مذاکرات امن و استحکام کا واحد راستہ ہے، میرواعظ عمر فاروق
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
حریت کانفرنس کے چیئرمین نے کہا کہ شہیدِ ملت کی عوامی خدمت کا بے لوث ورثہ آج بھی لوگوں کیلئے مشعلِ راہ ہے جو ہر آزمائش میں انکو حوصلہ دیتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مولوی محمد فاروق کو آج انکی 35ویں برسی پر خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے اور مرحوم کی گراں قدر سیاسی، سماجی، دینی اور ملی خدمات کو یاد کیا جارہا ہے۔ ایسے میں میرواعظ کشمیر عمر فاروق نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں مرحوم مولوی محمد فاروق اور عبدالغنی لون کو یاد کرتے ہوئے جذباتی انداز میں لکھا ہے کہ 21 مئی ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے اور دردناک یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ میرواعظ مولوی محمد فاروق کو آج ہی کے دن بندوق برداروں نے ہم سے چھین لیا تھا، ان کے سوگواروں پر گولیاں برسائی گئیں جن میں 70 افراد شہید ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی 35 برس گزرنے کے باوجود ان کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلا شدت سے محسوس ہوتا ہے، ان کی رہنمائی کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہیدِ ملت کی عوامی خدمت کا بے لوث ورثہ آج بھی لوگوں کے لئے مشعلِ راہ ہے جو ہر آزمائش میں ان کو حوصلہ دیتا ہے۔ میرواعظ عمر فاروق نے اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا کہ حسب توقع انہیں ایک بار پھر حکام کی جانب سے عیدگاہ سرینگر میں واقع شہداء کے قبرستان جانے سے روکا گیا، جہاں ہم شہیدِ ملت اور اپنے عزیز شہیدِ حریت خواجہ عبدالغنی لون جو آج ہی کے دن 23 برس قبل شہید ہوئے اور شہدائے کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان دونوں رہنماؤں کے سیاسی وژن اور مسئلہ کشمیر کے پرامن مذاکرات کے ذریعہ حل پر یقین کو آج دنیا ایک بار پھر خطے میں امن و استحکام کے واحد راستے کے طور پر تسلیم کر رہی ہے۔ ان دونوں قائدین کی سیاسی بصیرت ان کا مکالمے کے ذریعہ مسئلہ کشمیر کے حل پر یقین جسے انہوں نے جموں و کشمیر کے عوام کے لئے غیر یقینی صورتحال کے خاتمے اور پورے خطے میں امن کے قیام کا ذریعہ سمجھا۔ آج دنیا اسے ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ قرار دے رہی ہے، امید ہے کہ بھارت اور پاکستان اس آواز پر کان دھریں گے۔ میرواعظ عمر فاروق نے اس دوران مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کہا کہ مذاکرات امن و استحکام کا واحد راستہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عمر فاروق نے کہا کہ انہوں نے کشمیر کے
پڑھیں:
حسینؓ کا راستہ یا یزید کا؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کربلا کوئی قصۂ پارینہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور تازہ پیغام ہے جو ہر دور کے باطل کے سامنے سر بلند ہو کر حق کی صدا بلند کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ معرکہ صرف نیزوں، تلواروں اور خیموں کا نہیں تھا بلکہ اصول و حق اور باطل کے درمیان وہ جنگ تھی جو قیامت تک انسانیت کو راہ دکھاتی رہے گی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق امام حسینؓ کی شہادت محض ایک شخص کا نذرانۂ جاں نہ تھی بلکہ ایک گمراہ نظام کے خلاف بغاوت تھی۔ ایسا نظام جو خلافت کے لبادے میں ملوکیت بیچتا تھا، عدل کے نام پر ظلم کرتا اور اسلام کے نام پر فریب پھیلاتا رہا تھا۔ آج ہم بھی ایک ویسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک جانب ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف شخصی آمریت، مورثی سیاست اور مذہبی ملمع کاری ہے۔ وہی پرانے یزیدی چہرے اب نئی پگڑیوں کے نیچے اور وردیوں کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کیا امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار محض اقتدار کی جنگ کے لیے کیا تھا؟ ہرگز نہیں! ان کا پیغام واضح تھا جہاں دین کو دنیا کا کاروبار بنا دیا جائے وہاں خاموشی بذاتِ خود جرم بن جاتی ہے۔ آج کے پاکستان میں بھی کیا ہم کسی اور کربلا کا مشاہدہ نہیں کر رہے؟ کیا اسلام کو محض نعرے، ’’اسلامی ٹچ‘‘ اور رمضان ٹرانسمیشن کے مولویوں تک محدود نہیں کر دیا گیا؟ کیا سیاست خدمت کے بجائے موروثی تاج پوشی نہیں بن چکی ہے؟ سوائے جماعت اسلامی کے، کیا دیگر تمام بڑی مذہبی جماعتیں اقتدار کی موروثی نرسریاں نہیں بن چکیں؟ اسی المیے کو اقبالؒ نے یوں لکھا تھا:
’’صوفی و مْلّا مْلوکیّت کے بندے ہیں تمام‘‘۔ یہ ایک اہم سوال ہے جو کہ ہماری قوم کو جمہوریت کے علمبرداروں سے پوچھنا چاہیے کہ جناب عالی! آپ کی جماعتیں تو اپنے اندر جمہوریت نہیں لا سکتیں، وہ قوم میں جمہوریت کیسے نافذ کریں گی؟ جو اپنے حلقے میں مشورے کی روایت کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ امت کی رہنمائی کا حق کیسے رکھتی ہیں؟
دکھ تو یہ ہے کہ حسینیت کا پیغام صرف نوحوں اور جلوسوں تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ تو ظلم کے خلاف عملی جہاد کا نام ہے صرف یاد نہیں زندہ لائحہ عمل ہے۔ اگر ہمیں واقعی ملوکیت اور وراثتی بادشاہت کی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں امام حسینؓ کے اسوہ کو اپنا رہنما بنانا ہوگا وہ اسوہ جو خلافت کو عدل، مشورہ اور احتساب کا نظام سمجھتا ہے نہ کہ اقتدار کی وراثت یا بادشاہی کی توسیع۔ حسینؓ نے دکھایا کہ اصل اسلامی سیاست اصولوں کی پاسداری کا نام ہے چاہے اس کی قیمت سر کٹوانا ہی کیوں نہ ہو۔ سید مودودیؒ نے کیا خوب کہا تھا: ’’یزید اگر خلیفہ بن سکتا ہے تو خلافت اور ملوکیت میں پھر کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اور اگر حسینؓ خاموش رہتے تو اسلام کے نام پر ظلم کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل جاتا‘‘۔
تاریخ ایک بار پھر ہمیں اسی دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں ہمیں عزم کرنا ہے کہ ہم حق کا ساتھ دیں، چاہے اس کی قیمت اپنی جان ہی کیوں نہ ہو، ہم کوفیوں جیسی خاموش اختیار کرکے باطل کے جرائم میں سہولت کار نہیں بنے گے۔
آج وقت ہے بصیرت کی آنکھ کھولنے کا، سچ اور فریب میں فرق کرنے کا۔ پہچاننے کا کہ کون ہیں وہ جو دین کا جامہ پہن کر، اقتدار کی غلام گردشوں میں یزیدیت کی نحوست بکھیر رہے ہیں؟ اور کون ہیں وہ جو فکرِ حسینی کے سچے پیروکار بن کر، ملوکیت کے ایوانوں سے ٹکرا رہے ہیں؟ وہی جو اقتدار کو امانت سمجھتے ہیں، وراثت نہیں۔ جو شورائیت، شراکت اور احتساب کو ترجیح دیتے ہیں، چاپلوسی اور خوشامد کو نہیں جو اہلیت کو معیار بناتے ہیں، خاندانی نسبت کو نہیں اور وہ جو وقت کے یزیدیوں کے سامنے بے خوف و خطر سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں۔ یہی وہ سچے رہنما ہیں جو عالمی اسلامی تحریکوں کا وقار اور امتِ مسلمہ کی امید ہیں وہ جو خلافتِ راشدہ کے فکری وارث اور عدل و شراکت پر مبنی اسلامی نظام کے اصل ترجمان ہیں۔ مگر افسوس! آج یہی صاحبانِ کردار ظلم کی تاریکیوں میں گھرے ہوئے ہیں، اقتدار سے محروم اور یزیدی ذہنیتوں کے کینے کا نشانہ ہیں۔ گویا یزید آج بھی زندہ ہے تخت و تاج کے ساتھ، اور حسینؓ کا قافلہ آج بھی مظلوم ہے مگر سچ کے ساتھ۔
اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کیا ہم صرف زبان سے ’’لبیک یا حسینؓ‘‘ کہتے رہیں گے، یا کردار و عمل سے حسینیت کا علم بلند کریں گے؟ کیا ہم یونہی فرقہ پرستی، مفاد پرستی اور فرقہ واریت کے نام پر دین کی تجارت کرنے والوں کے فریب میں آتے رہیں گے؟ یا اب وہ گھڑی آ گئی ہے جب ہم اس قیادت کو پہچانیں جو عدل، دیانت اور شورائیت کی بنیاد پر اٹھتی ہے، نہ کہ فرقہ واریت خاندانی وراثت اور اندھی تقلید پر۔ کیونکہ اصل حسینیت یہی ہے ظلم کے سامنے ڈٹ جانا، خواہ کربلا ہی کیوں نہ بچھ جائے۔
’’غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسماعیلؑ‘‘