینڈ میں جنگی طیارہ آرکٹک علاقے میں گر کر تباہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
فن لینڈ کی فضائیہ کا ایک جنگی طیارہ FA-18 ہارنیٹ آرکٹک علاقے میں ایئرپورٹ کے قریب گر کر تباہ ہوگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پائلٹ نے طیارے سے بروقت ایجیکٹ کرکے اپنی جان بچائی۔
فن لینڈ کی مسلح افواج نے واقعے کی تصدیق کی ہے تاہم حادثے کی وجوہات کے بارے میں فی الحال کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
فن لینڈ کے سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق جائے حادثہ سے دھویں کے گہرے بادل اٹھتے دیکھے گئے اور متعدد ایمرجنسی گاڑیاں فوری طور پر روانہ کی گئیں۔
ایئرپورٹ جانے والی سڑک کو بند کر دیا گیا جب کہ پولیس نے علاقے میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔
ایئرپورٹ انتظامیہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ حادثے کے باعث فی الحال کمرشل پروازوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم اگلی پرواز کئی گھنٹوں بعد متوقع ہے۔
تا حال حادثے کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی تاہم تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فن لینڈ
پڑھیں:
دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے ایک بار پھر تباہ شدہ اسکولوں کا رخ کرنے لگے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دو سالہ تباہ کن جنگ کے بعد غزہ کے بچے بتدریج اپنی برباد شدہ درسگاہوں کی جانب لوٹنے لگے ہیں، جہاں ایک بار پھر تعلیم کی شمع روشن ہونے لگی ہے۔ جنگ بندی کے بعد تعلیم کی بحالی نے نہ صرف بچوں بلکہ والدین کے دلوں میں بھی نئی اُمید پیدا کر دی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایجنسی اُنروا نے اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد غزہ میں بعض اسکول جزوی طور پر دوبارہ کھول دیے گئے ہیں، جہاں بچے عارضی کلاس رومز میں تعلیمی سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں۔
اُنروا کے سربراہ فلپ لزارینی کے مطابق اب تک 25 ہزار سے زائد طلبہ عارضی تعلیمی مراکز میں واپس آچکے ہیں، جبکہ تقریباً 3 لاکھ بچے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ادارے کے مطابق غزہ کے علاقے نصیرات میں واقع الحصینہ اسکول میں تدریسی عمل بحال کر دیا گیا ہے، اگرچہ عمارت اب بھی تباہ شدہ ہے اور کمروں کی شدید قلت ہے۔
عرب میڈیا سے گفتگو میں 11 سالہ فلسطینی بچی وردہ نے کہا کہ “میں اب چھٹی جماعت میں ہوں، لیکن جنگ اور نقل مکانی نے میری دو سال کی تعلیم چھین لی۔” اُس نے بتایا کہ اسکول اب آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے، اور جیسے ہی عمارت خالی ہوگی، کلاسز معمول کے مطابق جاری ہو سکیں گی۔
رپورٹ کے مطابق تدریس کے ابتدائی دنوں میں ایک ہی کمرے میں پچاس سے زائد طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں، نہ میزیں ہیں نہ کرسیاں، صرف زمین پر بیٹھ کر وہ نوٹ بک میں لکھنے پر مجبور ہیں۔
سخت حالات، محدود وسائل اور ادھڑی عمارتوں کے باوجود غزہ کے بچوں نے ہار نہ مانی۔ وہ علم کے ذریعے اپنی برباد دنیا کو ازسرِنو روشن کرنے کے عزم کے ساتھ اسکولوں کا رُخ کر رہے ہیں — اس اُمید کے ساتھ کہ شاید تعلیم ہی اُن کے مستقبل میں امن کی کرن بن سکے۔