UrduPoint:
2025-11-03@14:42:50 GMT

پاکستانی نوجوان کورین ثقافت کے شیدائی کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT

پاکستانی نوجوان کورین ثقافت کے شیدائی کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جون 2025ء) کورین ڈرامے پاکستانی نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ ان ڈراموں میں پیش کی جانے والی ثقافت کی جانب نوجوانوں کا رجحان چند سال قبل عالمی وبا کے دوران ایک وقتی تفریح یا فرار کے طور پر شروع ہوا تھا، جو اب ایک گہرے جذباتی اور ثقافتی تعلق میں بدل چکا ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی اے لیول کی طالبہ ایمان ابرار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنوبی کوریا کے ڈراموں اور فلموں میں خاندان کی اہمیت، طبقاتی تفریق، زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور نرم و ملائم رومانوی کہانیوں جیسے موضوعات کو جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے، وہ پاکستانی معاشرتی حقیقتوں سے گہری مماثلت رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ یہ ڈرامے ہر نسل کے لوگوں میں زیادہ مقبول ہیں۔

(جاری ہے)

فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں کورین ثقافت پر تحقیق کرنے والی طالبہ فضا زاہد کے مطابق یہ ڈرامے ایسے موضوعات کو اجاگر کرتے ہیں جو پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے احساسات اور تجربات سے قریب تر ہیں جیسا کہ طبقاتی تفریق، خاندانی عزت، ممنوعہ محبت، حوصلہ مندی، اور خود کی تلاش۔

پاکستانی اور کورین ثقافت میں مماثلت

فضا زاہد کے مطابق پاکستانی اور کوریائی ثقافتوں میں مذہب اور زبان کے فرق کے باوجود خاندانی نظام، بزرگوں کے احترام اور قریبی رشتوں جیسی نمایاں مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ یہی مشترک اقدار کورین ثقافت پر تحقیق کو اہم بناتی ہیں اور کورین ڈراموں کو پاکستانی ناظرین کے لیے ایک مانوس اور جذباتی تجربہ بنا دیتی ہیں، جس سے دیگر ایشیائی ممالک کے لوگ بھی خود کو کوریا سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

ایمان ابرار کہتی ہیں کورین ڈراموں میں خواتین کے کردار مضبوط اور مہربان ہوتے ہیں، جبکہ مرد کردار ہمدردی، احترام اور جذباتی حساسیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسی خصوصیات جو عالمی میڈیا میں اکثر نظر نہیں آتیں، یہ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں اور واضح طور پر ایک دیرینہ کمی کو پورا کر رہے ہیں۔

'کمچی اور سارنگہے، اب اجنبی نہیں'

فضا زاہد کے مطابق چند سال قبل اگر کوئی "رمیون"، "کمچی" یا "سارنگہے" جیسے الفاظ مسکراہٹ کے ساتھ ادا کرتا تو زیادہ تر لوگ حیرت کی نگاہ سے اسے دیکھتے۔

لیکن آج یہ الفاظ تعلیمی اداروں اور شہری ہوٹلوں سمیت روزمرہ کی گفتگو، خاص طور پر نوجوانوں کی بول چال میں عام حصہ بن چکے ہیں۔ فضا زاہد کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک وقتی رجحان نہیں بلکہ ایک گہری ثقافتی تبدیلی کی علامت ہے، جو پاکستانی نوجوانوں میں کورین ڈراموں (K-Dramas) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نمایاں کرتی ہے۔ ایک نئی کلچرل مارکیٹ

مزید برآں، فضا زاہد کہتی ہیں پاکستان میں کورین کھانوں اور زبان کے لیے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ایک نئی ثقافتی منڈی کو جنم دیا ہے۔

اس کا ثبوت ملک بھر میں کورین ہوٹلوں کی مقبولیت اور کورین اسکالرشپس و لینگویج کورسز کے لیے طلبہ کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) کے شعبۂ کورین زبان کے سربراہ احتشام حسین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نمل فنکشنل کورسز کے ساتھ ساتھ کورین زبان میں ڈگری پروگرام بھی پیش کر رہا ہے۔ "ہماری پہلی فارغ التحصیل کلاس اب مارکیٹ میں متحرک ہے۔

"

احتشام حسین نے مزید بتایا کہ پہلے ادارہ صرف ڈپلومہ کورسز فراہم کرتا تھا تاہم طلبہ میں کورین زبان اور خاص طور پر کورین ثقافت کے حوالے سے بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث مکمل ڈگری پروگرام کا آغاز کیا گیا۔

'کورین ڈراموں سے متاثر ہو کر پڑھائی شروع کی'

سندس اکرم نمل میں کورین زبان کی ڈپلومہ کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں کورین زبان میں دلچسپی سن 2015 میں ایک کورین ڈرامہ دیکھنے کے بعد پیدا ہوئی۔

اس تجسس نے انہیں نہ صرف کورین گانے سننے، خاص طور پر بی ٹی ایس کی موسیقی کی طرف مائل کیا بلکہ وقت کے ساتھ ان کی کورین ثقافت سے وابستگی بھی گہری ہوتی گئی۔ اسی دلچسپی کے تحت انہوں نے کورین زبان سیکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔

احتشام حسین کے مطابق کورین زبان اور ثقافت کی مقبولیت کی بڑی وجہ کورین تفریحی صنعت، خاص طور پر بی ٹی ایس جیسے بینڈز کی نوجوانوں میں مقبولیت ہے۔

یہی ثقافتی کشش طلبہ کو کورین زبان سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔ تحقیق اور روزگار کے نئے دروازے

احتشام حسین کے مطابق کورین زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے کئی فوائد ہیں۔ طلبہ تحقیق، ترجمہ اور تشریح جیسے شعبوں میں جا رہے ہیں، لیکن زیادہ تر کورین ثقافت پر تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض طلبہ کوریا میں اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے مواقع کے خواہاں ہیں، جہاں "گلوبل کوریا اسکالرشپ (GKS)" جیسے پروگرامز بین الاقوامی طلبہ کو اسکالرشپ فراہم کرتے ہیں۔

ادارہ طلبہ کی رہنمائی کرتا ہے اور حال ہی میں ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے ہیں۔ ان کے بقول، اب طلبہ "ایمپلائمنٹ پرمٹ اسکیم" کے تحت ملازمتیں حاصل کر کے اچھی تنخواہیں کما رہے ہیں اور اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔

ادارت: عرفان آفتاب

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کورین ڈراموں کورین ثقافت کورین زبان میں کورین کے مطابق فضا زاہد کرتے ہیں رہے ہیں

پڑھیں:

حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی

کانگریس لیڈر نے کہا کہ مودی حکومت نے عوام کے حصے کی دولت چند سرمایہ دار دوستوں کو سونپ دی ہے، جو صنعتیں ملک کی تھیں، جن سے کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا تھا، وہ سب بیچ دی گئیں۔ اسلام ٹائمز۔ بِہار اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ہفتہ کو بیگو سرائے کے بچھواڑا اسمبلی حلقے میں ایک پرجوش عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نے کانگریس امیدوار شیو پرکاش غریب داس کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی اور ریاستی و مرکزی حکومت پر سخت تنقید کی۔ پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا کہ بہار کے عوام آج ہجرت کے درد میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے کسان اپنے لہلہاتے کھیت چھوڑ کر دوسرے صوبوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے عوام کے حصے کی دولت چند سرمایہ دار دوستوں کو سونپ دی ہے، جو صنعتیں ملک کی تھیں، جن سے کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا تھا، وہ سب بیچ دی گئیں۔ ہر شعبہ ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے اور نجکاری کے نام پر عوام کا حق چھین لیا گیا ہے۔ پرینکا گاندھی نے نتیش کمار اور نریندر مودی پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ بیس برسوں سے حکومت چلانے کے بعد بھی اب کہہ رہے ہیں کہ ڈیڑھ کروڑ نوکریاں دیں گے۔ جب اتنے سال اقتدار میں تھے تو کیوں نہیں دی؟ ان کے وعدے کھوکھلے ہیں، چھوٹے کاروبار ختم ہو گئے، عوام کا جو کچھ تھا وہ اپنے دوستوں کو بیچ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے دل میں خوف ہے، آج لوگ سوچتے ہیں کہ علاج کہاں کرائیں، بچوں کی پرورش کیسے کریں، بہار میں عورتوں کی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے۔ وہ گھر، کھیت اور خاندان سب کچھ سنبھالتی ہیں، مگر ان کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی ڈبل انجن حکومت کی بات کرتے ہیں مگر آپ کی کوئی سنوائی نہیں ہے، حتیٰ کہ آپ کے وزیر اعلیٰ کی بھی نہیں۔ ساری طاقت دہلی کے ہاتھوں میں ہے اور آپ کی زمینیں کوڑیوں کے دام بیچی جا رہی ہیں۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ تبدیلی لائیں، یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار بیٹھے ہیں، ایسے لیڈروں سے ہوشیار رہیں جو صرف اپنا چہرہ چمکانے آتے ہیں، پھر ووٹ چوری کر کے چلے جاتے ہیں۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ ملک میں آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور بڑے ادارے کانگریس نے بنوائے، ہم ماضی میں نہیں جانا چاہتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ترقی کے بڑے قدم کانگریس کے دور میں اٹھائے گئے۔ انہوں نے راہل گاندھی کے ذات پر مبنی مردم شماری اور سماجی انصاف کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب کا ترقی میں برابر کا حصہ چاہتے ہیں، تاکہ کوئی طبقہ پیچھے نہ رہ جائے۔

متعلقہ مضامین

  • بلیدہ میں پکنک پر گئے 4نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد، خاندانوں میں صف ماتم
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • پاک فوج کی کوششوں سے گوادر میں جدید ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ قائم
  • گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی : پاک فوج کی کاوشوں کا مظہر
  • بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
  • حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی
  • ایم ڈی کیٹ، کراچی کے طلبہ بازی لے گئے
  • نومبر 2025: سعودی عرب میں ثقافت، سیاحت، معیشت اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا غیر معمولی مہینہ
  • بلوچستان اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کا صوبہ ہے ‘حافظ نعیم الرحمن
  • حکمران طبقے کے اقدامات نوجوانوں میں مایوسی پھیلارہے ہیں، حافظ نعیم الرحمن