غزہ میں انسانی بحران پر 80 ممالک کے بیان کا حماس کیجانب سے خیرمقدم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
اپنے ایک جاری بیان میں حماس کا کہنا تھا کہ اکتوبر 2023ء سے صیہونی جارحیت کی وجہ سے غزہ میں سنگین انسانی صورتحال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے غزہ کی سنگین صورت حال پر 80 ممالک کے مشترکہ بیان کا خیرمقدم کیا۔ اس حوالے سے حماس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اکتوبر 2023ء سے صیہونی جارحیت کی وجہ سے غزہ میں سنگین انسانی صورت حال ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی قوانین کے مطابق نہتے فلسطینی شہریوں کی انسانی امداد کا مطالبہ کیا۔ حماس نے ان ممالک کے موقف کو غزہ میں فاشسٹ صیہونی رژیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور نسلی تطہیر کے خلاف بڑھتی ہوئی عالمی مخالفت کا ثبوت قرار دیا۔ حماس نے اپنے بیان کے ایک دوسرے حصے میں کہا کہ انسانی امداد سے سیاسی، عسکری یا سیکورٹی فائدہ اٹھانا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے مشترکہ خط پر دستخط کرنے والے ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کو بچانے، فاقہ کشی کی پالیسی اور غزہ کے وحشیانہ محاصرے کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کریں۔ حماس نے دنیا کے تمام ممالک سے کہا کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی رژیم کی مذمت کرتے ہوئے ایسے ٹھوس اور قابل تعزیر اقدامات کریں جس سے وحشیانہ حملوں کا خاتمہ ہو اور ایک جنگی مجرم کے طور پر اسرائیل کے وزیراعظم "نتین یاہو" کو ٹرائل کے بعد سزاء دی جا سکے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد پہلی بار صیہونی طیاروں کا یمن میں بڑا فضائی حملہ
TEL AVIV:اسرائیل نے ایران-اسرائیل جنگ بندی کے بعد یمن میں حوثی شدت پسندوں کے خلاف اپنے پہلے حملے کیے ہیں، جن میں اتوار کی رات سے پیر کی صبح تک حوثی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق ان حملوں میں یمن کی سرخ سمندر کے کنارے واقع اہم بندرگاہوں اور ایک بجلی گھر کو ہدف بنایا گیا۔
اسرائیل کی فوج (IDF) کے مطابق یہ حملے اُس وقت کیے گئے جب حوثی شدت پسندوں نے جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی طرف کم از کم تین بیلسٹک میزائل داغے، جن میں سے ایک کو کامیابی کے ساتھ روک لیا گیا تھا۔
اسرائیل نے حوثیوں کے زیر قبضہ حدیدہ، رش عیسا، صلیف بندرگاہوں اور راس کاناتب پاور پلانٹ کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ، اسرائیل نے گلیکسی لیڈر نامی ایک کارگو جہاز پر بھی حملہ کیا، جسے حوثیوں نے نومبر 2023 میں قبضے میں لے لیا تھا۔
اسرائیل فوج کا کہنا ہے کہ حوثیوں نے اس جہاز پر ریڈار سسٹم نصب کیا تھا، جسے وہ بین الاقوامی سمندری راستوں پر جہازوں کو ٹریک کرنے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں سہولت دینے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
صیہونی فوج کے عربی زبان کے ترجمان آویچائی ادری نے حملوں سے قبل مقامی وقت کے مطابق پورٹس اور بجلی گھر کے لیے انخلاء کی وارننگ جاری کی تھی۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرآئیل کٹز نے ان حملوں کو آپریشن بلیک فلیگ کا حصہ قرار دیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ حوثی اپنے اقدامات کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں گے، اور اگر وہ اسرائیل کی طرف ڈرونز اور بیلسٹک میزائل داغنا جاری رکھتے ہیں تو مزید حملے کیے جائیں گے۔
حوثی فوج نے اسرائیلی حملوں کی تصدیق کی لیکن کہا کہ یمنی فضائی دفاعی نظام نے اسرائیلی جارحیت کا مؤثر مقابلہ کیا اور مقامی طور پر تیار کردہ سطح سے ہوا تک میزائلوں کے ذریعے بھرپور جواب دیا۔
اس حملے میں فوری طور پر کسی جانی نقصان کی رپورٹ نہیں آئی۔ حوثیوں کے سیاسی دفتر کے رکن محمد الفرحا نے کہا کہ یمنی بندرگاہوں، بجلی گھروں اور دیگر شہری سہولتوں کو نشانہ بنانا شہریوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے اور اس کا کسی فوجی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو واشنگٹن روانہ ہو کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل کو لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کی طرف سے مسلسل میزائل اور راکٹ حملوں کا سامنا ہے، جو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر اسرائیل کو نشانہ بناتے ہیں۔