غزہ میں قحط، مغربی تہذیب کی سفاکیت
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل امدادی عمل کو دانستہ سیاسی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کیا جا سکے، انکی آبادی کو منتشر کیا جا سکے اور ایک زندہ، مزاحمت کرتی قوم کو بھوک، موت اور تباہی کی سرحد پر لا کھڑا کیا جائے۔ یہ ساری صورتحال مغربی دنیا کی حکومتیں خاموشی سے دیکھ رہی ہیں اور کوئی بھی عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ مغربی تہذیب ان حکومتوں کو اجازت نہیں دیتی، اس لئے اس تہذیب کو سفاک تہذیب کہا گیا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
غزہ کی پٹی اور اس کے لاکھوں محصورین اس وقت شدید کرب کی صورتحال میں مبتلا ہیں۔ غزہ جو پہلے ہی گذشتہ انیس ماہ میں امریکی اور اسرائیلی گولہ بارود کی زد میں ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے اور اب گذشتہ دو ماہ سے غزہ میں بھوک اور پیاس کی شدت سے اموات ہو رہی ہیں۔ یعنی غزہ میں بدترین قحط پڑ چکا ہے۔ یہ قحط مغربی تہذیب کی سفاکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکی اور اسرائیلی غاصب حکومت کے مشترکہ منصوبہ کے تحت غزہ میں آنے والی امداد کو روک دیا گیا ہے، تاکہ لوگ بھوک اور پیاس کی شدت سے مارے جائیں اور دبائو کے باعث غزہ کے علاقہ کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر کھلم کھلا ڈھٹائی اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ کے لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ مشکلات میں ہیں۔ ہم ان کو روٹی اور پانی دینا چاہتے ہیں، لیکن وہ حماس سے الگ ہو جائیں اور غزہ سے نکل جائیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کا عرب حکمرانوں کے سامنے یہ بیان دراصل مغربی حکومتوں کے اصل مکروہ چہرہ کو عیاں کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ عرب حکمرانوں کی بے شرمی اور بے غیرتی پر دلیل بھی تھا۔ اسی طرح ٹرمپ کا یہ بیاں واضح طور پر مغربی دنیا کی سفاک تہذیب کی عکاسی کر رہا تھا کہ ہم کس طرح غزہ کے لوگوں کو بھوک اور پیاس سے مارنا چاہتے ہیں۔ چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنے سفاک چہرے پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی اور غزہ کی سرزمین جہاں ہر سانس بھوک، خوف اور محرومی کی گواہی بن چکی ہے، وہاں قابض اسرائیل ایک نیا مکروہ کھیل کھیلنے کا ارادہ کیا۔ دو ماہ سے زائد کی مکمل ناکہ بندی کے بعد اچانک چند درجن امدادی ٹرکوں کی اجازت، انسانیت کے نام پر ایک نئی چال بازی اور دھوکہ ہے۔ ایسا دھوکہ جو بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر قابض ریاست کی مکروہ تصویر کو دنیا کے سامنے صاف کرنا چاہتا ہے۔
غاصب صیہونی ریاست کے اس مکر و فریب کی چال سے متعلق مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے اپنے بیان میں اس سازش کو بے نقاب کیا ہے اور کہا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا نام نہاد انسانی رویہ درحقیقت ایک بے رحم مداخلت ہے، جو نہ صرف امدادی کارروائیوں کو محدود کر رہا ہے، بلکہ غزہ کے باسیوں پر "منظم بھوک” مسلط کرکے ان کی بنیادی انسانی اقدار کو پامال کر رہا ہے۔ غزہ کو بھوک اور قحط سے بچانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر کم سے کم 600 ٹرک امداد کی ضرورت ہے، لیکن غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے امدادی قافلوں کی غزہ آمد پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کچھ روز قبل چند ٹرک چھوڑ کر غاصب صیہونیوں نے اپنے انسانی چہرے کو عیاں کرنے کی جو ناکام کوشش کی، اس سے مزید یہ ثابت ہوا کہ غاصب ریاست اسرائیل غزہ کے لئے امداد نہیں بلکہ غزہ کے لوگوں کو تڑپا تڑپا کر مار دینا چاہتی ہے۔
گذشتہ دنوں کی بات ہے کہ غزہ کی کرم ابو سالم کراسنگ سے داخل ہونے والی امدادی گاڑیوں کی تعداد درجنوں سے آگے نہ بڑھ سکی، جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی زندہ رہنے کی بنیادی ضروریات کے لیے روزانہ کم از کم 600 ٹرک درکار ہیں، لیکن آج بھی سیکڑوں ٹن امدادی سامان، دوائیں، طبی سازوسامان اور غذائی اشیاء اسرائیلی رکاوٹوں کی نذر ہو کر غزہ کی دہلیز پر تباہی سے دوچار ہو رہے ہیں۔ غزہ کو بھوک اور قحط سے نکالنے کے لئے عالمی ادارہ برائے خوراک کی کارکردگی بھی ناقص رہی ہے۔ دوسری طرف اونروا کہ جس کا غزہ میں ایک نظام موجود تھا، اس ادارے کو بھی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے نہیں دے رہی ہے اور اس عالمی ایجنسی کے ادارے کے امدادی کارکنوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس ساری صورتحال میں امریکی صدر ٹرمپ سمیت مغربی و یورپی دنیا کی حکومتیں فقط بیان بازیوں تک ہی محدود ہیں۔ اگر یہ صورتحال کسی اور ملک میں رونما ہوتی تو شاید امریکی اور نیٹو کی فوجیں جا کر وہاں جنگ مسلط کر دیتیں، لیکن غاصب اسرائیل کے لئے تو امریکہ اور یورپی ممالک کی حکومتیں مدد گار ہیں، نیٹو آخر یہاں کس کے لئے کاروائی کرے گی۔؟ چاہے یہاں دو لاکھ لوگ مر جائیں یا پھر بھوک کی وجہ سے غزہ کے بیس لاکھ لوگ بھی مارے جائیں، لیکن یہاں مغربی تہذیب کو نہ تو انسانیت نظر آنے کی ہے اور نہ ہی امن و امان کی بات کی جائے گی۔ کیا امریکی حکومت اس قدر بے بس ہے کہ وہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو لگام نہیں دے سکتی۔؟ ہرگز نہیں بلکہ امریکی حکومت اس قتل عام اور نسل کشی میں برابر کی شریک ہے۔ یہی مغربی دنیا کی سفاک تہذیب ہے، جو دنیا کو انارکی اور تباہی کے دہانے پر پہنچانے کا کردار ادا کر رہی ہے۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا منصوبہ واضح ہے۔ محدود امداد کی آڑ میں مخصوص علاقوں جیسے رفح میں فلسطینیوں کو یکجا کرنا، شمالی اور وسطی غزہ کو انسانی وجود سے خالی کرنا اور ان علاقوں کو تباہ شدہ زمین میں تبدیل کرنا، امداد یہاں ایک انسانی ذمہ داری نہیں بلکہ سیاسی آلہ کار بن چکی ہے۔ غاصب اسرائیلی حکومت یہ سب کچھ امریکی حکومت کی مدد سے انجام دے رہی ہے۔غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا یہ بیان کہ امداد کی اجازت فوجی کارروائی کے لیے ضروری ہے، دراصل اس گھناؤنے منصوبے کا کھلا اعتراف ہے کہ خوراک اور دواوں کو اب غاصب ریاست کے ہاتھوں میں ایک جنگی ہتھیار بن چکی ہے، ایک ایسا ہتھیار جو بچوں، عورتوں، مریضوں اور بزرگوں سب کو یکساں نشانہ بنا رہا ہے۔
مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل امدادی عمل کو دانستہ سیاسی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کیا جا سکے، ان کی آبادی کو منتشر کیا جا سکے اور ایک زندہ، مزاحمت کرتی قوم کو بھوک، موت اور تباہی کی سرحد پر لا کھڑا کیا جائے۔یہ ساری صورتحال مغربی دنیا کی حکومتیں خاموشی سے دیکھ رہی ہیں اور کوئی بھی عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ مغربی تہذیب ان حکومتوں کو اجازت نہیں دیتی، اس لئے اس تہذیب کو سفاک تہذیب کہا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مغربی دنیا کی مغربی تہذیب کی حکومتیں کیا جا سکے کر رہا ہے بھوک اور کی سفاک کو بھوک گیا ہے غزہ کے اور اس غزہ کی کی اور ہے اور رہی ہے کے لئے
پڑھیں:
غزہ پر اسرائیلی بمباری سے مزید 93 فلسطینی شہید، یہودی آبادکاروں کی مسجد جلانے کی کوشش
غزہ / مغربی کنارہ: اسرائیلی افواج نے بدھ کے روز غزہ پر شدید بمباری کرتے ہوئے مزید 93 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، جب کہ یہودی آبادکاروں نے مغربی کنارے کے ایک گاؤں میں حملہ کر کے مسجد کو آگ لگانے کی کوشش کی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی حملے میں جابلیہ میں النضر خاندان کے گھر کو نشانہ بنایا گیا، جہاں 4 افراد موقع پر ہی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔
طبی ذرائع کے مطابق بدھ کی صبح سے غزہ میں جاری بمباری سے شہادتوں کی تعداد 93 ہو چکی ہے۔ وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی جنگ میں اب تک 53,655 افراد شہید اور 1,22,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ تاہم حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق یہ تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے۔
دوسری جانب نابلس کے قریب واقع عقربا گاؤں پر یہودی آبادکاروں نے حملہ کیا، فلسطینیوں کی املاک نذرِ آتش کیں، اور مسجد کو نمازیوں کی موجودگی میں آگ لگانے کی کوشش کی۔ فلسطینی کارکن ایہاب حسن کے مطابق یہ اقدام واضح طور پر ’’زندہ انسانوں کو جلانے کی کوشش‘‘ تھا۔
ادھر اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کے جنین کیمپ کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سفارت کاروں پر ’’خبردار کرنے‘‘ کے لیے فائرنگ بھی کی۔
اسرائیل نے عالمی دباؤ کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ 100 امدادی ٹرک غزہ جانے کی اجازت دی گئی ہے، تاہم اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ امداد نہایت ناکافی ہے اور زمینی حقائق میں کوئی بہتری نہیں آئی۔