اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر کیخلاف کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی۔

اسلام آباد ہاٸیکورٹ کے متاثرہ ججوں کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ جس وقت جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کیا گیا اس وقت لاہور ہائیکورٹ میں 33 ججز تعینات تھے۔

منیر ملک کے مطابق سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام ججز کو ٹرانسفر کا موقع دیا گیا یا اتفاقیہ طور پر جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کے لیے چنا گیا، انہوں نے جسٹس سرفراز ڈوگر کے ٹرانسفر کو اتفاقیہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور ٹرانسفر ججوں کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد

جسٹس صلاح الدین پنہور نے منیر ملک سے دریافت کیا کہ آپ کا اعتراض جسٹس سرفراز ڈوگر کے ٹرانسفر پر ہے، جس پر فاضل وکیل بولے؛ جسٹس سرفراز ڈوگر سمیت باقی دونوں ججز کے ٹرانسفرز پر بھی اعتراض ہے، یہ ۔

منیر ملک کا مؤقف تھا کہ ججز ٹرانسفرز کے وقت سینیارٹی کے معاملے پر چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی گئی، چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی کہا کہ ان کے مطابق ٹرانسفر ہونے والے ججز کو سنیارٹی میں سب سے نیچے ہونا چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ کیا چیف جسٹس پاکستان نے یہ رائے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں دی، کیا اس جوڈیشل کمیشن اجلاس کے میٹنگ منٹس میں یہ درج ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ ججز ٹرانسفر کیس میں رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے جواب جمع

اس موقع پر معاون وکیل صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس نے مذکورہ رائے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے علاوہ صحافیوں سے گفتگو میں بھی دی تھی، چیف جسٹس کی اس رائے کے بعد اٹارنی جنرل نے صحافیوں سے گفتگو میں ان کی رائے سے اختلاف کیا تھا۔

جسٹس صلاح الدین پنہورنے دریافت کیا کہ کیا چیف جسٹس پاکستان کی رائے اس بینچ پر لاگو ہوتی ہے، جس پر منیر ملک بولے؛ میں ہرگز نہیں کہہ رہا کہ آپ چیف جسٹس کی رائے کے پابند ہیں، جوڈیشل کمیشن کے سابق رکن اختر حسین نے بھی کمیشن اجلاس میں سینیارٹی سے متعلق اپنا موقف پیش کیا تھا۔

منیر ملک  کے مطابق اختر حسین نے بھی کہا کہ ان کے مطابق ٹرانسفر ہونے والے ججز سینیارٹی میں سب سے نیچے ہوں گے، اختر حسین کے مطابق کمیشن اجلاس میں چیف جسٹس نے ان کے موقف کی تائید کی تھی۔

مزید پڑھیں: ججز تبادلہ کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے اہم سوالات اٹھادیے

منیر ملک نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے 4 سینیئر ججز نے بھی چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ کر ججوں کے ٹرانسفر اور سینیارٹی پر اعتراض عائد کیا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ آپ نے گزشتہ سماعت پر کہا کہ انڈیا میں ججز کی سینیارٹی سینٹرلائزڈ ہے، ایسی صورتحال میں ہمارے پاس سینیارٹی کا اصول طے کرنے کے لیے کیا طریقہ کار ہوگا، میرے خیال میں ججز ٹرانسفرز کے وقت چیف جسٹسز سے سینیارٹی سے متعلق بھی مشاورت کی جانی چاہیے تھی۔

سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت 14 مئی تک ملتوی کردی، درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک آئندہ سماعت پر دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اٹارنی جنرل اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر جسٹس محمد علی مظہر جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سینیارٹی منیر اے ملک وکیل صلاح الدین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل اسلام ا باد ہائیکورٹ جسٹس محمد علی مظہر جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سینیارٹی منیر اے ملک وکیل صلاح الدین جسٹس محمد علی مظہر جسٹس سرفراز ڈوگر جوڈیشل کمیشن باد ہائیکورٹ کمیشن اجلاس منیر اے ملک اسلام ا باد سپریم کورٹ صلاح الدین کے ٹرانسفر کے مطابق منیر ملک چیف جسٹس کے لیے نے بھی

پڑھیں:

حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے: چیف جسٹس

—فائل فوٹو

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے نان نفقہ کی ادائیگی کے خلاف مختلف درخواستیں مسترد کر دیں۔ دوران درخواست چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، ہم یہاں صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نان نفقہ کی ادائیگی سے متعلق شہریوں کی مختلف اپیلوں پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے نان نفقہ کی ادائیگی سے متعلق شہریوں کی مختلف اپیلوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں حقائق کی جانچ سے متعلق معاملات نہیں آنے چاہئیں، حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، ہم یہاں صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ نان نفقہ سے متعلق حقائق کی جانچ فیملی کورٹس نے کرنی ہیں، سپریم کورٹ حقائق کی جانچ سے متعلق مداخلت نہیں کرے گی، ہم سمجھتے ہیں ہائی کورٹ کو بھی حقائق کی جانچ میں نہیں جانا چاہیے۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار علیحدگی کے بعد سے نان نفقہ دینے کو تیار ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ نے 2022ء سے نان نفقہ ادا نہیں کیا، 3 برسوں سے آپ نے اپنے بچوں کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔

جسٹس شفیع صدیقی نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ آپ جو بات کر رہے ہیں اس کے لیے ریکارڈ کا جائزہ لینا پڑے گا، حقائق کی جانچ کا فورم ماتحت عدالت ہے۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ اس مرحلے پر مداخلت نہیں کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • بحریہ ٹاؤن نے جائیدادوں کی نیلامی رکوانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
  • بحریہ ٹاؤن نے پراپرٹی کی نیلامی رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
  • حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں
  • نان نفقہ کو لیکر حقائق کی جانچ فیملی کورٹس نے کرنی ہیں یہ سپریم کورٹ کا کام نہیں. چیف جسٹس
  • بلوچ لاپتہ افراد کے خاندانوں کااحتجاج، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈپٹی کمشنر کواحتجاج ختم کرانے کی ہدایت
  • حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، ہم صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے، چیف جسٹس
  • سندھ کے محکموں میں فوکل پرسنز کا تقرر؛ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے میں ترمیم کردی
  • حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے: چیف جسٹس
  • حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے: چیف جسٹس
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈپٹی کمشنر کو مظاہرین سے مذاکرات کر کے احتجاج ختم کرانے کی ہدایت