(گزشتہ سے پیوستہ)
اسرائیل نے ہمیشہ پاک بھارت کشیدگی کے وقت بھارت کی غیرمشروط حمایت کی۔جیسا کہ پلوامہ حملے کے بعد،اسرائیل نے کھل کر بھارت کا ساتھ دیا۔ اس کے برعکس،روس جیسا تاریخی اتحادی جوسرد جنگ میں بھارت کااہم اتحادی رہا، عمومی طورپر غیرجانبدار رہنے کوترجیح دیتاہے۔ پلوامہ حملہ،کشمیرکی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے وقت روس نے خاموشی اختیار کی لیکن اسرائیل کی حمایت سفارتی سطح سے بڑھ کردفاعی مددتک نظرآتی ہے۔ اسرائیل بھارت کانیا قابلِ اعتماد دفاعی پارٹنربن کرابھراہے،جبکہ روس کاکردار نسبتاًمحدودہوگیا ہے۔ اسرائیل کی یہ پوزیشن واضح طورپرنظریاتی قربت اورمسلم شدت دشمنی میں مشترکہ مؤقف کی عکاس ہے۔
ہربارجب پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے،اسرائیل بھارت کی مددکے لئے پیش پیش ہوتاہے۔بی جے پی کی حکومت کے ادوارمیں، اسرائیل سے تعلقات کھل کر بڑھائے جاتے ہیں کیونکہ دونوں حکومتیں اسلام دشمنی میں یکساں مؤقف رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے پلوامہ،اوڑی جیسے فالس فلیگ آپریشن کی حمایت کے علاوہ کارگل جنگ میں بھارت کامکمل ساتھ دیا اوران سب مواقع پراسرائیل نے بھارت کوجدیدٹیکنالوجی اورانٹیلی جنس فراہم کی۔
بھارت میں بی جے پی اوراسرائیل میں لیکود پارٹی دائیں بازوکی قوم پرست جماعتیں اقتدار میں ہیں،جومذہبی قوم پرستی کوفروغ دیتی ہیں۔ دونوں ممالک میں قومی سلامتی بمقابلہ اسلام پسند دہشت گردی کابیانیہ عام ہے۔دونوں ممالک میں مسلم اقلیتیں ہیں جن کے ساتھ ریاستی رویہ اکثر زیرِتنقید رہاہے۔یہ نظریاتی ہم آہنگی صرف پالیسی نہیں بلکہ بیانیاتی اتحادکی بنیادبن چکی ہے۔بی جے پی اوراسرائیل کی حکمران جماعت میں کئی نظریاتی خاص طورپراسلام اورعرب دنیاکے خلاف نقطہ نظرمیں مماثلتیں ہیں۔دونوں ممالک اسلام کو مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں۔ اسرائیل اوربھارت کی موجودہ قیادت کے بیچ ذاتی تعلقات نے بھی قربت کوبڑھایاہے۔
بی جےپی کی قیادت میں انڈیامیں ہندوتوا (ہندو قوم پرستی)کانظریہ غالب آیاہے،جو مسلمانوں کے خلاف سخت موقف اختیارکرتاہے۔ اسرائیل کا ’’سیکیورٹی اسٹیٹ‘‘ماڈل بی جے پی کو اپیل کرتا ہے۔ مودی حکومت کی طرف مسلم مخالف پالیسیاں، شہریت ترمیم ایکٹ، کشمیرکی خصوصی حیثیت کوختم کرنااور دیگر اقدامات کواسرائیل کی طرف سے نہ صرف خاموش حمایت ملی ہےبلکہ بھارت اورامریکا کےتعلقات کوبہتربنانے کے لئے اسرائیل اور امریکی یہودی لابی نے ایک اہم کرداراداکیاہے۔
بھارت اوراسرائیل کے درمیان سٹریٹجک قربت اوردفاعی تعلقات اب تجارت سے کہیں آگے بڑھ چکےہیں۔بھارت،اسرائیل سےدفاعی سازوسامان خریدنےوالاسب سے بڑاملک ہے۔ اسرائیل نے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیرون، ہاروپ اوردیگر ڈرونز نے بھارت کی فوج کو ہدف شناسی اورنگرانی میں برتری کے لئے فراہم کئے۔ بھارتی نیوی کو مشترکہ طورپرتیار کیا گیا باراک 8اسپائک اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل سسٹم کے ساتھ ساتھ کئی جدید ترین ہتھیاربھی مہیاکئے گئے لیکن یہ الگ بات ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں نہ صرف یہ دونوں ممالک بلکہ اقوام عالم کے بہت ہی تجربہ کاردفاعی تجزیہ نگاربھی پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کودیکھ کرورطہ حیرت میں مبتلاہوگئے اورعالمی میڈیانے بھی اس کا جلی سرخیوں سے اعتراف بھی کیا۔
اسرائیل کےظالمانہ تجربےاورہتھیاروں سے بھارت نےمظلوم کشمیریوں کے خلاف اور آپریشنز میں اضافہ کیالیکن اس کے باوجود کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کودبانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔اسرائیل بھارت کا سب سے بڑا دفاعی پارٹنر ہے اور دونوں ممالک میک ان انڈیا کے تحت کئی میزائل و دفاعی سسٹمز منصوبے مشترکہ طور پرچلا رہے ہیں۔پاکستان نے اسرائیل کے جدید ہاروپ ڈرون کوکامیابی سے تباہ کرکے اس کی ناقابل تسخیرحیثیت کو چیلنج کرکے اپنی ٹیکنالوجی کی سبقت کو منوالیاہے۔پاکستان نے اسرائیلی ساختہ ہاروپ ڈرون کونہ صرف تباہ کیابلکہ الیکٹرانک وارفیئر کے ذریعے اسےجام بھی کیا۔اس کامیابی نے پاکستان کی الیکٹرانک وار فیئر صلاحیتوں کی جہاں زبردست نشاندہی کی ہے وہاں ان کے ہاں اوربھی بہت سے حیران کردینے والی صلاحیتیں بھی موجودہیں۔یہ واقعہ ایک سائبروارفیئرصلاحیت کے اظہارکے طورپرپیش کیاگیا۔تاہم، انڈیا اور اسرائیل اپنی خفت اور بدنامی کے خوف سے نہ تو اس دعوے کی کوئی سرکاری تصدیق کررہے ہیں اور نہ ہی اس کی تردیدلیکن پاکستانی حکام نے عالمی میڈیا کے سامنے ان کے شواہد رکھ دیئے ہیں جس کے بعد ان ملکوں کے دفاعی ماہرین کوچھپنے کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی کہ انہوں نے کس طرح دنیا کے سامنے اپنے ان ہتھیاروں کوناقابل تسخیر ہونے کا دعوی کیاتھا۔یہ واقعہ ایک دفاعی کامیابی کے طورپردنیا کے سامنے آگیاہے اوروہ تمام ممالک جوان ہتھیاروں کی خریداری میں دلچسپی لے رہے تھے، انہوں نے فی الحال ان منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیاہے لیکن حالیہ بیانات سے دکھائی دے رہاہے کہ بھارت اور اسرائیل کی شراکت پراس کاکوئی مستقل اثرنہیں پڑالیکن بھارتی اپوزیشن کی جماعتیں اب مل کرمودی سے اس شکست کاحساب مانگ رہی ہیں۔
بھارت نے یواے ای،سعودی عرب، قطر خاص طورپرخلیج جیسے ممالک کے ساتھ معاشی اور سٹریٹجک تعلقات بہتربنائے ہیں لیکن کشمیرپرعرب لیگ نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔اوآئی سی نے مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پربارہا بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بھارت نے ان تعلقات کوالگ رکھتے ہوئے عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پرقائل کرلیا ہے۔ باوجود اس کے،عرب ممالک بھارت کوایک بڑی منڈی کے طور پردیکھتے ہیں،اسی لئے وہ اس کی اسلام مخالف پالیسیوں کواکثرنظر اندازکرتے ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ عرب ممالک اب بھارت کوایک معاشی ضرورت سمجھتے ہیں،نہ کہ اسلامی اخوت کے تناظرمیں پرکھتے ہیں۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دونوں ممالک اسرائیل کی اسرائیل کے اسرائیل نے بھارت کو بھارت کا بھارت کی بی جے پی کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
قطر اور فلسطین کے ساتھ بنگلہ دیش کا غیر متزلزل اظہار یکجہتی، اسرائیل کو نکیل ڈالنے کا مطالبہ
بنگلہ دیش کے مشیر برائے امورِ خارجہ محمد توحید حسین نے دوحہ میں منعقدہ عرب اسلامی ہنگامی سربراہی اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے قطر پر اسرائیل کے حالیہ حملے کی شدید مذمت کی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کو جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے، وزیراعظم شہباز شریف نے عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تجویز دیدی
محمد توحید حسین نے کہا کہ قطر کی خودمختار سرزمین پر اسرائیل کا بلاجواز اور غیر اعلانیہ حملہ صرف قطر پر نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کی عزت و وقار پر حملہ ہے۔
مشیر خارجہ نے اس اقدام کو اسرائیل کی ایک اور غیرذمہ دارانہ مہم جوئی قرار دیا جو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی انسانی قوانین اور بار بار کی گئی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظرانداز کر رہا ہے۔
اجلاس میں بنگلہ دیش نے تمام او آئی سی رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی اشتعال انگیزی اور جارحیت کو روکنے کے لیے مشترکہ سفارتی، سیاسی اور اقتصادی اقدامات کریں۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں اجتماعی طور پر اسرائیل کو اس کھلی جارحیت کے لیے جوابدہ ٹھہرانا ہوگا اور اس کی غیرقانونی کارروائیوں کا فوری خاتمہ یقینی بنانا ہوگا۔
پیر کو منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس کی صدارت قطر کے امیر، شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کی۔ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل، حسین ابراہیم طحہ اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل، احمد ابو الغیط نے استقبالی کلمات میں تنظیموں کے منشور کی بنیاد پر مسلم امہ کے اجتماعی امن و سلامتی کے تحفظ پر زور دیا۔
مزید پڑھیے: عرب اسلامی ہنگامی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر
اجلاس میں 24 ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت نے شرکت کی جب کہ دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ یا اعلیٰ حکام نے اپنے وفود کی قیادت کی۔
تمام رہنماؤں نے 9 ستمبر 2025 کو قطر پر اسرائیلی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور مسلم ممالک کی سلامتی، خودمختاری اور وقار کے تحفظ کے لیے مکمل حمایت کا اعلان کیا۔
شرکا نے اسرائیل سے غزہ پر قبضے کے خاتمے اور مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنا کر دو ریاستی حل کے تحت آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔
اجلاس میں غزہ کے عوام کے لیے بلا رکاوٹ انسانی امداد اور خوراک کی فراہمی پر بھی زور دیا گیا کیونکہ فلسطینی مرد و خواتین بھوک سے مر رہے ہیں۔
رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی قیادت کو مسلم ممالک کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی اور فلسطین میں نسل کشی کے جرائم پر انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
مزید پڑھیں: موساد قطر میں اسرائیلی حملے کی مخالف اور فیصلے سے ناراض تھی، رپورٹ میں انکشاف
مشیر خارجہ کے ہمراہ اجلاس میں بنگلہ دیش کے ایڈیشنل فارن سیکریٹری ایم فرہادالاسلام، او آئی سی میں بنگلہ دیش کے مستقل نمائندے ایم جے ایچ جابد، اور قطر میں بنگلہ دیش کے سفیر محمد حضرت علی خان نے بھی شرکت کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلامی سربراہی اجلاس او آئی سی بنگلہ دیش بنگلہ دیش کی اسرائیل کی مذمت بنگلہ دیش کے مشیر برائے امورِ خارجہ محمد توحید حسین قطر