حکومت نے بڑی تنگ نظری کا مظاہرہ کیا ہے:شبلی فراز
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے پاک بھارت جنگ پر پاکستان کا نقطہ نظر دنیا پر واضح کرنے کیلئے بنائی گئی کمیٹی میں حزب اختلاف سے کوئی رکن لینے پر سخت تنقید کی۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حملے کے بعد پوری قوم پاکستان کے لیے کھڑی ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد پاکستان کا نقظہ نظر عالمی دنیا کو بتانا ہے.
سینیٹر خانزادہ نے دستور کے آرٹیکل 228 کا ترمیمی بل 2025 پیش کیا جسے بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا، سینیٹر افنان اللہ نے امتناع ناشائستہ اشتہارات ترمیمی بل 2025 پیش کیا گیا. یہ بل بھی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔اسی طرح سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے اسلام آباد کیپیٹل ٹریٹری فوڈ سیفٹی ترمیمی بل 2025، سینیٹر ذیشان خانزادہ نے سینیٹ میں دستور کے آرٹیکل 153 کا ترمیمی بل 2025 ، اور سینیٹر ہمایوں مہند نے ذہنی صحت ترمیمی بل 2025 پیش کیا، یہ تمام بل بھی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیے گئے۔
علاوہ ازیں سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے سینیٹ اجلاس میں قومی انتظام برائے قدرتی آفات ترمیمی بل 2025، سینیٹر ہمایوں مہمند نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ترمیمی بل 2025 اور سینیٹر فاروق حامد نائیک نے لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلر ترمیمی بل 2025 پیش کیے جنہیں قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلر ترمیمی بل 2025 پیش کرنے پر کہا کہ اپوزیشن اس بل کی شدید مذمت کرتی ہے، نومبر میں انتخابات ہورہے ہیں، اس اسٹیج پر بل لانا بدنیتی پر مبنی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس بل کا مقصد نوجوانوں وکیلوں کو آؤٹ کرنا ہے۔سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے بھی لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلر ترمیمی بل 2025 پر تنقدی کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل غیر ضروری ہے، اس کو پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں ججز وہ بن جاتے ہیں جنہیں وکالت کرتے ہوئے کیسز نہیں ملتے۔
دریں اثنا سینیٹر شہادت اعوان کی جانب سے پیش کردہ تجارتی تنظیمیں ثانوی ترمیمی بل 2025 متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے اسلام آباد کیپیٹل ٹریٹری امتناع ازدواج کم عمری بل 2025 پیش کیا جس کی جمیعت علمائے اسلام ( ف ) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مخالفت کردی۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پہلے اس بل پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگی جائے، اس بل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ 18 سال سے پہلے بچیوں کی شادی نہیں کرسکتے. ہر دو گھنٹے میں خواتین زچگی کے دوران جاں بحق ہوجاتی ہیں.یہ بہت بڑی تعداد ہے اس مسئلے کو سمجھیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بل پہلے سینیٹ سے منظور ہوچکا تھا، قومی اسمبلی میں جا کر دم توڑ گیا تھا.اس بل کو قائمہ کمیٹی نے منظور کیا ہے۔سینیٹر مولانا عطاء الرحمٰن نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی اس بل کی مخالفت کرتی ہے اور ایوان سے واک آؤٹ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں بل منظور ہونے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگی جائے. جس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اس بل پر ایوان میں بحث و مباحثہ کرا لیتے ہیں۔امتناع ازدواج کم عمری بل پر سینیٹ میں بحث جاری ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے بھی بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھجوانے کی حمایت کردی۔پی ٹی آئی سینیٹر دوست محمد نے کہا کہ ہمیں یورپی ملک نہ بنایا جائے. بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جائے اس کی رائے کے مطابق بل پر فیصلہ کریں۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل سینیٹر کامران مرتضی قائمہ کمیٹی کے سپرد ہے انہوں نے کہا کہ ترمیمی بل 2025 پیش کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینیٹ بل 2025 پیش کیا شبلی فراز نے کہ اپوزیشن بار کونسل کمیٹی میں کہ حکومت
پڑھیں:
وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کیجانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں موجود بڑے آئینی نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور حکومت کی جانب سے کلکٹرس و سرکاری افسران کے ذریعے وقف املاک میں بے جا تصرف کی کوششوں پر قدغن لگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمان عدالت کی جانب سے دی گئی اس عبوری راحت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں خاص طور پر وقف املاک میں انتظامیہ کی بے جا مداخلت کے خلاف تحفظ اور واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان رہنے کی ناقابل فہم شرائط کی معطلی ایک مناسب اقدام ہے تاہم اس سب کے باوجود ہمارے کئی اہم خدشات اور تحفظات اب بھی باقی ہیں، خاص طور پر وقف بائے یوزر سے متعلق عبوری فیصلہ کافی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت اعظمی وقف بائے یوزر پر دیے گئے موجودہ عبوری موقف پر ازسرنو غور کرے گی اور اپنے حتمی فیصلہ میں وقف بائے یوزر کو پوری طریقہ سے بحال کرے گی، مکمل انصاف کے حصول تک ہم اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ عدالت نے کلکٹرز اور نامزد افسران کو دیے گئے وہ وسیع اختیارات ختم کر دیے ہیں جن کے تحت وہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی وقف املاک کو سرکاری زمین قرار دے سکتے تھے، یہ فیصلہ ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ ترمیمی ایکٹ انتظامیہ کو وہ اختیارات دیتا ہے جو عدلیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور یہ آئین کے بنیادی اصول، یعنی اختیارات کی علیحدگی، کی خلاف ورزی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کی جانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح واقف کے لئے پانچ سال تک بس عمل مسلمان رہنے کی شرط کی معطلی بھی عدالت کی جانب سے ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ہم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ شرط امتیازی،ناقابل فہم اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس شق کے حوالے سے عدلیہ کی مداخلت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے غیر آئینی قوانین، عدالتی جانچ کی کسوٹی پر پورے نہیں اُتر سکتے، ہمیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ کئی اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں، سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ وقف بایو کی شق کا خاتمہ اب بھی ہزاروں تاریخی مساجد، قبرستانوں اور عیدگاہوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جو اوقاف صدیوں سے بغیر رسمی دستاویزات کے قائم اور برقرار ہیں، ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں تمام مذاہب کے بے شمار مذہبی ادارے بغیر دستاویزات کے برسوں سے موجود ہیں، وقف بائے یوزر کا اصول بہت ضروری ہے، ہمیں امید ہے کہ عدالت ہمارے اس موقف کو اپنے حتمی فیصلے میں تسلیم کرے گی۔