رانا ثناء اللّٰہ—فائل فوٹو

وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ پانی کے معاملے پر بھارت کو اس بار جیسا ہی جواب دیا جائے گا۔

’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں گفتگو کے دوران رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کی تحقیقات کے بغیر حملہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کہہ دیا تھا، اگر ہماری سالمیت پر حملہ ہوا تو جواب دیں گے، ہمارے جواب کے بعد نریندر مودی نے سیز فائر کی درخواست کی۔

وزیرِ اعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ بھارت کو پانی کے معاملے پر بھی ایسا ہی جواب دیا جائے گا جیسا اس بار دیا گیا۔

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر کا معاملہ تو ہر قیمت پر سامنے رکھا جائے گا، مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر دوبارہ اجاگر ہوا ہے، پہلے تو مودی اس پر بات کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: رانا ثناء الل

پڑھیں:

مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نئی دہلی: بھارت میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کھلی نفرت انگیز تقاریر اور عسکری و مذہبی حلقوں کے باہمی رابطوں نے ایک بار پھر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو زہر آلود کر دیا ہے اور ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں خوف و بے چینی فروغ پا رہی ہے۔

مختلف ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ریکارڈنگز اور بیانات کے مطابق چند متحرک ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جسے انسانی حقوق تنظیموں  اور متعدد سول سوسائٹی گروپس نے اشتعال انگیز اور انتہا پسند قرار دیا ہے۔

ان متنازع بیانات میں بعض رہنماؤں کے ایسے الفاظ شامل ہیں جو اسلام کو ملک یا دنیا سے ختم کرنے کی دھمکیوں کے مترادف سمجھے گئے ہیں، جس نے عام طور پر تحمل اور برداشت کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق یہ رجحان محض چند شرپسند اور انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض سرکاری یا نیم سرکاری عہدیداروں کے اقدامات اور تقاربات سے ان گروپوں کو تقویت ملی ہے۔

اس سلسلے میں فوجی سربراہ کے حالیہ دورے اور بعض مذہبی مقامات کی وردی میں زیارت کو بھی مختلف حلقوں نے تشویش انگیز قرار دیا ہے۔

سیاسی منظرنامے میں یہ کشیدگی اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب اتر پردیش کے ایک بااثر وزیراعلیٰ کے بیانات میں ایسا پیغام ملتا ہے جسے بعض مبصرین سناتن دھرم کو فروغ دیتے ہوئے تنوع اور مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی سمت قدم تصور کر رہے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اقلیتی نمائندوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے بیانات اور مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے فوری کارروائی کریں اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف مؤثر تحقیقات کروائیں۔

قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین و قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت مذہبی آزادی اور اقلیتی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور حکومت کو ایسے تمام اقدامات سے باز رکھنا چاہیے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ملک میں مزید گہرا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں کے بعد 28ویں ترمیم بھی آرہی ہے؛ رانا ثنااللہ کا انکشاف
  • 27ویں کے بعد 28ویں آئینی ترمیم بھی تیار، تعلیم اور بلدیاتی نظام سے متعلق ہوگی: رانا ثناء اللّٰہ
  • 27ویں کے بعد 28ویں ترمیم بھی آرہی ہے، رانا ثناء
  • تربت، رانا ثناء اللہ اور سرفراز بگٹی کی ڈاکٹر مالک بلوچ سے ملاقات۔ آئینی ترمیم کی حمایت کی درخواست
  • ہندوتوا کی آگ اور بھارت کا مستقبل
  • دو تہائی اکثریت موجود، عطا تارڑ: 18ویں ترمیم ختم نہیں کر رہے: رانا ثناء
  • بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز
  • ایشیاکپ ٹرافی کا معاملہ: پاکستان اور بھارت میں برف پگھلنے لگی، اہم شخصیات کی ملاقات ہوگئی،بی سی سی آئی کی تصدیق
  • مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا
  • آئینی عدالت بننی چاہئے، صوبوں کا حصہ بڑھ سکتا، کم نہیں ہو گا بلاول: سب کچھ اتفاق رائے سے کرینگے، رانا ثناء