معیشت کو مضبوط کرنے کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
رات کے اندھیرے میں بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے جس کے جواب میں پاک فضائیہ نے بھارت کے 5 طیارے تباہ و برباد کرکے رکھ دیے۔ اس طرح کے بھارتی جنگی جنون نے پورے خطے کے امن کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کے فوری اثرات عالمی معیشت پر بھی مرتب ہوئے۔
اس کے بعد سے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس بشمول بھارت کی اسٹاک مارکیٹس کو زبردست مندی کا سامنا کرنا پڑا۔ تیل کی قیمتیں بڑھنے لگیں، سعودی عرب اور ایران کی نظریں اس صورت حال پر مرکوز ہوکر رہ گئیں۔ سرمایہ کاروں کا رویہ انتہائی محتاط ہوکر رہ گیا۔ اگرچہ تیل بھی سستا ہوگا اور اسٹاک مارکیٹس بھی مستحکم ہوکر رہیں گی۔ اب اس تناظر میں پاکستان کو اپنے آپ کو معیشت اور مالیات کے لحاظ سے کس طرح بہتر بنانا ہے۔
اس کے لیے ہم فی الحال اسٹیٹ بینک پاکستان کی اس رپورٹ کو سامنے رکھ لیتے ہیں جس کے مندرجات 6 مئی کو اخبارات کی زینت بن چکے تھے۔ اس میں کئی امید افزا باتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ جی ڈی پی نمو کی شرح 3.
کچھ عرصہ ہوا ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اسے مزید اضافے کے ساتھ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ درآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ 10 ماہ میں پچھلے مالی سال کے مقابلے میں اضافہ نوٹ کیا گیا، لیکن اب اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں اور شاید ہندوستان کے ساتھ کسی بھی ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے درآمدات میں چونکہ دفاعی ساز و سامان کا اضافہ ہوگا لہٰذا درآمدی بل میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی برآمدات میں فوری اضافہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس ضمن میں امریکا مشرق وسطیٰ کے ممالک اور یورپی ممالک میں برآمدات میں اضافے کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ جون 2025 تک ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ذخائر بہت ہی زیادہ کم ہیں، جتنا بھی کم کیا جائے وہ کم اس سے کم ازکم 7 یا 8 گنا زیادہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اب کس طرح سے کرنا ہے اس کے لیے ایک نئی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہوگی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ کنٹرول میں تھا۔ وہ اس طرح کہ اس کی مالیت اپنے سے پہلے والے سال اور اس سے بھی پہلے والے سال کے مقابلے میں کم تھی، لیکن اس مرتبہ اس میں اضافے کے واضح امکانات ہیں، جس پر فوری قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔
اس کے ایک عنصر کے طور پر برآمدات میں اضافہ لازمی ہے حکومت غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگا دے جس میں خوراک کی ایسی درآمدات جن کا نعم البدل ملک میں تیار ہو سکتا ہے، اس پر فوری پابندی عائد کر دی جائے۔ اس کے علاوہ ایکسپورٹرز کو ہر قسم کی سہولیات کے علاوہ انسینٹیو پیکیج دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی سرمایہ کاری میں کمی آ رہی ہے لہٰذا عالمی سرمایہ کاروں کو ایک بار پھر جھجک کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگرچہ اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہے لیکن اس میں مزید بہتری لانے اور تسلسل کے لیے کچھ باتیں ضروری ہیں۔ برآمدات کو کم ازکم دگنا کرنا ہوگا جوکہ اتنا مشکل نہیں ہے لگژری درآمدات میں کمی کے لیے پائیدار پالیسیاں بنانا ہوں گی، ترسیلات زر میں جس طرح سے ماہانہ بنیادوں پر اضافہ ہوا ہے اس کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی مزدوری کرکے اپنی تنخواہیں، ذرایع آمدن کو پاکستان بھجواتے ہیں ایسے تارکین وطن پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات اور دیگر بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے بیرون ملک پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی ہو، اس کے ساتھ بیرون ملک سرمایہ کاروں کی ملک میں انٹری کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جائے اور آیندہ مالی سال کے پہلے ششماہی تک زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو ملک میں لانے کے لیے ملک میں امن و امان کی صورت حال کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاروں کی ضرورت ہے میں اضافہ اضافہ ہو اضافے کے کے ساتھ ملک میں سال کے کے لیے
پڑھیں:
یہ وقت ملک کے دفاعی اداروں کو مضبوط کرنے کا ہے، ملکی وحدت کیلئے ہم ایک ہیں: فضل الرحمان
سربراہ جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے یہ وقت ملک کے دفاعی اداروں کو مضبوط کرنے کا ہے اور ملکی وحدت کیلئے ہم ایک ہیں۔
قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا جے یو آئی نے آج یوم دفاع وطن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے، 11 مئی کو پشاور میں ملین مارچ ہو گا اور 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہو گا، عوام یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ان کا کہنا تھا حکومت نے کہا شہری دفاع کے لیے نوجوان نام لکھوائیں، ہم نے انصار السلام کو شہری دفاع کے لیے ذمہ داری سونپ دی ہے، آج پاکستان کے دفاع میں پہلے مورچے پر جو لڑ رہا ہے وہ دینی مدرسے کا نوجوان ہے۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا موجودہ صورتحال میں سفارتی سرگرمیوں سے متعلق میں مطمئن نہیں ہیں، ہمارا کوئی سفارتی مشن بیرون ملک نہیں، صرف ٹیلی فون پر گفتگو کی گئی، ہمیں چین، سعودی عرب، ایران اور افغانستان کو انگیج کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا غزہ مکمل طور پر ختم ہو چکا، لوگ بے گھر ہیں، یہ وقت ملک کے دفاعی اداروں کو مضبوط کرنے کا ہے، ہم دفاعی اداروں کو مضبوط کریں ان کی پشت پر کھڑے ہوں، ملک کی وحدت کے لیے ہم ایک ہیں، یہ جنگ ہے، جنگ میں پھول نہیں آگ برستی ہے۔انہوں نے کہا کہ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان بھارتی جارحیت کے مقابلے میں محاز پر ہے، بھارت نے مساجد، مدارس اور سویلین علاقوں پر راکٹ داغے، ہمارے بہن بھائی شہید ہوئے، پاکستان کی فوج نے بہادری کے ساتھ، خوبصورت حکمت عملی سے دفاع کیا۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا حکومت یا اسٹیبلشمنبٹ سے نہیں پوچھتا کہ آپ کی کیا حکمت عملی ہے، ملکی مفاد میں آپ کی صف میں کھڑا ہوں،آپ بھی میرے ساتھ صف میں کھڑے ہوں۔ ان کا کہنا تھا لوگ انفرادی طور پر سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا رہے ہیں، وہ جنگ کو مذاق سمجھ رہے ہیں، ان کا فوج کے بارے میں تضحیک آمیز رویہ ہوتا ہے، حکومت کو ان پر پابندی لگانی چاہیے۔