Daily Ausaf:
2025-11-03@16:39:02 GMT

نوراورظلمت کاتصادم

اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
مئی کی پاک بھارت جنگ میں امریکانے ابتدامیں’’لاتعلقی‘‘کارویہ اپناتے ہوئے کہا، ’’ہمارا اس سے کوئی لینادینانہیں‘‘۔مگرجیسے ہی اسرائیلی آپریٹڈ ڈرونزنے پاکستان پرحملے کیے، پاکستان نے بھرپورجوابی کارروائی کی۔ پاکستانی شاہینوں نے بھارت اور اسرائیل دونوں کو پیغام دیاکہ جس مقام سےیہ حملے کئےگئے ہیں،وہ ہماری دسترس میں ہیں، اسرائیلی آپریٹر مارے گئے۔ اسرائیل کی معاونت کاپردہ چاک ہوا،امریکی پالیسی میں زلزلہ آگیا۔اسرائیلی ہاروپ ڈرونزاور آپریٹرزکی ہلاکت نے واشنگٹن کویہ احساس دلایاکہ پاکستان کی صلاحیت محض روایتی محاذتک محدودنہیں۔ امریکانے سیزفائرکی دوڑاس لیے لگائی کیونکہ پاکستان کاممکنہ حملہ اسرائیل تک پھیل سکتاتھا۔ واشنگٹن جانتاتھاکہ پاکستان کی میزائل صلاحیت محض بھارت تک محدود نہیں۔امریکاکویہ بھی علم تھاکہ پاکستان اسرائیل پرناقابلِ تصور تباہی مسلط کرسکتاہے چنانچہ ٹرمپ نے فوراسیزفائرکی دوڑدھوپ شروع کی۔
مئی کی جنگ میں اسرائیلی(ہاروپ ڈرون) کابھارت کی مددکوآنا،امریکاکاابتدائی طورپرغیر جانبداری کاڈرامہ،پاکستان کی جوابی کارروائی پرسیزفائرکی بھاگ دوڑیہ ظاہرکرتاہے کہ تہذیبوں کا تصادم محض تصوراتی نہیں،زمینی حقیقت بن چکاہے ۔حالیہ پاک بھارت جنگی محاذمحض پاکستان اور بھارت تک محدودنہیں تھا۔اسرائیلی ڈرونزاور آپریٹرز کامیدانِ کار زار میں شامل ہونااس امرکا ثبوت ہےکہ تہذیبی محاذآرائی اس خطے تک پھیل چکی ہے۔ امریکاکااسرائیل اوربھارت کی حمایت میں دوہر امعیار اس بات کاعکاس ہے کہ امریکا اس محاذمیں محض تماشائی نہیں بلکہ حصہ دارہے۔
حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں امریکاکود پڑا ہے۔فردو،نطنزاوراصفہان کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملےجہاں اس بات کااعلان ہیں کہ جب تک اسرائیل کی سلامتی کاضامن امریکاہے،اسے کوئی گزندتک نہیں پہنچاسکتاگویاتہذیبوں کاتصادم نئے باب میں داخل ہوچکاہے۔ امریکامیں برنی سینڈرزاوردیگرسیاسی رہنمائوں نے اس جارحانہ اقدام کی سخت مذمت کی۔
سینڈرزکاکہناتھاکہ امریکانے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پرحملہ کیا‘‘۔ گویا امریکانے ایران کی جوہری تنصیبات پرحملہ کرکے تہذیبوں کی جنگ کو مزید مہمیزدی ہے۔ امریکا کا ایران کی جوہری تنصیبات پرحملہ محض ایران کی عسکری صلاحیت کومفلوج کرنے کاعمل نہیں تھا ۔ اس کامقصدایران اور امریکا، اسرائیل کی محاذ آرائی کونئے عروج تک پہنچانا تھا۔یہ حملہ اس امر کا عکاس ہے کہ امریکابیک وقت دو محاذوں (روس اورچین)پر عسکری چیلنج کامتحمل نہیں۔اس لیے مشرقِ وسطی میں اسرائیل اور ایران کی محاذ آرائی کواستعمال کرتے ہوئے خطے کاتوازن بگاڑاجا رہاہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اوآئی سی نے ایران کی حمایت کااعلان محض24گھنٹے قبل کیالیکن امریکا نے اس اجلاس کی سیاہی خشک ہونے سے قبل حملہ کرکے اسلامی ممالک کوپیغام دیا کہ تمہاری قراردادوں اوربیانات کی حیثیت صفرہے۔اوآئی سی اجلاس اوراس کے بعدامریکاکاحملہ جہاں مسلم دنیاکی سیاسی کمزوری کاثبوت ہے وہاں ان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کوبھی اپنی اس بے بسی کا علاج سوچنا ہوگاکہ ہم موجودہ حکمرانوں کے تسلط میں کب تک اس قعرمذلت میں اپنی غلامانہ روش پرقائم رہیں گے۔
مسلم امہ کی تزویراتی ناکامی کایہ سب سے زیادہ بزدلانہ فعل ہے کہ وہ محض قراردادوں اور نعروں تک محدودہے۔ایران،پاکستان اور دیگرمسلم ریاستوں کا جغرافیائی،اقتصادی اور عسکری مرکزبننے کاتصورمحض کتابی نعروں تک محدودہوکررہ گیاہے۔ادھرترکی نے اسرائیل کوامن کی راہ کا سب سے بڑاروڑاقراردیا اور اس حملے کو ’’مذاکرات کوسبوتاژکرنے‘‘کی سازش قراردیا۔ یہ حملے ایران اور امریکامذاکرات کوسبوتاژ کرنے کی دانستہ کوشش ہے،حقیقت یہ ہے یہ محض بیانات کادور ہے۔ مسلمانوں کارویہ بے بسی اور مصلحت کا شکار ہے ۔ مجھے آج عالم اسلام کے ایک عظیم مفکرمولانا مودودیؒ کایہ قول بری طرح ستارہاہے کہ جہاں طاقت اوراصول کامعرکہ ہو، وہاں محض گفتارکاحصہ کبھی تاریخ نہیں بن سکتا۔
چین کے لئے مشرق وسطی سستاتیل اورتجارتی راستوں کی ضمانت ہے۔چین،تجارتی راہداریوں اور مصلحتوں کی سیاست میں الجھاہواہے۔ کھلی جنگ چین کی معاشی راہداریوں کے لئے خطرہ ہے،اس لیے وہ محض بیانات تک محدودہے۔سوال یہ ہے کہ سستاتیل اورمشرقِ وسطی کی تزویراتی راہداریاں چین کی محض اقتصادی فکرتک محدودرہیں گی،یابیجنگ میدانِ عمل میں اترے گا؟روس اورچین کامحض الفاظ تک محدودرہنااس امرکاغمازہے کہ وہ سردجنگ جیسی محاذآرائی کاحصہ بننے کوتیارنہیں۔ روس اورچین کامحض بیانات تک محدودرہنا اس امر کاعندیہ ہے کہ طاقت کی سیاست میں محض الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں۔ یقیناچین مشرقِ وسطی میں سستاتیل اورتجارتی روٹس کی حفاظت کاخواہاں ہے۔ اس لیے وہ امریکااور اسرائیل سے محاذآرائی کرنے کی بجائے مصالحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ امریکانے ایران پرحملہ کر کے چین کویہ پیغام دیاہے کہ اس خطے کا سیاسی ، اقتصادی اور عسکری کنٹرول واشنگٹن کے ہاتھ میں ہے۔
پاکستان کے لئے اب سب سے بڑاچیلنج امریکا، بھارت،اسرائیل گٹھ جوڑہے۔مودی،نیتن یاہواور ٹرمپ کاتکون،پاکستان کومحاصرے میں لینا چاہتا ہے۔ امریکی پالیسی یہ ہے کہ اسرائیل اوربھارت کوپاکستان کیخلاف کھلی چھٹی دے دی جائے۔ پاکستان کامؤقف تاریخی،سیاسی اور ایمانی تناظر میں یوں ہے کہ پاکستان، مسلم دنیاکی واحد ذمہ دارایٹمی طاقت ہے۔اس حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے یہ ثابت بھی کردیا کہ پاکستان کنونشنل جنگ میں بھی بھارت اوراسرائیل کے ساتھ نمٹ سکتاہے اس لئے دشمن ٹرائیکانے ایک اوراوچھاوارکیا ہے۔
ہندوستان کے وزیرخارجہ نے سندھ طاس معاہدے کوتوڑدینے کااعلان کردیاہے اوردہمکی دی ہے کہ پاکستان کوایک قطرہ پانی بھی نہیں دیاجائے گاجبکہ پاکستان اس عمل کواعلانِ جنگ قراردے چکاہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تہذیبوں کایہ تصادم جنوبی ایشیاتک پھیلنے والاہے۔مودی کاٹرمپ کی دعوت پر امریکاآنے سے معذرت،پاک امریکا تعلقات اورنئے محاذکی طرف اشارہ ہے۔کیاامریکااس نازک مرحلے پرپاکستان کاساتھ دے گایابھارت اوراسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے پاکستان کومحض مہرہ بنائے گا؟ گویا ٹرائیکااپنی اس سازش سے پاکستان کومفلوج کردینا چاہتا ہے۔ حقیقت میں یہ محاذمحض سرحدی جنگ نہیں، بلکہ تہذیبوں کامعرکہ ہے۔
بھارتی وزیرخارجہ کابیان پاکستان کی بقاء اور آزادی کاچیلنج ہے۔بھارت کاجارحانہ رویہ پاکستان کونئے محاذوں پرالجھانے کی کوشش ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اوراس کی جغرافیائی حیثیت امریکا،انڈیا اوراسرائیل تینوں کی آنکھ کاکانٹاہے۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل کی پاکستان کی تہذیبوں کا کہ پاکستان ایران کی یہ ہے کہ اس لیے

پڑھیں:

ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی

ماہرِ امور خارجہ کا پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماہرخارجہ امور محمد مہدی نے کہا کہ مئی کے حالیہ واقعات نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے تصورات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا امکان معدوم ہوچکا ہے، اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور روایتی جنگ میں بالادستی کا تصور بھی اب ختم ہو چکا ہے، بھارت کی بی جے پی حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ سائوتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیائی ممالک اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد مہدی نے کہا کہ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوابی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے امن کی اہمیت کو سمجھا تھا، مگر مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ خطے کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے موجودہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے سارک اور دیگر علاقائی ڈائیلاگ کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی تحریک اسی صورتحال کا نتیجہ ہے، جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے تو ان کے ردعمل کے طور پر اس قسم کی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو اس تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کیا جو ان کی سیاسی کامیابی کی وجہ بنی۔ محمد مہدی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بیروزگاری کا بحران تو ہر جگہ موجود ہے، مگر ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس کا سامنا کر رہا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی بے چینی اور تحریک اسی صورت حال کا آئینہ دار ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلا دیش کی تعلیمی سطح خطے کے کچھ دیگر ممالک سے بہتر سمجھی جاتی ہے مگر وہاں کے معاشی مسائل نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ دوسری جانب افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، جہاں بے روزگاری کی نوعیت اور شدت مختلف ہے، اس لیے ان ممالک میں بنگلا دیش جیسے حالات کا پیدا ہونا کم امکان ہے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
 
محمد مہدی نے کہا کہ ایران کا بھارت کیساتھ تعلقات میں بھی سردمہری آئی ہے، خاص طور پر جب بھارت نے ایران کیساتھ تعلقات میں تذبذب کا مظاہرہ کیا تو ایران نے بھارت کے رویے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار علاقائی تعاون کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بالخصوص مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتے۔ خطے کی بیوروکریسی اور حکومتی سطح پر اصلاحات تب تک ممکن نہیں جب تک جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ امن و تعاون کے راستے پر نہیں چلتے، اگر یہ ممالک ایک دوسرے کیساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات اور محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کیساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون کی سمت میں قدم بڑھائیں تو خطے میں ترقی اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔
 
محمد مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کی عوام کے درمیان بے چینی اور تناؤ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گڈ گورننس، شفاف میرٹ اور بہتر معاشی ماڈلز پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سیکرٹری پبلک ایڈمنسٹریشن و  جنوبی ایشیائی نیٹ ورک سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، اورغربت کے خاتمے جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025 کا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ بالاکوٹ 2019 کے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019 میں، ہم ردعمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025 میں، ہم تیار تھے۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی اور بنگلہ دیش کی حکومت کے ریٹائرڈ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شریف العالم نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • پاکستان کا ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ پروفیسر شاہدہ وزارت کا انٹرویو
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے