اسلام ٹائمز: ایران کے وزیر خارجہ نے نئے علاقائی نظام یا new regional order کا نظریہ پیش کرکے حقیقت میں اس نظام کا متبادل پیش کیا ہے، جسکا تذکرہ ڈونالڈ ٹرمپ نے خلیج فارس کے چند ممالک کے حالیہ دورے کے دوران کیا ہے۔ امریکہ سکیورٹی کی فراہمی کے نام پر خطے میں اپنا تسلط پیدا کرکے دیگر اہداف کے ساتھ اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ اسی تناظر میں رہبر انقلاب آيت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی خبردار کیا ہے کہ امریکہ کا یہ انتظام خطے کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
ایرانی وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی نے اپنے ایک مضمون میں تہران کے مجوزہ "نئے علاقائی نظام" یا new regional order کی چار اہم خصوصیات بیان کی ہیں۔ ایک "نئے علاقائی نظام" کی تجویز دے کر، ایران ملکوں کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے والی ایک علاقائی طاقت کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایران میں تہران ڈائیلاگ فورم کے نام سے ایک عالمی اجلاس منعقد ہوا۔ تہران ڈائيلاگ فورم میں دنیا کے پچاس سے زائد ملکوں کے اعلیٰ حکام، وزراء اور اسی طرح مختلف شعبوں میں سرگرم تنظیموں کے سربراہوں و نمائندوں نیز اقوام متحدہ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اس فورم ميں علاقائی اور عالمی حالات اور خاص طور پر غزہ اور فلسطین کی صورتحال کا خاص طور پر جائزہ لیا گیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے تہران ڈائیلاگ فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے بحران نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ بین الاقوامی نظام کے ارکان کمزور اور ناتواں ہیں اور خطے کی تقدیر علاقے سے باہر کی طاقتوں کے فیصلوں اور اراداے کے تابع نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ہونی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دنیا اس ظلم و جارحیت پر مناسب اور ذمہ دارانہ ردعمل ظاہر نہیں کرسکی۔ تہران ڈائیلاگ فورم کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں عباس عراقچی نے سابقہ علاقائی نظام کے غیر موثر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علاقائی تعاون پر مبنی ایک نیا ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
عباس عراقچی کی نگاہ میں نئے علاقائی نظام کو درج ذیل اصولوں پر استوار ہونا چاہیئے۔
1۔ غیر ملکی انحصار کے بجائے قومی خود مختاری: ایران امریکہ جیسی غیر علاقائی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنا اور علاقائی ممالک کی آزادی کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
2۔ مستقل کمزور اتحادوں کے بجائے جامع تعاون: تہران کا خیال ہے کہ عارضی اور مسابقتی اتحاد پائیدار ہوسکتے ہیں، لہذا مستقل کمزور اتحادوں کی بجائے ممالک کے درمیان جامع تعاون ضروری ہے۔
3۔ سکیورٹی پر انحصار کی بجائے اقتصادی ترقی پر توجہ: سیاست اور ترقی پر مبنی نظریہ ممالک کی مزید ترقی، خوشحالی اور ترقی کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ خطے کو سکیورٹی بنیادوں پر ایک دوسرے کے قریب نہیں لایا جاسکتا۔
4۔ مسلط کردہ فریم ورک کے بجائے اجتماعی سلامتی کا نظام: اجتماعی سلامتی میں خطے کے تمام ممالک کی سلامتی پر غور کیا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ زیادہ باہمی اعتماد کا باعث بنے گا اور اس کے نتیجے میں، ممالک اور خطے کی مزید ترقی اور پیشرفت ہوگی۔
ایران کے وزیر خارجہ نے نئے علاقائی نظام یا new regional order کا نظریہ پیش کرکے حقیقت میں اس نظام کا متبادل پیش کیا ہے، جس کا تذکرہ ڈونالڈ ٹرمپ نے خلیج فارس کے چند ممالک کے حالیہ دورے کے دوران کیا ہے۔ امریکہ سکیورٹی کی فراہمی کے نام پر خطے میں اپنا تسلط پیدا کرکے دیگر اہداف کے ساتھ اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ اسی تناظر میں رہبر انقلاب آيت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی خبردار کیا ہے کہ امریکہ کا یہ انتظام خطے کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نئے علاقائی نظام عباس عراقچی کیا ہے
پڑھیں:
ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و جبر، عیاری مکاری، خود غرضی اور احسان فراموشی سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بے حد احسانات کیے اور انعام و اکرام کی بارش کی مگر انھوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کیا کہ یہ کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے باوجود بھی نافرمان رہے۔
آج کی دنیا میں بھی یہ بدنام ہیں اور کوئی انھیں عزت نہیں دیتا، یہ جس ملک میں بھی رہے اس کی جڑیں کاٹتے رہے۔ یہی کھیل انھوں نے جرمنی میں بھی کھیلا۔
یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران مغربی ممالک کے مخبر بن گئے اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا سبب بنے۔
انھوں نے جرمنی کے ساتھ بھی غداری کی اور جرمنی کو ہرانے کے لیے مغربی ممالک کی خفیہ طرف داری ہی نہیں کی بلکہ جرمنی کی خفیہ معلومات ان تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ہٹلر کو ان کے اس گھناؤنے کردار نے آگ بگولہ کر دیا اور پھر اس نے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ہٹلر نے انھیں جو سزا دی وہ یقینا بہت سخت تھی مگر ان کا جرم بھی تو ایسا سخت تھا جو اس سانحہ کا باعث بنا۔ اس سانحے کو آج ’’ ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک نے جرمنی سے غداری اور مغربی ممالک سے وفاداری کرنے کے صلے میں انعام کے طور پر اس بے وطن قوم کو مشرق وسطیٰ میں بسا دیا۔
یہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی مگر اسے ان کا وطن قرار دے دیا گیا جو آج اسرائیل کہلاتا ہے۔ اس ظالم قوم کو ایک وطن تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ تو پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ نمک حرامی اور احسان فراموشی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔
گوکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے اور مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ انھیں یہاں آباد کرتے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے اسے ترکوں سے چھین لیا تھا لہٰذا انھوں نے اپنی مرضی سے جو کرنا چاہا وہ کیا۔
بہرحال انھوں نے اسرائیل کو قائم کرکے عربوں کے قلب میں خنجر پیوست کر دیا اور انھیں اسرائیل کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بندوبست کر لیا اور ان کی یہ حکمت عملی آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔
امریکا نے اسرائیل کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ تمام ہی عرب ممالک اس سے مرعوب ہیں۔ اسرائیل آئے دن عربوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے مگر وہ اسے جواب دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے۔
ابھی گزشتہ دنوں پورے دو سال تک غزہ اسرائیل خونی حملوں کی زد میں رہا جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی مداخلت کرتا۔ اسرائیل 1967 میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور بعد میں شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔
مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اب وہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو ہڑپ کرکے فلسطینی ریاست کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔
گوکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امریکا بھی مثبت سگنل دے چکا ہے تمام عرب ممالک بھی اس پر متفق ہیں مگر اسرائیل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
گوکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اب رک چکی ہے اور اب قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی قرارداد پاس کر لی ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں سخت گیر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ نیتن یاہو اگرچہ ظاہری طور پر ان سخت گیر ممبران کے خلاف ہے مگر اندرونی طور پر وہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، لگتا ہے اسی کے اشارے پر پہلے سخت گیر عناصر جنگ بندی کو ناکام بناتے رہے اور اب فلسطینی ریاست کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔
ایسے میں ایک سخت گیر یہودی بزلل جو نیتن یاہو حکومت کا وزیر خزانہ ہے نے عربوں کے خلاف ایک سخت بیان دیا ہے۔ بزلل نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب کے ریگستانوں میں اونٹوں پر سواری کرتے رہیں اور ہم سماجی و معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں گے۔
یہ واقعی ایک سخت بیان ہے جس سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہودی ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جب کہ عرب پہلے بھی ریگستانوں میں اونٹوں پر گھومتے پھرتے تھے اور اب بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔
اس بیان پر سعودی عرب ہی نہیں تمام عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ خود اسرائیل میں بھی بزلل کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اپنے وزیر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے چنانچہ بزلل کو سعودی عرب سے معافی مانگنا پڑی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں اس وقت بھارت کی طرح عاقبت نااندیش سخت گیر جنونیوں کی حکومت قائم ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت اسرائیل کے بھارت سے گہرے روابط قائم ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت اسرائیل بھارت کی طرح جنونی قاتلوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جنونی یہودی سعودی عرب کیا کسی مسلم ملک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب اور پسماندہ خیال کر رہے ہیں مگر انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری طاقت اور ترقی امریکا اور مغربی ممالک کی مرہون منت ہے۔
آج وہ جس ملک کے مالک ہیں کیا وہ انھوں نے خود حاصل کیا ہے؟ یہ انھیں مغربی ممالک نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا، ان کی جرمنی سے غداری کے صلے میں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج بھی امریکا کے غلام ہیں وہ کسی وقت بھی ان سے یہ زمین چھین سکتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اور جدید اسلحہ امریکا کا دیا ہوا ہے، اگر وہ ہاتھ کھینچ لے یا اسرائیل کی حفاظت نہ کرے تو یہ ملک کسی وقت بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے، چنانچہ اسرائیلی وزیر مسٹر بزلل کو ہرگز اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیلی ایک آزاد قوم ہیں اور اسرائیل ایک آزاد خود مختار ملک ہے۔