’’پاک بھارت کشیدگی: کیا پرامن راستہ اب بھی ممکن ہے‘‘
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
گزشتہ چند ہفتوں سے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت اس نہج پر پہنچ چکے ہیں، جہاں معمولی غلطی کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے شہروں اور فوجی تنصیبات پر میزائلوں کے حملوں اور سفارتی سطح پر سرد مہری پورے جنوبی ایشیا کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل رہی ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے بھارتی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کو باضابطہ خطوط ارسال کیے ہیں۔ ادھر بھارتی میڈیا اور سیاستدان صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کے مطابق: ’’پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ صرف سرحدی جھڑپیں نہیں بلکہ اعتماد کا فقدان ہے۔
دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ کھلے دل سے مکالمہ کریں، ورنہ ایک غلطی بھی ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘ انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد (ISSI) کی حالیہ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے جامع مذاکرات اور عوامی رابطے ناگزیر ہیں۔
دونوں ممالک کو ’پرامن بقائے باہمی‘ کے اصولوں پر واپس آنا ہو گا۔‘‘افسوسناک امر یہ ہے کہ دونوں ممالک کے ٹی وی چینلز، خاص طور پر پرائم ٹائم ٹاک شوز میں حب الوطنی کے نام پر اشتعال انگیزی کو ہوا دی جا رہی ہے۔تاریخی اعتبار سے کشمیر 1947 سے اب تک دونوں ممالک تین بڑی جنگیں اور متعدد سرحدی جھڑپیں لڑ چکے ہیں، جن کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر رہا ہے۔ممکنہ حل صرف ایک ہی ہے کہ فوری جنگ بندی اور ہارٹ لائن رابطے بحال کیے جائیں، ایل او سی پر 2003 کے جنگ بندی معاہدے کی مکمل بحالی ہو۔ اسلام آباد اور دہلی میں مکمل سفارتی نمایندگی کی بحالی اور جامع مذاکرات کا ازسرنو آغازہو اور ’’اعتماد سازی اقدامات‘‘ (CBMs) پر سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جائے کیا جائے۔کشمیر پر بامعنی مکالمہ شروع ہو اور اس دیرینہ مسئلے پر بات چیت میں کشمیری قیادت کی شمولیت، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بنیاد بنایا جائے۔
دونوں ملکوں کے درمیان عوامی و ثقافتی روابط کا فروغ ھو، طلباء، صحافیوں، فلم سازوں، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے تبادلوں کے لیے خصوصی ویزا اسکیمز شروع کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف کے میڈیا ہاؤسز کے درمیان تعاون کا فروغ۔ معاشی تعلقات کی بحالی کے لیے بھی کام کیا جائے، تجارت، پانی، توانائی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے شعبوں میں سنجیدہ باہمی تعاون ہو۔ دونوں ملکوں کے درمیان امن کی بحالی کے لیے لازم ہے کہ میڈیا کا کردار ذمے دارانہ ہو۔ کیونکہ اگر میڈیا جنگ کا ساز بن جائے، تو وہ صحافت نہیں بلکہ پروپیگنڈہ بن جاتی ہے۔ ہمیں ’پیس جرنلزم‘ کو فروغ دینا ہو گا۔
ان سب چیزوں پر عمل درآمد صرف اسی صورت ہو سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے حکمران نیک نیتی سیآگے بڑھنے کا فیصلہ کریں۔ پاکستان اور بھارت کی نوجوان آبادی آج تعلیم، روزگار، امن اور آزادی چاہتی ہے۔ انھیں جنگ، بارود اور لاشیں نہیں چاہئیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر جنگ کے بعد بالآخر مذاکرات ہی ہوتے ہیں، تو کیوں نہ پہلے ہی بات کر لی جائے؟ جنگ صرف تباہی لاتی ہے، جب کہ امن ترقی، خوشحالی اور انسانی وقار کی ضمانت بنتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیاں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ساحر لدھیانوی کی یہ نظم ہم سب کے لیے رہنما ہے۔
’’اے شریف انسانو‘‘
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان کے لیے
پڑھیں:
اللہ نہ کرے ایٹمی جنگ ہو، ایٹمی جنگ کا آپشن دونوں ممالک کے پاس نہیں ہے. خواجہ آصف
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 09 مئی ۔2025 )وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پہلے جہاز آئے تھے پھرڈرونز آئے ہیں، ہم اپنا دفاع کریں گے، ہم اس طرح کی صورتحال مزید برداشت نہیں کریں گے، بھارت پچھلے تین دنوں سے ٹمپریچر بڑھا رہا ہے،اللہ نہ کرے ایٹمی جنگ ہو، ایٹمی جنگ کا آپشن دونوں ممالک کے پاس نہیں ہے، اگلے 24 گھنٹے بہت اہم ہیں،ہمارا سارا فوکس عسکری شعبے کو ٹارگٹ کرنے کا ہے، آبی ذخائر کو ٹارگٹ کیا تو سویلین آبادی کا بہت نقصان ہوگا.(جاری ہے)
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہمارے مشترکہ دوست کشیدگی میں کمی کیلئے کوشش کررہے ہیں، بھارت پچھلے تین دنوں سے ٹمپریچر بڑھا رہا ہے، موجودہ حالات میں دونوں ممالک بند گلی میں جارہے ہیں، ہم بین الاقوامی کمیونٹی کو کہہ رہے کہ پہلگام واقعے کی تحقیقات کریں کہ واردات ہوئی بھی ہے یا نہیں؟ جبکہ انڈیا بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو ملوث کررہا ہے، سعودی عرب، فرانس ، یواے ای کسی سے بھی اس واقعے کی تحقیقات کروا لیں. انہوں نے کہا ہم بھارت کے خلاف کاروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں، بھارت کو کب جواب دیا جائے گا یہ ساری چیزیں قومی سلامتی کمیٹی نے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں دی ہوئی ہیں جوابی کاروائی میں بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے، بھارتی ڈرون سے لاہور کے فضائی دفاع کو کوئی نقصان نہیں پہنچا . خواجہ آصف نے کہا ہم اپنا دفاع کریں گے، ہم اس طرح کی صورتحال مزید برداشت نہیں کریں گے، مودی نے امریکا اور کینیڈا کا امن بھی تباہ کرنے کی کوشش کی وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اللہ نہ کرے کہ ایٹمی جنگ ہو، ایٹمی جنگ کا آپشن دونوں ممالک کے پاس نہیں ہے، میرا نہیں خیال کہ ایٹمی جنگ کا کوئی خطرہ ہے، اگلے 24 گھنٹے بہت اہم ہیں، ہمارا سارا فوکس عسکری شعبے کو ٹارگٹ کرنے کا ہے، آبی ذخائر کو ٹارگٹ کیا تو سویلین آبادی کا بہت نقصان ہوگا، ہم نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک کی سویلین آبادی نقصان اٹھائے.