ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر، آج سعودی عرب پہنچے
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مئی 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ اس تین روزہ دورے کے دوران سعودی عرب کے بعد وہ قطر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) بھی جائیں گے۔ تاہم اس دورے کے دوران ان کا اسرائیل جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
ٹرمپ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زائد کا اسلحہ پیکج دینے کو تیار
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کی ''مشرق وسطیٰ میں یہ تاریخی واپسی‘‘ ہے، جو ان کے دوسرے دور صدارت کا پہلا سرکاری دورہ ہے، جس دوران وہ ''تعلقات کو مضبوط بنانے‘‘ پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔
صدر ٹرمپ خلیج کے خطے میں کاروباری اور سفارتی شراکت داروں سے ملاقاتیں کریں گے اور ساتھ ہی خطے میں امریکی تجارتی تعلقات کو بھی مزید گہرا کریں گے۔
(جاری ہے)
وائٹ ہاوس کے بیان کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ دورہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔
اس دورے کے دوران غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے کے مستقبل کا سوال بھی ممکنہ طور پر سامنے آئے گا۔
ٹرمپ نے ''مشرق وسطیٰ کا رویرا‘‘ بنانے کے لیے اس علاقے کی آبادی کو کہیں اور منتقل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ اس کے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کے بارے میں جاری بات چیت بھی ٹرمپ کی امریکی شراکت داروں کے ساتھ مکالمت کے ایجنڈے میں شامل ہو گی۔جرمن چانسلر نے ٹرمپ کا غزہ منصوبہ ’مکمل طور پر مسترد‘ کر دیا
اگرچہ صدر ٹرمپ غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کو فوری طور پر ختم کرانے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم حماس نے ان کی خطے میں آمد سے قبل جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیر کے روز اسرائیلی نژاد امریکی فوجی ایڈن الیگزینڈر کو 19 ماہ تک قید میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا تھا۔
ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے سے وابستہ امیدیںامریکی صدر کا تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا۔
ٹرمپ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے امریکی ہتھیاروں اور مصنوعی ذہانت کی صنعت میں ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی امید کر رہے ہیں۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے اہداف میں سے ایک اسرائیلی سعودی تعلقات کو معمول پر لانا فی الحال دور دکھائی دیتا ہے۔
ابراہیمی معاہدے، جو ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت میں کروائے تھے، عرب ریاستوں کے ذریعے اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کی کوشش کی تھی، جن میں سے کچھ ممالک پہلے ہی یہ اقدام کر چکے ہیں۔
تاہم سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس مسئلے پر کسی بھی پیش رفت کے لیے غزہ پٹی میں جنگ کا خاتمہ اور ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قابل اعتبار راستہ پیشگی شرائط ہیں۔
سعودی عرب کے عملی حکمران، ولی عہد محمد بن سلمان سات اکتوبر 2023ء کے مسلح حملے سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب تھے۔
اس دن اسرائیل پر حماس کے حملوں کو بڑے پیمانے پر اس معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے اس دورے سے امریکہ چین کے سعودی عرب میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی امید بھی رکھتا ہے۔
امارات کے ساتھ 1.4 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کے سودوں کی منظوری
صدر ٹرمپ کے دورے سے قبل امریکی محکمہ خارجہ نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہتھیاروں کے دو سودوں کی منظوری دے دی تھی۔
یہ دوطرفہ سودے، جن میں فوجی طیاروں اور آلات کی فروخت بھی شامل ہیں، تقریباً 1.4 بلین ڈالر مالیت کے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف پولیٹیکل ملٹری افیئرز نے پیر کے روز کہا کہ اس سودے میں چھ چینوک ہیلی کاپٹر اور دیگر آلات بھی شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے، ''متحدہ عرب امارات ان اثاثوں کو تلاش اور بچاؤ، ڈیزاسٹر ریلیف، انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کرے گا۔‘‘
اگر امریکی کانگریس اس سودے کو روکنا چاہے، تو اس کے پاس 30 دن کا وقت ہے۔
متحدہ عرب امارات پر سوڈان میں باغیوں کو مسلح کرنے کا الزام بھی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات پر الزام لگایا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سوڈان کے نیم فوجی گروپ آر ایس ایف کو چینی ہتھیار فراہم کر رہا ہے، جن سے وہاں خانہ جنگی کو ہوا مل رہی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے ایمنسٹی کے دعووں کی سختی سے تردید کی ہے۔
تاہم اقوام متحدہ سمیت کئی اداروﺍں کے ماہرین نے امارات پر گزشتہ ایک سال کے دوران آر ایس ایف کو مسلح کرنے کا الزام لگایا ہے، جو دو سال سے زیادہ عرصے سے سوڈانی فوج کے خلاف لڑ رہی ہے۔
ادارت: مقبول ملک
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے متحدہ عرب امارات تعلقات کو کے دوران ٹرمپ کے کے ساتھ کرنے کی
پڑھیں:
مشرق وسطیٰ میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بے نقاب، خطے کی سائبر سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق
چین اور ایران کی مشترکہ تحقیقات نے بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ سے پردہ اٹھا دیا۔ مشرق وسطیٰ میں جاری بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ خطے کی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔
خلیجی ممالک میں بڑی تعداد میں بھارتی شہری آباد ہیں۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، بحرین اور عمان میں 9 ملین سے زائد بھارتی مقیم ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں مقیم 4.3 ملین بھارتیوں میں بڑی تعداد سافٹ ویئر اور آئی ٹی ماہرین کی شامل ہے۔
اس حوالے سے چین اور ایران کی مشترکہ تحقیقات کے مطابق؛ ’’بیشتر بھارتی پروگرامرز اسٹار لنک کے ذریعے بھارت سے براہ راست رابطے میں سرگرم پائے گئے‘‘۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی سافٹ ویئر انجینئرز نے خلیجی ریاستوں میں ایران مخالف سافٹ ویئر کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔
https://cdn.jwplayer.com/players/6x8hNnAc-jBGrqoj9.html
ذرائع کے مطابق ایران میں استعمال ہونے والے سافٹ ویئر کے ذریعے حساس مقامات کی تفصیلات اسرائیل منتقل ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ مزید یہ کہ ایران میں 8 سے 10 سالہ منصوبہ بندی کے تحت تخریب کاری یونٹس نصب کیے گئے۔
خلیجی ممالک میں مقیم بھارتیوں کے اسرائیل سے گٹھ جوڑ کے باعث پاکستان سمیت خطے کی سائبر سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پہلگام فالس فلیگ کی آڑ میں اسرائیل کی معاونت سے بھارت نے پاکستان پر بھی اسی طرز کی جارحیت کی۔
مودی سرکار پاکستان کو عالمی سطح پر غیر مستحکم کرنے کےلیے بین الاقوامی فورمز کو ہتھیار بنا رہی ہے۔ بھارت پاکستان میں منظم طریقے سے دہشتگردی پھیلا رہا ہے۔
پاکستان میں دہشتگردی کےلیے بھارت کی فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کی سرپرستی کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھی اسی طرز کی سازش کی جا سکتی ہے۔