صدر ٹرمپ کے عائد کردہ ٹیرف خلاف قانون قرار، بین الاقوامی تجارت کی عدالت نے فیصلہ سنادیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
بین الاقوامی تجارت کی عدالت نے امریکی تجارتی شراکت داروں پر عائد 10 فیصد ٹیرف سمیت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ بیشتر یکطرفہ ٹیرف کو خلافِ قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
مختلف عدالتوں میں متعدد مقدمات دائر کیے جانے کے باوجود یہ پہلا موقع ہے جب کسی وفاقی عدالت نے صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ ٹیرف کو بلاک کیا ہو، محصولات نے امریکی اسٹاک مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور کچھ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ دنیا کساد بازاری میں ڈوب سکتی ہے۔
نیویارک میں قائم بین الاقوامی تجارت کی عدالت کے ججوں کے 3 رکنی پینل نے 49 صفحات پر مشتمل ایک رائے میں کہا کہ بین الاقوامی ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ امریکی صدر کو محصولات لگانے کا ’لامحدود‘ اختیار نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف امریکی عدالت برائے اپیل برائے فیڈرل سرکٹ میں اپیل کی ہے، جسے بالآخر کار سپریم کورٹ تک بھی لے جایا جا سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کش ڈیسائی نے کہا کہ دیگر ممالک کے ساتھ امریکی تجارتی خسارے نے ایک قومی ہنگامی صورتحال پیدا کر دی ہے جس نے امریکی کمیونٹیز کو تباہ کر دیا ہے، انہوں نے امریکی میڈیا کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ غیر منتخب ججوں کے لیے نہیں ہے کہ وہ قومی ہنگامی صورتحال سے کیسے نمٹیں۔
’صدر ٹرمپ نے امریکا کو سب سے مقدم رکھنے کا وعدہ کیا اور انتظامیہ اس بحران سے نمٹنے اور امریکی عظمت کو بحال کرنے کے لیے انتظامی طاقت کے ہر استحقاق کو استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف: یورپی یونین کو 9 جولائی تک مہلت مل گئی
ججوں کے 3 رکنی پینل کی جانب سے یہ حالیہ فیصلہ چھوٹے کاروباروں کے ایک گروپ اور 12 ڈیموکریٹک اسٹیٹ اٹارنی جنرل کی طرف سے لائے گئے 2 مقدمات پر مبنی تھا، ان ججوں کی تقرری 3 مختلف صدور نے کی تھی؛ باراک اوباما کے گیری کاٹزمین، ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹموتھی ریف اور رونالڈ ریگن کے جین ریسٹانی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا بین الاقوامی ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ بین الاقوامی تجارت پینل تجارتی خسارے تجارتی شراکت دار ترجمان صدر ٹرمپ کش ڈیسائی نیویارک وائٹ ہاؤس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا بین الاقوامی تجارت پینل تجارتی خسارے تجارتی شراکت دار کش ڈیسائی نیویارک وائٹ ہاؤس بین الاقوامی تجارت نے امریکی کی عدالت کے لیے
پڑھیں:
امریکی صدر کے حکم پر کیریبین میں منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا نے کیریبین سمندر میں ایک اور مبینہ منشیات بردار کشتی کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا، جس میں سوار تین افراد ہلاک ہوگئے۔
امریکی وزیرِ دفاع کے مطابق یہ کارروائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر ہفتے کے روز بین الاقوامی پانیوں میں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ نشانہ بنائی گئی کشتی امریکی انٹیلی جنس اداروں کی نگرانی میں تھی اور اس کے بارے میں معلومات تھیں کہ وہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہے۔
پیٹ ہیگسیتھ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ X پر جاری بیان میں کہا کہ “امریکی محکمہ جنگ نے صدر ٹرمپ کی ہدایت پر ایک اور ڈیزگنیٹڈ ٹیررسٹ آرگنائزیشن (DTO) کی منشیات بردار کشتی پر مہلک حملہ کیا۔ کشتی میں سوار تین نر نارکو-دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ امریکی فورسز محفوظ رہیں۔”
امریکی حکام کے مطابق ستمبر سے اب تک امریکا کی جانب سے منشیات اسمگلنگ کے خلاف 12 سے زائد فضائی حملے کیے جاچکے ہیں، جن میں زیادہ تر کارروائیاں کیریبین اور بحرالکاہل میں کی گئیں۔ ان کارروائیوں میں کم از کم 64 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی قانونی ماہرین نے ان حملوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے امریکا کے طرزِ عمل پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی پانیوں میں مبینہ طور پر منشیات بردار کشتیوں پر میزائل حملے عالمی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ٹرک نے بھی ان حملوں کو “ناقابلِ قبول” قرار دیتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق امریکا کی جانب سے کی جانے والی یہ کارروائیاں “ماورائے عدالت قتل” کے زمرے میں آتی ہیں، لہٰذا ان کا فوری جائزہ لیا جانا چاہیے۔
انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ حملے ثبوت یا عدالتی عمل کے بغیر کیے جا رہے ہیں تو انہیں بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بجائے “ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال” کے طور پر دیکھا جائے گا۔