(گزشتہ سے پیوستہ)
مئی کی پاک بھارت جنگ میں امریکانے ابتدامیں’’لاتعلقی‘‘کارویہ اپناتے ہوئے کہا، ’’ہمارا اس سے کوئی لینادینانہیں‘‘۔مگرجیسے ہی اسرائیلی آپریٹڈ ڈرونزنے پاکستان پرحملے کیے، پاکستان نے بھرپورجوابی کارروائی کی۔ پاکستانی شاہینوں نے بھارت اور اسرائیل دونوں کو پیغام دیاکہ جس مقام سےیہ حملے کئےگئے ہیں،وہ ہماری دسترس میں ہیں، اسرائیلی آپریٹر مارے گئے۔ اسرائیل کی معاونت کاپردہ چاک ہوا،امریکی پالیسی میں زلزلہ آگیا۔اسرائیلی ہاروپ ڈرونزاور آپریٹرزکی ہلاکت نے واشنگٹن کویہ احساس دلایاکہ پاکستان کی صلاحیت محض روایتی محاذتک محدودنہیں۔ امریکانے سیزفائرکی دوڑاس لیے لگائی کیونکہ پاکستان کاممکنہ حملہ اسرائیل تک پھیل سکتاتھا۔ واشنگٹن جانتاتھاکہ پاکستان کی میزائل صلاحیت محض بھارت تک محدود نہیں۔امریکاکویہ بھی علم تھاکہ پاکستان اسرائیل پرناقابلِ تصور تباہی مسلط کرسکتاہے چنانچہ ٹرمپ نے فوراسیزفائرکی دوڑدھوپ شروع کی۔
مئی کی جنگ میں اسرائیلی(ہاروپ ڈرون) کابھارت کی مددکوآنا،امریکاکاابتدائی طورپرغیر جانبداری کاڈرامہ،پاکستان کی جوابی کارروائی پرسیزفائرکی بھاگ دوڑیہ ظاہرکرتاہے کہ تہذیبوں کا تصادم محض تصوراتی نہیں،زمینی حقیقت بن چکاہے ۔حالیہ پاک بھارت جنگی محاذمحض پاکستان اور بھارت تک محدودنہیں تھا۔اسرائیلی ڈرونزاور آپریٹرز کامیدانِ کار زار میں شامل ہونااس امرکا ثبوت ہےکہ تہذیبی محاذآرائی اس خطے تک پھیل چکی ہے۔ امریکاکااسرائیل اوربھارت کی حمایت میں دوہر امعیار اس بات کاعکاس ہے کہ امریکا اس محاذمیں محض تماشائی نہیں بلکہ حصہ دارہے۔
حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں امریکاکود پڑا ہے۔فردو،نطنزاوراصفہان کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملےجہاں اس بات کااعلان ہیں کہ جب تک اسرائیل کی سلامتی کاضامن امریکاہے،اسے کوئی گزندتک نہیں پہنچاسکتاگویاتہذیبوں کاتصادم نئے باب میں داخل ہوچکاہے۔ امریکامیں برنی سینڈرزاوردیگرسیاسی رہنمائوں نے اس جارحانہ اقدام کی سخت مذمت کی۔
سینڈرزکاکہناتھاکہ امریکانے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پرحملہ کیا‘‘۔ گویا امریکانے ایران کی جوہری تنصیبات پرحملہ کرکے تہذیبوں کی جنگ کو مزید مہمیزدی ہے۔ امریکا کا ایران کی جوہری تنصیبات پرحملہ محض ایران کی عسکری صلاحیت کومفلوج کرنے کاعمل نہیں تھا ۔ اس کامقصدایران اور امریکا، اسرائیل کی محاذ آرائی کونئے عروج تک پہنچانا تھا۔یہ حملہ اس امر کا عکاس ہے کہ امریکابیک وقت دو محاذوں (روس اورچین)پر عسکری چیلنج کامتحمل نہیں۔اس لیے مشرقِ وسطی میں اسرائیل اور ایران کی محاذ آرائی کواستعمال کرتے ہوئے خطے کاتوازن بگاڑاجا رہاہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اوآئی سی نے ایران کی حمایت کااعلان محض24گھنٹے قبل کیالیکن امریکا نے اس اجلاس کی سیاہی خشک ہونے سے قبل حملہ کرکے اسلامی ممالک کوپیغام دیا کہ تمہاری قراردادوں اوربیانات کی حیثیت صفرہے۔اوآئی سی اجلاس اوراس کے بعدامریکاکاحملہ جہاں مسلم دنیاکی سیاسی کمزوری کاثبوت ہے وہاں ان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کوبھی اپنی اس بے بسی کا علاج سوچنا ہوگاکہ ہم موجودہ حکمرانوں کے تسلط میں کب تک اس قعرمذلت میں اپنی غلامانہ روش پرقائم رہیں گے۔
مسلم امہ کی تزویراتی ناکامی کایہ سب سے زیادہ بزدلانہ فعل ہے کہ وہ محض قراردادوں اور نعروں تک محدودہے۔ایران،پاکستان اور دیگرمسلم ریاستوں کا جغرافیائی،اقتصادی اور عسکری مرکزبننے کاتصورمحض کتابی نعروں تک محدودہوکررہ گیاہے۔ادھرترکی نے اسرائیل کوامن کی راہ کا سب سے بڑاروڑاقراردیا اور اس حملے کو ’’مذاکرات کوسبوتاژکرنے‘‘کی سازش قراردیا۔ یہ حملے ایران اور امریکامذاکرات کوسبوتاژ کرنے کی دانستہ کوشش ہے،حقیقت یہ ہے یہ محض بیانات کادور ہے۔ مسلمانوں کارویہ بے بسی اور مصلحت کا شکار ہے ۔ مجھے آج عالم اسلام کے ایک عظیم مفکرمولانا مودودیؒ کایہ قول بری طرح ستارہاہے کہ جہاں طاقت اوراصول کامعرکہ ہو، وہاں محض گفتارکاحصہ کبھی تاریخ نہیں بن سکتا۔
چین کے لئے مشرق وسطی سستاتیل اورتجارتی راستوں کی ضمانت ہے۔چین،تجارتی راہداریوں اور مصلحتوں کی سیاست میں الجھاہواہے۔ کھلی جنگ چین کی معاشی راہداریوں کے لئے خطرہ ہے،اس لیے وہ محض بیانات تک محدودہے۔سوال یہ ہے کہ سستاتیل اورمشرقِ وسطی کی تزویراتی راہداریاں چین کی محض اقتصادی فکرتک محدودرہیں گی،یابیجنگ میدانِ عمل میں اترے گا؟روس اورچین کامحض الفاظ تک محدودرہنااس امرکاغمازہے کہ وہ سردجنگ جیسی محاذآرائی کاحصہ بننے کوتیارنہیں۔ روس اورچین کامحض بیانات تک محدودرہنا اس امر کاعندیہ ہے کہ طاقت کی سیاست میں محض الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں۔ یقیناچین مشرقِ وسطی میں سستاتیل اورتجارتی روٹس کی حفاظت کاخواہاں ہے۔ اس لیے وہ امریکااور اسرائیل سے محاذآرائی کرنے کی بجائے مصالحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ امریکانے ایران پرحملہ کر کے چین کویہ پیغام دیاہے کہ اس خطے کا سیاسی ، اقتصادی اور عسکری کنٹرول واشنگٹن کے ہاتھ میں ہے۔
پاکستان کے لئے اب سب سے بڑاچیلنج امریکا، بھارت،اسرائیل گٹھ جوڑہے۔مودی،نیتن یاہواور ٹرمپ کاتکون،پاکستان کومحاصرے میں لینا چاہتا ہے۔ امریکی پالیسی یہ ہے کہ اسرائیل اوربھارت کوپاکستان کیخلاف کھلی چھٹی دے دی جائے۔ پاکستان کامؤقف تاریخی،سیاسی اور ایمانی تناظر میں یوں ہے کہ پاکستان، مسلم دنیاکی واحد ذمہ دارایٹمی طاقت ہے۔اس حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے یہ ثابت بھی کردیا کہ پاکستان کنونشنل جنگ میں بھی بھارت اوراسرائیل کے ساتھ نمٹ سکتاہے اس لئے دشمن ٹرائیکانے ایک اوراوچھاوارکیا ہے۔
ہندوستان کے وزیرخارجہ نے سندھ طاس معاہدے کوتوڑدینے کااعلان کردیاہے اوردہمکی دی ہے کہ پاکستان کوایک قطرہ پانی بھی نہیں دیاجائے گاجبکہ پاکستان اس عمل کواعلانِ جنگ قراردے چکاہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تہذیبوں کایہ تصادم جنوبی ایشیاتک پھیلنے والاہے۔مودی کاٹرمپ کی دعوت پر امریکاآنے سے معذرت،پاک امریکا تعلقات اورنئے محاذکی طرف اشارہ ہے۔کیاامریکااس نازک مرحلے پرپاکستان کاساتھ دے گایابھارت اوراسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے پاکستان کومحض مہرہ بنائے گا؟ گویا ٹرائیکااپنی اس سازش سے پاکستان کومفلوج کردینا چاہتا ہے۔ حقیقت میں یہ محاذمحض سرحدی جنگ نہیں، بلکہ تہذیبوں کامعرکہ ہے۔
بھارتی وزیرخارجہ کابیان پاکستان کی بقاء اور آزادی کاچیلنج ہے۔بھارت کاجارحانہ رویہ پاکستان کونئے محاذوں پرالجھانے کی کوشش ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اوراس کی جغرافیائی حیثیت امریکا،انڈیا اوراسرائیل تینوں کی آنکھ کاکانٹاہے۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیل کی پاکستان کی تہذیبوں کا کہ پاکستان ایران کی یہ ہے کہ اس لیے
پڑھیں:
ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران نے امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات شروع کرنے کے فیصلے کو دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ واشنگٹن کا یہ اقدام نہ صرف غیر ذمے دارانہ ہے بلکہ عالمی استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ بھی پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی ہزاروں ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے، جب دوبارہ تجربات کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو ایک نئے خطرناک دوڑ کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا اپنے عسکری مفادات کے لیے عالمی قوانین اور عدمِ پھیلاؤ کے معاہدوں کو مسلسل پامال کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکا کو شرپسند ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو کر طاقت کے زعم میں مبتلا ہے، وہ انسانیت اور عالمی امن دونوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
ایران نے عالمی برادری خصوصاً اقوامِ متحدہ اور جوہری توانائی ایجنسی سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکا کے اس خطرناک فیصلے کا فوری نوٹس لیں اور ایسے اقدامات کو روکنے کے لیے عملی کردار ادا کریں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 33 سال بعد ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا اپنے جوہری اثاثوں کی جانچ برابری کی بنیاد پر فوری طور پر شروع کرے گا تاکہ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے ایٹمی پروگراموں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
برطانوی ذرائع کے مطابق واشنگٹن نے اس فیصلے کو قومی سلامتی کی ضرورت کے طور پر پیش کیا ہے، تاہم عالمی سطح پر اس پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق اگر امریکا نے واقعی جوہری تجربات بحال کیے تو یہ سرد جنگ کے دور کی یاد تازہ کر دے گا اور دنیا ایک نئی ہتھیاروں کی دوڑ میں داخل ہو سکتی ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد دیگر ایٹمی ریاستیں بھی اپنے تجربات تیز کر سکتی ہیں، جس سے عالمی امن، ماحول اور انسانی بقا پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔