واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے دو ملازم فائرنگ میں ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مئی 2025ء) امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں بدھ کی رات کو ’کیپیٹل جیوئش میوزیم‘ کے باہر دو افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، جن میں ایک اسرائیلی سفارتکار بھی شامل ہے۔
واشنگٹن میں میٹروپولیٹن پولیس کی سربراہ پامیلا اسمتھ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ دونوں ہلاک شدگان، جن میں سے ایک مرد تھا اور دوسری ایک خاتون، میوزیم میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کے بعد باہر نکل رہے تھے کہ ایک 30 سالہ مشتبہ شخص نے چار افراد کے ایک گروپ کے پاس پہنچ کر فائرنگ کر دی۔
پامیلا اسمتھ نے بتایا کہ فائرنگ کے بعد موقع پر موجود سکیورٹی حکام نے مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب اسے حراست میں لیا گیا، تو مشتبہ حملہ آور نے نعرہ لگانا شروع کر دیا: ’’فلسطین کو آزاد کرو۔
(جاری ہے)
‘‘
آؤشوٹس کی موت کی چمنی، سفید دھواں اور سرخ آسمان
یہودیوں کو نقصان پہنچانا سرخ لکیر کو عبور کرنا ہےاسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے اس واقعے پر اپنے رد عمل میں کہا کہ واشنگٹن کے مناظر نے ان کا دل دہلا دیا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، ’’یہ نفرت اور سامیت دشمنی کا ایک قابل نفرت عمل ہے، جس نے اسرائیلی سفارت خانے کے دو نوجوان ملازمین کی جانیں لے لی ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’ہم واشنگٹن ڈی سی اور پورے امریکہ میں یہودی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل، ہمارے لوگوں اور ہماری مشترکہ اقدار کے دفاع میں، متحد رہیں گے۔
دہشت گردی اور نفرت ہمیں نہیں توڑ سکے گی۔‘‘اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے اس حملے کے بارے میں کہا کہ یہ ہلاکت خیز فائرنگ ’’سامیت مخالف دہشت گردی کی ایک گھٹیا حرکت ہے۔‘‘
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ’’یہودی برادری کو نقصان پہنچانا ایک سرخ لکیر عبور کرنے کے مانند ہے۔
‘‘جرمنی میں گزشتہ برس اسلام مخالف جرائم کی تعداد دگنی، رپورٹ
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں یقین ہے کہ امریکی حکام اس مجرمانہ فعل کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔ اسرائیل اپنے شہریوں اور نمائندوں کے تحفظ کے لیے پوری دنیا میں ہر جگہ پرعزم طور پر کارروائی کرتا رہے گا۔‘‘
امریکہ کا ذمہ داروں کو سزا دینے کا عزمامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان ہلاکتوں کی مذمت کی اور کہا، ’’یہ خوفناک ہلاکتیں، جو ظاہر ہے کہ سامیت دشمنی پر مبنی ہیں، اب ختم ہو جانا چاہییں۔
امریکہ میں نفرت اور بنیاد پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایکس پر لکھا کہ حکام ہلاکت خیز فائرنگ کے ذمہ داروں کا سراغ لگائیں گے۔ ’’یہ بزدلانہ، سامیت دشمنی پر مبنی تشدد کا ایک ڈھٹائی والا کام ہے۔ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، ہم ذمہ داروں کا سراغ لگا کر انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔
‘‘اسلاموفوبیا اور نسل پرستی: برطانوی سیاست دان کی پارلیمانی پارٹی کی رکنیت معطل
امریکی اٹارنی جنرل پامیلا بونڈی نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: ’’میں واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل جیوئش میوزیم کے باہر خوفناک فائرنگ کے منظر کے پاس ہی موجود ہوں۔ اس کے بارے میں ہم مزید معلومات کے لیے کام کر رہے ہیں اور میں تشدد سے متاثرہ افراد کے لیے دعا گو ہوں۔‘‘
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے کہا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کو اس فائرنگ کے بارے میں بریفنگ دے دی گئی ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا: ’’ہم اس کا جواب دینے اور مزید معلومات کے لیے (میٹروپولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ) کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘‘
ادارت: مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فائرنگ کے انہوں نے ایکس پر کے لیے نے ایک
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔