نیویارک میں تاریخ کا نیا موڑ
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251106-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
نیویارک کی سب سے بڑی سیاسی کڑی میں حالیہ تاریخی شکست و فتح نے نہ صرف شہر کی اندرونی سیاست کو بدل دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر سیاسی رجحانات، معاشی ترجیحات اور سماجی توازن کے حوالے سے بھی نئے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ اس الیکشن کی سب سے نمایاں خبر زہران یا بالعموم بین الاقوامی خبروں میں جو صورت میں آیا، ممدانی کی کامیابی ہے، جو ایک ایسے عہد میں سامنے آئی ہے جب مہنگائی، رہائش کے بحران، عوامی نقل و حمل کی ناقص صورتحال اور معاشی عدم مساوات عام شہریوں کا روز مرّہ مسئلہ بن چکے تھے۔ ان کی انتخابی مہم نے یہی پیغام دیا کہ وہ عام طبقے کے مسائل کو فوقیت دیں گے اور یہی پیغام آخر کار ووٹرز تک پہنچا جس کا اظہار نتیجہ خیز ثابت ہوا۔
یہ نتیجہ صرف ایک مقامی سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر ترقی پسند، اعتدال پسند اور قدامت پسند دھڑوں کے مابین جاری کشمکش کا عکاس بھی ہے۔ ممدانی کی پالیسی مفت بچوں کی دیکھ بھال، مفت بسوں کا تجربہ؍ پبلک بس سروِس، کرایہ منجمد رکھنے جیسی فوری عوامی فوائد پر مبنی تجاویز واضح طور پر ایک بائیں بازو اقتصادی ایجنڈے کی ترجمانی کرتی ہیں، جو بڑے کاروباری اور مالیاتی حلقوں کے خلاف ایک عوامی جوابی لہر کے طور پر سامنے آئی۔ اگرچہ یہ نظریاتی موڑ کچھ حلقوں میں پارٹی کے لیے موقع ہے، مگر دوسری طرف یہ خطرہ بھی ہے کہ شہر کی روایتی سرمایہ کاری، فنانسنگ اور پرائیویٹ سیکٹر کے تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا ہوں۔
انتخابی میدان میں جو جذباتی اور قومی سطح کے عنصر شامل ہوئے، وہ بھی قابل ِ غور ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ممدانی پر کی جانے والی تنقید اور مخصوص حلقوں کی جانب سے اشتعال انگیزی نے اس الیکشن کو محض مقامی انتخاب سے بڑھ کر قومی، ثقافتی اور مذہبی بحث میں تبدیل کردیا۔ ٹرمپ کے کلمات اور تنقید نے نہ صرف انتخابی مہم کو ناروا کشیدگی میں ڈالا بلکہ اس نے مذہبی و نسلی بنیادوں پر ووٹ بینک کی تشکیل کی کوششوں کو بھی ہوا دی، جو طویل المدتی سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سیاسی راہنما چاہے وہ صدر ہوں یا مقامی لیڈر جب ذمّے دار بیانیہ چھوڑ کر جذباتی حملوں کی راہ پر چلتے ہیں تو اس کے اثرات محض ووٹنگ تک محدود نہیں رہتے بلکہ وہ شہر کے بین النسلی اور بین المذہبی رشتوں پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔
اسی دوران قومی اور بین الصوبائی سطح پر پیدا ہونے والی سلامتی وانتظامی کشیدگی نے ووٹنگ کے عمل کو بھی متاثر کیا۔ نیو جرسی میں بننے والی بم خطرات کی اطلاعات نے انتخابی دن میں رکاوٹیں پیدا کیں، جس سے عوامی اعتماد اور انتخابی عمل کی روانی دونوں متاثر ہوئے۔ ایسے سنجیدہ سیکورٹی خدشات کا وجود اس امر کا ثبوت ہے کہ جدید عہد میں سیاسی مقابلہ آرائیاں اب صرف بیانات و وعدوں تک محدود نہیں رہیں؛ وہ کبھی کبھار عملیات اور خوف کی زبان اختیار کرلیتی ہیں، جس کا براہِ راست اثر شہری شمولیت اور جمہوری عمل کی سالمیت پر پڑتا ہے۔ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ شفافیت اور فوراً اقدامات کے ذریعے عوام کو تحفظ کا یقین دلائیں۔
زہران ممدانی کی ذاتی اور خاندانی شناخت نے بھی انتخابی کہانی کو عالمی سطح پر دلچسپی کا محور بنایا۔ ایک علمی و فنّی پس منظر رکھنے والا خاندان جہاں والد ماہر ِ علوم انسانی محمود ممدانی جیسے معتبر اسکالر ہیں اور والدہ میرہ نائر ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم ساز نے ممدانی کے سیاسی بیانیے میں بین الثقافتی اور عالمی حوالے دیے، جو انہیں نیویارک کے کثیرالثقافتی معاشرے میں ایک فطری نمائندہ بناتے ہیں۔ یہ امر خاص طور پر اس لحاظ سے اہم ہے کہ بڑے شہروں کی سیاست میں شناخت، نمائندگی اور ثقافتی روابط عوامی قبولیت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ عمومی طور پر یہ کامیابی مقامی، قومی اور عالمی سطح پر کیا معنی رکھتی ہے؟ پہلی بات یہ کہ ممدانی کی جیت ترقی پسند فکر کے لیے حوصلہ افزا ہے اور اس سے امریکا کے شہری مراکز میں بائیں بازو کے مسودات کو تقویت ملے گی خصوصاً رہائش، صحت ِ عامہ، اور ٹرانزٹ کے حوالہ سے۔ دوسری بات یہ کہ عالمی سطح پر یہ ایک علامتی پیغام بھی ہے۔ متنوع، امیگرینٹ ہونے والی برادریوں کے نمائندے اعلیٰ سیاسی عہدوں تک پہنچ سکتے ہیں، جو امتیاز اور منافرت کے خلاف ایک مضبوط سماجی جواب ہے۔ مگر تیسری اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ عملی اقدامات کا مرحلہ سب سے مشکل ہوگا وعدے آسان ہیں؛ نفاذ، بجٹ، قانونی رکاوٹیں اور انتظامی صلاحیت وہ میدان ہیں جہاں ممدانی کا حقیقی امتحان ہوگا۔ شہر کے بجٹ، وفاقی فنڈنگ، اور پراپرٹی؍ ڈیویلپمنٹ سیکٹر سے متوقع کشمکش ان پالیسیوں کے نفاذ کو پیچیدہ بنائیں گی، اور یہی وہ میدان ہوگا جہاں سیاسی بصیرت، اتحاد سازی، اور پالیسی سازی کی تکنیکی مہارت درکار ہوگی۔
مزید برآں، یہ فتح اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ طاقتور شخصیات یا سیاسی دھڑے اگر مخالف بیانیہ چلائیں تو وہ وقتی طور پر تیز اثر دکھا سکتے ہیں مگر طویل مدتی سیاسی کامیابی کے لیے محض خوف یا نفرت کے جذبات کافی نہیں رہتے؛ عوامی روزمرہ مسائل اور ان کے حل کی پیشکش زیادہ پختہ بیانیہ ثابت ہوتی ہے۔ اور یہی وہ سبق ہے جو دیگر شہروں اور ممالک کے پالیسی سازوں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔ معیشت، رہائش، ٹرانسپورٹ اور سماجی خدمات کی فراہمی ہی وہ شعبے ہیں جو شہری سیاست میں فیصلہ کن ثبوت بنتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ نیویارک کی یہ نئی تاریخ محض ایک شہر کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک وسیع تر عالمی رجحان کی علامت ہوسکتی ہے جہاں نوجوان، متنوع اور سیاسی طور پر منظم ووٹر بلاواسطہ اقتصادی مساوات اور عوامی خدمات کو اپنی اولین ترجیح بنا رہے ہیں۔ آئندہ برسوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ممدانی کی پالیسیاں کس حد تک عملی جامہ پہن پاتی ہیں، اور کیا وہ نیویارک کو ایک ایسے ماڈل شہر میں تبدیل کرسکیں گے جو دیگر شہروں کے لیے پالیسی نمونہ بنے، یا وہ سرمایہ داری، وفاقی سیاسی دبائو اور مقامی انتظامی حقیقتوں کے بیچ پھنس جائیں گے۔ اس سوال کا جواب نہ صرف نیویارک کے شہریوں کے لیے بلکہ عالمی سیاسی منظر نامے کے لیے بھی اہم ہو گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عالمی سطح پر ممدانی کی بھی ہے کے لیے
پڑھیں:
نیویارک کے پہلے مسلم میئر ظہران ممدانی کون ہیں؟
دریائے ہڈسن کے کنارے آباد امریکا کے سب سے بڑے شہر نیویارک کی متحرک سیاست میں آج ایک نیا چہرہ ابھر کر سامنے آیا ہے، جو کلچر، انٹرٹینمنٹ اور معیشت کے اس عالمی مرکز کے نومنتخب پہلے مسلم میئر ظہران قوامے ممدانی ہیں۔
افریقہ میں پیدا ہونے والا یہ نوجوان سیاست دان نہ صرف امریکی سیاست کے روایتی سانچوں کو چیلنج کر رہا ہے بلکہ وہ اپنے نظریات اور سماجی وابستگی کے باعث ایک نئی سیاسی سوچ کی علامت بن چکا ہے، امریکا کی صد سالہ تاریخ میں ظہران ممدانی سب سے کم عمر میئر بھی ہیں۔
ابتدائی زندگیظہران ممدانی 18 اکتوبر 1991 کو یوگنڈا کے دارالحکومت کَمپالا میں پیدا ہوئے، ان کے والد پروفیسر محمود ممدانی ممتاز محقق اور استاد ہیں، جبکہ والدہ میرا نائر بھارت کی عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ہیں، خاندان جلد ہی نیویارک منتقل ہوگیا، جہاں ظہران نے بچپن کے تجربات کے ذریعے نسلی اور طبقاتی تفاوت کو قریب سے محسوس کیا۔
انہوں نے نیویارک کے برونکس ہائی اسکول آف سائنسز سے تعلیم حاصل کی اور پھر وڈوائن کالج سے ایفریکن اسٹڈیز میں بیچلر ڈگری حاصل کی، تعلیم کے دوران ہی وہ سماجی انصاف اور عوامی حقوق کی تحریکوں سے وابستہ ہوئے۔
سماجی خدمت سے سیاست تک کا سفرسیاست میں آنے سے پہلے ظہران نے نیویارک میں رہائشی بحران کے شکار افراد کے ساتھ بطور ہاؤسنگ کونسلر کام کیا، جہاں انہوں نے گھروں سے بے دخلی کے خلاف جدوجہد کی، اسی تجربے نے انہیں عام شہریوں کی مشکلات کے قریب کیا، وہ مشکلات جنہیں اکثر روایتی سیاست دان نظرانداز کرتے ہیں۔
2020 میں ظہران ممدانی نے پہلی بار نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے ضلع 36 کوئینز سے الیکشن لڑا اور شاندار کامیابی حاصل کی، یوں وہ نیویارک اسمبلی کے چند انقلابی نوعیت کے نوجوان اراکین میں شامل ہو گئے جنہوں نے ’ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘ نظریات کو عوامی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کیا۔
سیاسی نظریات اور وژن34 سالہ ظہران ممدانی خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ قرار دیتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ نیویارک جیسے شہر میں دولت اور مواقع کی منصفانہ تقسیم ہی حقیقی ترقی کی بنیاد ہے۔ وہ فری پبلک ٹرانسپورٹ، خاص طور پر بسوں کو مفت کرنے، کرایہ کنٹرول اور سستی رہائش جیسے منصوبوں کے حامی ہیں۔
ان کے نزدیک شہری ترقی کا مطلب صرف بلند عمارتیں نہیں بلکہ وہ نظام ہے جو کم آمدنی والے افراد کو بھی باعزت زندگی گزارنے کا موقع دے۔ ان کا کہنا ہے کہ “اگر نیویارک واقعی دنیا کا عظیم ترین شہر ہے تو اس کا ہر شہری وہاں عزت سے رہ سکے۔”
نیو یارک کی میئرشپ کی دوڑ2025 میں ظہران ممدانی نے ایک بڑا سیاسی قدم اٹھاتے ہوئے نیو یارک سٹی میئر کے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا، ان کی مہم روایتی نعروں کے بجائے سماجی برابری، عوامی خدمات اور شفاف طرزِ حکمرانی کے پیغام پر مرکوز ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، ممدانی کی مہم نوجوانوں، تارکینِ وطن اور اقلیتی برادریوں کے درمیان غیرمعمولی مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ وہ خود کو ’نیویارک کی اصل آواز‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں، ایک ایسی آواز جو طاقت کے ایوانوں سے نہیں بلکہ گلیوں اور محلوں سے ابھری ہے۔
ثقافتی شناخت اور اثراتظہران ممدانی کی شخصیت ان کے متنوع خاندانی پس منظر سے جڑی ہے، ایک طرف ان کے والد افریقہ اور جنوبی ایشیا کے فکری مکالمے کی نمائندگی کرتے ہیں، تو دوسری جانب ان کی والدہ کا فلمی کام دنیا بھر میں انسانی کہانیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ انہی اثرات نے ظہران کو ایک عالمی نقطہ نظر عطا کیا ہے، جہاں شناخت، نسل، مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے جڑے دکھائی دیتے ہیں۔
تنقید اور چیلنجزاگرچہ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ ظہران ممدانی کے نظریات امریکی سیاست کی عملی حقیقتوں سے کچھ زیادہ ہی نظریاتی ہیں، تاہم ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ یہی جراتِ اظہار انہیں منفرد بناتی ہے، وہ ایک ایسا سیاست دان ہے جو مفاد پرستی نہیں بلکہ اصولوں پر سیاست کرتا ہے۔
ظہران ممدانی آج امریکی سیاست میں اس نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو طاقت کے مراکز سے باہر پیدا ہوئی لیکن انہی مراکز کو نئی شکل دینے کا عزم رکھتی ہے۔
نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر میں، جہاں دنیا بھر کے لوگ بستے ہیں، ممدانی کی کہانی دراصل ایک نئی امریکی شناخت کی داستان ہے، ایک ایسی سیاست جو انسان کو مرکز میں رکھتی ہے، طاقت کو نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ظہران ممدانی نیویارک