پی ٹی آئی سیاسی راستے کی تلاش میں
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
تحریک انصاف ایک مشکل وقت سے دوچار ہے اور سیاسی راستے کی تلاش میں ہے۔ایک ہی وقت میں پارٹی کے اندر اور بیرون مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف بانی پی ٹی آئی اور دیگر رہنماؤں کوعدالت سے بھی وہ ریلیف نہیں مل رہا جو وہ چاہتے ہیں ۔
اس وقت وہ عملاً سیاسی میدان سے باہر ہیں، کچھ مفرور ہیں، اور جو باہر ہیں، وہ سیاسی سرگرمیاں کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو قانونی اور انتظامی بنیادوں پر جلسے پرامن رکھنے کی یقین دہانیوں کا سامنا ہے جو ایک مشکل کام ہے۔پی ٹی آئی میں وہ سیاسی دھڑا جو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت یا سیاسی راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا، اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ بانی پی ٹی آئی سمیت ان کی اہلیہ ،بہنوں ، رشتے داروں سمیت ان کی پارٹی کے نظر بند ساتھیوں کو بدستور کوئی بڑی سہولت یا ریلیف نہیں مل سکا ۔
بہرحال یہ حقیقت قومی سیاست اس وقت بھی ان ہی کے گرد گھوم رہی ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے نوجوان سہیل آفریدی کی بطور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا تقرری نے واقعی سب کو پریشان کردیا ہے۔ وہ ابتدا ہی میں جارحانہ انداز اپنائے نظر آئے ہیں اور وہ مزاحمتی بیانیہ اختیار کرکے پی ٹی آئی کے حلقوں میں مقبول ہوئے ہیں ۔ جلسوں، قبائلی عمائدین کے ساتھ امن جرگہ اور صوبائی معاملات پر انھوں نے سخت موقف لیا ہے۔
وہ خیبر پختونخوا میں براہ راست پارٹی ورکرز اور ووٹرز سے جڑے ہیں اور ان کو بنیاد بنا کر بانی پی ٹی آئی کا بیانیہ پیش کررہے ہیں ۔ان کے بقول ان کے تمام تر فیصلے بانی پی ٹی آئی کے فیصلے ہیں اورہوںگے اوران فیصلوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں گے۔بانی پی ٹی آئی بڑی سیاسی تحریک کو ترتیب دے رہے ہیں جس میں اسلام آباد کی طرف ایک بار پھر لانگ مارچ کا اعلان ہے۔امکان ہے کہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی اس کا اعلان صوبے میں انصاف اسٹوڈنٹس فیدڑیشن کے کنونشن میں کریں گے جو نومبر کے تیسرے یا آخری ہفتہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ سہیل آفریدی کی تقرری نے خیبر پختونخوا میں پارٹی گروپ بندی یا اختلافات کو بھی کم کیا ہے ۔
سہیل آفریدی کا لب ولہجہ ظاہر کرتا ہے کہ فوری طور پر حکومت اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کے امکانات کم ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے خلاف بڑا سیاسی ٹکراؤ دیکھنے کو ملے گا۔بانی پی ٹی آئی نے ان دو برسوں میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ جو بھی مفاہمت کے کارڈ بذریعہ پارٹی کھیلے ہیں، ان میں ان کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی ۔اب بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی رہائی یا پارٹی پر جو مشکلات ہیں، وہ سڑکوں پر آئے بغیر ممکن نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب ایک بار پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی بات سامنے آئی ہے اور اس کی کامیابی کے لیے خیبر پختونخواہ یا نئے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی طرف دیکھا جارہا ہے۔لیکن کیا وزیر اعلیٰ اس لانگ مارچ میں سابقہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سے مختلف ثابت ہوسکتے ہیں ؟اور کیا وہ لاکھوں افراد کو اسلام آباد کی طرف لاسکیں گے ؟سہیل آفریدی کا پہلا بڑا چیلنج ہی بانی پی ٹی آئی کے حق میں مزاحمت کی سیاست کو ابھارنا ہے ، ان کا مستقبل بھی اسی نقطہ سے جڑا ہوا ہے۔
کیا وہ لانگ مارچ کر پائیں گے یا وہ بھی ماضی کے لانگ مارچز جیسے انجام سے دوچار ہوگا۔پی ٹی آئی کا لانگ مارچ کیسے کامیاب ہوگا جب کہ اس کی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی تنظیم سازی بہت ہی کمزور ہے ۔ماضی میں جو لوگ عملا سیاسی تحریک میں شامل ہوئے ان کے ساتھ باہر بیٹھی قیادت نے کیا کیا اور کتنا ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اس پر بھی غور ہونا چاہیے۔اس کا بھی پی ٹی آئی کو جائزہ لینا چاہیے کہ وفاقی حکومت کسی بھی صورت میں ان کو اسلام آباد نہیں آنے دیگی اور اس کے نتیجے میں ریاست اور حکومت کا پی ٹی آئی سے ٹکراؤ ہوگا۔میں یہ بات بار بار لکھتا رہا ہوں کہ مفاہمت کا سیاسی کارڈ اسی صورت میں کامیاب ہوتا ہے جب ہم کھلے ذہن کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کریں، اسی میں سب کا بھلا ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی سہیل آفریدی اسلام آباد وزیر اعلی لانگ مارچ ہیں اور کے ساتھ کی طرف
پڑھیں:
پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
مظفرآباد:پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاسی مفادات حاصل کرنے کی دوڑ میں آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاحال تاخیر کا شکار ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد جموں و کشمیر اسمبلی میں اِن ہاؤس تبدیلی کے معاملے میں پیپلز پارٹی کی ہائی کمان نے تاحال متبادل قائد ایوان کی نامزدگی نہیں کی اور متبادل قائد ایوان کے بغیر تحریک عدم اعتماد جمع ہونے میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔
پیپلز پارٹی عددی برتری کے دعوے کے باوجود ڈیڑھ ہفتے سے اپنی برتری ثابت کرنے میں لیت و لعل کا شکار ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی پر ہی عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ متوقع ہے۔
ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر مسلم لیگ ن کے قبل از وقت انتخابات منعقد کرانے کا مطالبہ بھی تاخیر کی وجہ ہے۔ قبل از وقت انتخابات کی صورت میں اِن ہاؤس تبدیلی سے پیپلز پارٹی کوسیاسی فائدہ نہیں پہنچ پائے گا۔
دوسری جانب آزاد حکومت کا 80 فیصدترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے اور فوری بھرتیوں کے لیے 2 ہزار کے لگ بھگ نوکریاں اور صحت کارڈ جیسے کئی اہم اقدامات نئی حکومت کو سیاسی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
آزاد کشمیر کی موجودہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے اور انتخابات سے 2 ماہ قبل تمام ترقیاتی کام روک کر نوکریوں پر تقرریاں اور تبادلے کا اختیار ختم کر دیا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ مارچ میں انتخابات کے مطالبے پر مصر ہے اور انتخابات سے 2 ماہ قبل جنوری ہی میں نئی حکومت اختیارت سے محروم ہو جائے گی۔ 2 ماہ یعنی دسمبر، جنوری میں پیپلز پارٹی مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل نہیں کر پائے گی۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کااسمبلی کی مدت پوری کرنے پراصرار ڈیڈ لاک کی مبینہ وجہ ہے۔