‘میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا‘، ویرات کوہلی نے ریٹائرمنٹ سے متعلق کیا کہا؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ویرات کوہلی نے ٹیسٹ کرکٹ سے فوری ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے۔ 36 سالہ کوہلی نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب بھارت کا انگلینڈ کا دورہ محض ایک ماہ دور ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر کوہلی نے لکھا کہ ’ٹیسٹ کرکٹ میں ‘بیگی بلیو’ پہن کر میدان میں اُترے آج 14 برس بیت گئے۔ سچ کہوں تو کبھی سوچا نہ تھا کہ یہ سفر مجھے کہاں تک لے جائے گا۔ اس فارمیٹ نے مجھے آزمایا، نکھارا، اور وہ سبق دیے جو ساری زندگی میرے ساتھ رہیں گے۔
مزید پڑھیں: روہت شرما ٹیسٹ فارمیٹ سے ریٹائر، اگلا کپتان کون ہوگا؟
نہوں نے مزید لکھا کہ سفید لباس میں کھیلنے کا ایک الگ ہی جذبہ ہوتا ہے۔ وہ خاموش مشقت، طویل دن، اور وہ چھوٹے چھوٹے لمحے جو کوئی نہیں دیکھتا مگر دل میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اب جب میں اس فارمیٹ سے رخصت ہو رہا ہوں، یہ آسان نہیں ،،،، مگر درست محسوس ہوتا ہے۔ میں نے اسے اپنی پوری جان دی، اور اس نے بدلے میں مجھے میری توقع سے کہیں زیادہ واپس لوٹایا۔
View this post on Instagram
A post shared by Virat Kohli (@virat.
کوہلی نے لکھا کہ میں شکر گزاری سے بھرے دل کے ساتھ رخصت ہو رہا ہوں، اس کھیل کے لیے، اُن ساتھیوں کے لیے جن کے ساتھ میں نے میدان بانٹا، اور اُن تمام لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے سفر کو سراہا اور مجھے پہچان دی۔ میں ہمیشہ اپنے ٹیسٹ کرکٹ کیریئر کو مسکراہٹ کے ساتھ یاد رکھوں گا۔
یاد رہے کہ کوہلی نے 111 ٹیسٹ میچز میں 9230 رنز بنائے، جس میں ان کی اوسط 46.8 رہی۔ وہ بھارت کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں، ان سے آگے صرف سچن ٹنڈولکر (15921)، راہول ڈریوڈ (13265) اور سنیل گواسکر (10122) ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت ٹیسٹ کرکٹ راہول ڈریوڈ ریٹائرڈ سچن ٹنڈولکر سنیل گواسکر ورات کوہلیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت ٹیسٹ کرکٹ راہول ڈریوڈ ریٹائرڈ سچن ٹنڈولکر سنیل گواسکر ورات کوہلی ٹیسٹ کرکٹ کوہلی نے کے لیے
پڑھیں:
’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 ستمبر 2025ء ) رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے معاملے پر رائے دینے پر تنقید کی زد میں آگئے۔ تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ پہلے جج صاحبان پر پی سی او کے حلف یافتہ ہونے کی پھبتی کسی جاتی تھی کہ انہوں نے آئین کو پس پشت ڈال کر آمروں کی وفاداری کا حلف اٹھایا، پھر 2007ء میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے اور عدلیہ کے زوال کا ایک نیا دور شروع ہوا، انہوں نے خود پی سی او حلف یافتہ حج ہونے کے باوجود دوسرے پی سی او حلف یافتہ جج صاحبان کو منصب سے فارغ کردیا، اس کے بعد بیرسٹر اعتزاز احسن کے مطابق متکبر جوں اور متشدد وکلاء کا دور شروع ہوا اور آئین کو آمر کے بجائے اپنی خواہشات اور انا کے تابع کر دیا۔(جاری ہے)
ان کا کہنا ہے کہ جج صاحبان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، اعجاز الاحسن، عظمت سعید شیخ، مظاہر نقوی اور منیب اختر وغیرہ نے وہ حشر بپا کیا کہ الامان والحفیظ! مارچ 2009ء میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ کے تنزیل و انتشار کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا، بعض حجج صاحبان نے ایسے فیصلے دیئے جو آئین کو ازسر نو لکھنے کے مترادف ہیں، عدم اعتماد کی بابت پہلے فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کے حکم کی پابندی اُس جماعت کے ارکان پر لازم ہوگی پھر جب مصلحت بدل گئی تو فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کی نہیں بلکہ پارلیمانی لیڈر کے حکم کی تعمیل لازم ہوگی۔ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ اب جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے جعلی ہونے کا مسئلہ ہے، آئین پسندی، نیز دینی منصبی اور اخلاقی حمیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر محاسبے کے لیے پیش کر دیتے اور خود چیف جسٹس کو لکھتے کہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر کے میرے کیس کا فیصلہ صادر کیجیے اور اپنی ڈگری کی اصلیت کو ثابت کر کے سرخرو ہوتے کیونکہ ” آن را که حساب پاک است از محاسبه چه باک‘ یعنی جس کا حساب درست ہے اُسے خود کو محاسبے کے لیے پیش کرنے میں کس بات کا ڈر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہچکچاہٹ بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ شاید پوری دال ہی کالی ہے، جعل سازی کو حرمت عدالت کے غلاف میں لپیٹا نہیں جاسکتا، نیز اصول پسندی اور آئین پابندی کا تقاضا ہے کہ اس کی بابت اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُن کے ہم خیال بقیہ چارج صاحبان کا مؤقف بھی آنا چاہیئے، جوڈیشل کمیشن کا ایسے مسائل کو طویل عرصے تک پس پشت ڈالنا بھی عدل کے منافی ہے، جیسے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا معاملہ اب تک التوا میں ہے۔ مفتی منیب الرحمان کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے کورٹ رپورٹر مریم نواز خان نے لکھا کہ چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے، سب بولو سبحان اللہ!چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے!
سب بولو سبحان اللہ! https://t.co/U41JkKAZL6
مفتی منیب آخری عمر میں منیب فاروق کیوں بن گئے ہیں؟
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) September 17, 2025 ایک ایکس صارف انس گوندل نے سوال کیا کہ مفتی منیب الرحمان کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟مفتی منیب الرحمن کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟
— Anas Gondal (@AnasGondal19) September 17, 2025 صحافی طارق متین نے استفسار کیا کہ مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں۔مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں
— Tariq Mateen (@tariqmateen) September 17, 2025