بھارتی عوام مودی سرکار کی نفرت کی سیاست کے خلاف یک زبان
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
بھارتی عوام کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کو مارنے کے دعوؤں کے ثبوت کہاں ہیں؟، ہندو مسلم فسادات میں مودی کا فائدہ ہے جس کا اس نے استعمال کیا، مودی مسلمانوں کو غدار دکھا کر ہندوؤں کا ووٹ حاصل کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی عوام مودی سرکار کی نفرت کی سیاست کے خلاف یک زبان ہو گئے۔ مودی کا "آپریشن سندور" ایک سیاسی ڈرامہ ہے جسے عوام پہچان چکے ہیں، مودی نے غم کو ووٹ کی سیاست میں بدل دیا جبکہ گودی میڈیا نے سچ کو چھپایا۔ ہر الیکشن میں ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کے باعث بھارتی عوام اب مودی سرکار کی نفرت کی سیاست سے بیزار ہو چکے ہیں۔بھارتی عوام مودی کے جھوٹ اور آپریشن سندور کے نام پر جذبات کا استحصال کرنے جیسے ڈراموں سے تنگ آ کر اب جواب مانگ رہے ہیں۔ بھارتی عوام کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کو مارنے کے دعوؤں کے ثبوت کہاں ہیں؟، ہندو مسلم فسادات میں مودی کا فائدہ ہے جس کا اس نے استعمال کیا، مودی مسلمانوں کو غدار دکھا کر ہندوؤں کا ووٹ حاصل کریں گے۔ بھارتی عوام نے کہا کہ گودی میڈیا لاہور اور کراچی میں چائے پینے کے جھوٹے دعوے کرتا رہا۔ مودی سرکار جھوٹ بول رہی ہے کہ ہم نے عوام پر خرچہ کیا، انہوں نے سب خرچہ اپنی انتخابی مہمات پر لگایا، مودی سرکار خود دہشتگردی کو بڑھا رہا ہے، پہلگام حملے میں سب مذاہب کے لوگ شہید ہوئے، مگر بی جے پی نے صرف نفرت پھیلائی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بھارتی عوام مودی سرکار کی سیاست
پڑھیں:
مودی سرکار کی زیرِسرپرستی آسام میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رحجان
بھارتی ریاست آسام میں حکومت کی سرپرستی میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رجحان پنپ رہا ہے۔
ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے زیر سایہ اور آشیرباد سے آسام میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رحجان جاری ہے۔ بھارتی ریاست آسام میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت قتل انتہا پسند ہندتوا سوچ کا عکاس ہے اور مودی کی مسلمان دشمن پالیسیوں کو نافذ کرنے میں آسام پولیس مسلمانوں کو ماورائے عدالت قتل کرکے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ہندوتوا واچ انڈیپنڈنٹ ریسرچ پروجیکٹ کے مطابق ’’انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد آسام میں اقلیتوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات بڑھے ہیں‘‘۔
رپورٹ کے مطابق نومبر 2021ء میں آسام کے شہر جورہاٹ میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے رہنما انیمیش بھویان کو مشتعل ہجوم نے مار ڈالا۔ اس قتل کے الزام میں پولیس نے 13 افراد کو گرفتار کیا جس میں نیرج داس اور اس کا والد بھی شامل تھے۔
ہندوتوا واچ کے مطابق یکم دسمبر کی رات نیرج داس پولیس حراست میں پراسرار طور پر ہلاک ہو گیا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ اُس نے جیپ سے چھلانگ لگا دی اور پیچھے آنے والی گاڑی سے ٹکرا کر جان گنوا بیٹھا، تاہم اہل خانہ نے پولیس کی فرضی کہانی کو مسترد کرتے ہوئے اسے منصوبہ بند قتل قرار دیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نیرج داس کا پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہمنتا بسوا سرما کی وزارت اعلیٰ کے دوران مئی سے دسمبر 2021ء تک بھارتی پولیس نےکم از کم 31 ماورائے عدالت قتل کیے۔
پولیس کے مطابق مئی سے نومبر کے دوران 28 افراد فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔ دسمبر کے آغاز میں مزید 3 کی موت واقع ہوئی جن میں داس بھی شامل ہے۔ رپورت میں کہا گیا ہے کہ پولیس کا بیانیہ تقریباً ہر کیس میں ایک جیسا ہے کہ ’ملزم نے فرار کی کوشش کی یا ہتھیار چھیننے کی کوشش کی، جس پر گولی چلائی گئی، تاہم لواحقین اور عینی شاہدین اکثر ان دعووں کو جھوٹا اور من گھڑت قرار دیتے ہیں۔
ہندوتوا واچ کے مطابق پولیس کے ہاتھوں مرنے والوں میں سے اکثر کا تعلق مذہبی اور نسلی اقلیتوں سے تھا۔ 30 شناخت شدہ افراد میں سے 14 مسلمان اور 10 قبائلی برادریوں (بوڈو، دیماسا، کوکی) سے تھے جب کہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ افراد یا تو مجرم، منشیات فروش یا انتہا پسند تھے۔ اسی طرح پولیس کی فائرنگ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی قابل توجہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 10 مئی سے 10 دسمبر کے دوران 55 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کم از کم 30 مسلمان ہیں۔ جوینال عابدین کو گینگ لیڈر ظاہرکرکے 11 جولائی کو گھر سے گرفتار کر کے گولی مار دی گئی۔ اہلِ خانہ اور دیہاتیوں نے پولیس بیان کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق اسی طرح جونگسر مشہری اور جنک برہما، ستمبر میں کراس فائر میں مارا گیا۔دونوں کے لواحقین کے مطابق دونوں پولیس حراست میں تھے اور رہائی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ علاوہ ازیں دلاور حسین کو جولائی میں حراست کے دوران گولیاں مار کر معذور کر دیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ فرار ہو رہا تھا، جبکہ حسین کے مطابق پولیس جھوٹ بول رہی ہے۔
ہندوتوا واچ کے مطابق آسام پولیس کے ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کا وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے ہمیشہ دفاع کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے مطابق اگر کوئی مجرم فرار ہونے کی کوشش کرے تو اس پر گولی چلانا قابلِ قبول ہے۔ یہ اقدامات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ریاست کو مجرموں سے پاک نہیں کر دیا جاتا۔وزیر داخلہ امت شاہ نے انہیں 3 امور پر توجہ دینے کو کہا ہے۔ منشیات کی روک تھام، گائے کی اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ۔
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ ان واقعات نے پولیس کی شفافیت، غیر جانب داری اور قانونی طریقہ کار پر گہرے سوالات اٹھائے ہیں۔ ناقدین کے مطابق پولیس زیادہ تر کارروائیوں میں اقلیتوں کو نشانہ بناتی ہے ۔ آسام میں ماورائے عدالت قتل کو بعض حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے، تاہم انسانی حقوق کمیشنز اور کئی سابق اعلیٰ افسران نے اس رجحان کو خطرناک قرار دیا ہے۔
ہندوتوا واچ کے مطابق سابق ڈی جی پی نے فوری انصاف کے نام پر مجرموں کو عدالت میں پیش کیے بغیر مارنا غیر جمہوری قرار دیا ہے۔