دنیا کی ذمہ داری ہےکہ بھارت کو سمجھائے اس نے کیا غلطی کی ہے، اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
ویب ڈیسک:پاکستان کی جانب سے بھارت کے پے در پے جارحانہ اقدامات کا جواب دیتے ہوئے آپریشن بنیان مرصوص کے آغاز پر نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ نے اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ فتح پاکستان کی ہوگی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ مسلح افواج کی مکمل تیاری تھی، ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے تھے، ہم نے کارروائی دفاعی اقدام کے طورپر کی۔
اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کی ذمہ داری ہےکہ بھارت کو سمجھائے اس نے کیا غلطی کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پچھلے 48 گھنٹوں میں متواتر جھوٹ بولے، بھارت نے چھپ چھپ کر ہم پر میزائل اور ڈورون داغے، بھارت کےلیے یہ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ وہ جوہری طور پر زیادہ طاقتور ہے۔
مری میں ’’پاک فوج زندہ باد ‘‘ ریلی
نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ بھارت اپنا کام کرتاجائے اور ہم انتظار کرتےرہیں۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
امن کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات لازمی ہیں، برطانوی نائب وزیر اعظم
لندن: برطانیہ کے نائب وزیراعظم ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ فوری طور پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا باعث نہیں بنے گا بلکہ یہ اقدام امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔
ڈیوڈ لیمی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگلے دن ہی فلسطینی ریاست وجود میں آ جائے گی۔ ان کے مطابق یہ قدم ایک طویل المدتی امن معاہدے کی جانب پیش رفت ہے۔
یاد رہے کہ برطانیہ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے حل کے لیے عالمی دباؤ بڑھایا جا سکے۔ تاہم نائب وزیراعظم نے واضح کیا کہ اس فیصلے سے فوری طور پر سرحدوں یا حکومتی و عسکری ڈھانچے کا قیام عمل میں نہیں آئے گا۔
ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ یہ اقدام فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت ہے، لیکن امن کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات لازمی ہیں۔ برطانیہ تمام فریقوں کے ساتھ مل کر مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔
فلسطینی حکام نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، جبکہ اسرائیلی حکومت نے اسے "غیر مفید" قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ امن کا واحد راستہ براہِ راست مذاکرات ہیں۔ ماہرین کے مطابق فلسطین کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے اقدامات سفارتی دباؤ تو بڑھا سکتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی کے لیے عملی معاہدوں اور اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب یورپی یونین کے کئی ممالک بھی فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے پر غور کر رہے ہیں۔