پاکستان میں بھارتی دہشتگردی کے ناقابلِ تردید شواہد پر عالمی خاموشی سے امن کو خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
پاکستان کی جانب سے بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ناقابل تردید شواہد پیش کرنے پر عالمی برادری کی خاموشی سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔پاکستان میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ناقابلِ تردید اور مستند شواہد ایک بار پھر منظرِ عام پر آ رہے ہیں، جن سے بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔پاکستان اور دیگر متاثرہ ممالک کی جانب سے بارہا بین الاقوامی سطح پر بھارت کی مداخلت اور تخریبی کردار کے شواہد پیش کیے جا چکے ہیں، پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو اس بھارتی رویے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، خصوصاً بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جاری بھارتی خفیہ دہشت گردی کی مہم عالمی امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔2009ء میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی دو طرفہ بات چیت کے دوران پاکستان نے پہلی بار باضابطہ طور پر بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا، 2010ء میں وکی لیکس کے انکشافات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ بین الاقوامی مبصرین پاکستان میں بھارتی خفیہ سرگرمیوں، خاص طور پر بلوچستان میں بدامنی سے متعلق کارروائیوں سے بخوبی آگاہ تھے۔2015ء میں پاکستان نے بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں پر مشتمل ایک جامع ڈوزیئر اقوامِ متحدہ کو پیش کیا، جس میں بھارتی انٹیلی جنس اداروں کے کردار کو بے نقاب کیا گیا، 2016ء میں بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری نے ان شواہد کو عملی شکل دے دی، کلبھوشن نے پاکستان میں تخریب کاری، خاص طور پر بلوچستان میں کارروائیوں کا اعتراف کیا۔پاکستان نے 2019ء اور پھر 2023ء میں اقوام متحدہ کو مزید ڈوزیئرز فراہم کیے جن میں سرفراز بنگل زئی اور گلزار امام شمبے کے اعترافی بیانات شامل تھے، جنہوں نے بھارتی انٹیلی جنس اہلکاروں سے تربیت اور ہدایات لینے کا اعتراف کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ بریفنگ میں بھارتی فوجی افسران کے پاکستان میں دہشتگردی میں براہ راست ملوث ہونے کے شواہد پیش کیے گئے، جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ کوئی انفرادی کارروائیاں نہیں بلکہ باقاعدہ ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں۔دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے شواہد مسلسل عالمی برادری کے سامنے رکھے جا رہے ہیں، لیکن بھارتی حکومت کی جانب سے انکار اور خاموشی خطے کو تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے، اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری بھارتی ریاستی دہشتگردی پر سنجیدگی سے نوٹس لے اور اس کے خلاف عملی اقدامات کیے جائیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بلوچستان میں پاکستان میں میں بھارتی کی جانب سے گردی کے
پڑھیں:
پاکستان کسی گروپ کو ملک کے اندر یا باہر دہشت گرد حملوں کی اجازت نہیں دیتا: بلاول
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی میڈیا کو انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کسی گروپ کو ملک کے اندر یا باہر دہشتگرد حملوں کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 92 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ گزشتہ برس دہشتگردی کے 200 سے زیادہ واقعات پیش آئے۔ حملے رواں برس بھی جاری ہیں۔ دہشتگردی کے حوالے سے یہ سال پاکستان کی تاریخ میں بدترین سال ہے۔ میں خود دہشتگردی کا شکار رہا ہوں۔ پہلگام حملے کے متاثرین کا دکھ اور خوف محسوس کر سکتا ہوں۔ پاکستان جس پراسیس سے گزرا اس میں پاکستان نے دہشتگرد گروپوں کیخلاف فوجی آپریشن کیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد میرے والد کے دور میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیا گیا۔ اس کے بعد کی حکومتوں نے شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کیا۔ ہم نے نیشنل ایکشن پلان نافذ کیا۔ بھارت کے جن گروپوں پر تحفظات ہیں اس حوالے سے حال ہی میں ہم ایف اے ٹی ایف کے سخت عمل سے گزرے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی نگرانی کا عمل بہت سخت ہوتا ہے آپ کچھ نہیں چھپا سکتے۔ پہلگام حملے کے فوری بعد وزیراعظم شہباز شریف نے غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقات کا حصہ بننے کی پیشکش کی تھی۔ یہ بھارتی حکومت تھی جس نے اس پیش کش کو ٹھکرایا۔ پہلگام حملے میں کون ملوث تھے؟ ان لوگوں کو کوئی کیوں نہیں جانتا؟ آپ ان لوگوں کے نام کیوں نہیں جانتے؟۔ اگر وہ پاکستان کی سرحد کراس کر کے مقبوضہ کشمیر میں گئے تو یہ سائنٹیفک ٹیکنالوجی اور سیٹلائٹ کا دور ہے۔ پاکستان اس حملے میں ملوث ہوتا تو آپ کے پاس ایسی ساری معلومات ہوتیں اور عالمی برادری بھی اس سے باخبر ہوتی۔ بھارتی عوام سے جھوٹ بولا گیا کہ پاکستان پہلگام حملے میں ملوث ہے۔ اور بھارتی عوام کو بے وقوف بنایا۔ ہمارے خطے میں دہشتگردی کی ایک تاریخ ہے۔ اس میں لشکر جھنگوی‘ لشکر طیبہ اور دیگر دہشتگرد گروپ ہیں۔ سرد جنگ کی وجہ سے اس وقت پاکستان کی یہ پالیسی تھی کہ ان گروپس کو نہ دہشتگرد سمجھا گیا نہ کہا گیا۔ دہشتگرد کا لفظ نائن الیون کے بعد آیا‘ اس سے پہلے ایسے گروپوں کو فریڈم فائٹر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ماضی میں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری نے اس کو جہاد کے طور پر معاشرے میں پیش کیا۔ ہمیں ٹی ٹی پی‘ القاعدہ ‘ داعش‘ بی ایل اے‘ ان سب کی دہشتگردی کا سامنا ہے۔ ان گروپوں میں وہ بھی شامل ہیں جو کشمیر جہاد میں گئے۔ جہاد کے نظریئے کے تحت پاکستانی معاشرے اور پاکستانی سیاست میں ان گروپوں کی مخالفت نہیں کی گئی۔ پاکستانی گروپوں یا پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان افراد کی افغان جہاد کیلئے عالمی برادری کی طرف سے ٹریننگ دی گئی۔بھارت میڈیا پر پاکستان کیخلاف چیخنے کی بجائے جامع مذاکرات کا حصہ بنے۔ بھارت جامع مذاکرات کا حصہ بنے گا تو دیگر مسائل پر بھی بات ہوگی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے خطرات اب بھی موجود ہیں جیسے عراق میں القاعدہ کو شکست دی گئی لیکن وہ داعش کی صورت میں دوبارہ ابھرے۔ ممبئی حملہ کیس بھارت کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ بھارت کی متعصبانہ سوچ کی بجائے عالمی سطح پر اکارڈ زیادہ اہم ہے۔ بھارتی حکومت گاندھی فلسفے کے خلاف چل رہی ہے۔ بھارتی عوام ڈس انفارمیشن سے بچیں۔ انٹرویو کے دوران بھارتی اینکر بار بار بلاول بھٹو کو جواب دینے میں روک رہے تھے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ’’اگر جواب نہیں سننا تو میں پروگرام چھوڑ کر چلا جاؤں گا‘‘۔ بھارت کو تعصب کی بجائے بین الاقوامی برادری کے مؤقف کے ساتھ جانا چاہئے۔ ہم نے عالمی برادری کو مطمئن کر دیا ہے۔ بلوچستان میں پکڑے جانے والے بھارتی فوجی افسر کلبھوشن سے تو آپ بھی واقف ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے پاکستان میں بھارت کی طرف سے دہشتگرد حملوں کا ایک سلسلہ جاری رہا ہے۔ حالیہ جعفر ایکسپریس پر دہشتگرد حملے کا براہ راست تعلق بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی سے ہے۔ ممبئی حملوں کے ساتھ آپ کو 2007 ء میں ہونے والا سمجھوتہ ایکسپریس حملہ بھی یاد کرانا چاہتا ہوں۔ سمجھوتہ ایکسپریس حملے میں بھارتی سرزمین پر 46 پاکستانیوں کی جانیں گئیں اور کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ اعترافی بیان بھی واپس لے لیا گیا۔ بھارت جو بھی نظریہ رکھے امریکہ ہو یا ایف اے ٹی ایف، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اب تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ بھارت کے مفاد میں بھی ہے کہ وہ تسلیم کر لے کہ پاکستان اب ماضی جیسے کردار میں نہیں۔