غزہ، امدادی مرکز کے قریب حملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ غزہ میں واقع امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ ایک امدادی تنظیم کے ایک سینٹر کے قریب ہونے والے حملے کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔
گزشتہ روز غزہ میں اس امدادی مرکز کے قریب ہوئے ایک حملے کے نتیجے میں کم از کم 31 فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے۔
مقامی ریسکیو اہلکاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ہلاکتیں اسرائیلی فوج کی طرف سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں ہوئیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بارے حقائق جاننے کی غرض سے تفتیشی عمل جاری ہے۔گوٹیرش نے کہا، ''غزہ میں امداد کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے فلسطینیوں کے قتل اور زخمی ہونے کی خبروں پر میں شدید افسوس اور صدمے کی حالت میں ہوں۔
(جاری ہے)
یہ ناقابل قبول ہے کہ فلسطینیوں کو خوراک کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنا پڑ رہی ہے۔‘‘گوٹیرش نے مزید کہا، ''میں ان واقعات کی فوری اور آزادانہ تحقیقات اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘
تازہ ترین حملے میں کم از کم چودہ فلسطینی ہلاکغزہ پٹی میں پیر کے روز ایک رہائشی عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں کم ازکم چودہ افراد مارے گئے ہیں۔
غزہ میں حماس کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔شِفا اور الاہلی ہسپتالوں کے حکام نے بتایا کہ شمالی غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں ہونے والے ان حملوں میں پانچ خواتین اور سات بچے مارے گئے۔
اسرائیلی فوج نے اس حملے کے حوالے سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ صرف عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتا ہے اور عام شہریوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتا ہے۔
اسرائیل کا الزام ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکت کا ذمہ دار حماس ہے کیونکہ اس فلسطینی عسکریت پسند گروہ کے جنگجو گنجان آباد علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔
غزہ پٹی کھنڈر بن چکی ہے، امدادی ادارےاسرائیلی کارروائیوں نے غزہ کے بیشتر علاقے کو تباہ اور 90 فیصد آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
اسرائیل نے عندیہ دیا ہے کہ وہ غیر معینہ مدت تک غزہ پر کنٹرول برقرار رکھے گا اور غزہ سے فلسطینیوں کی ''رضاکارانہ ہجرت‘‘ میں معاونت فراہم کرے گا۔
یہ تنازعہ کیسے شروع ہوا؟اسرائیل اور حماس کے درمیان مسلح تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب فلسطینی عسکریت پسندوں نے 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملہ کر کے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
حماس اب بھی 58 یرغمالیوں کو قید رکھے ہوئے ہے، جن میں سے تقریباً ایک تہائی کے زندہ ہونے کی امید ہے۔ باقی ماندہ یرغمالیوں کو جنگ بندی یا دیگر معاہدوں کے تحت رہا کیا جا چکا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ باقی یرغمالیوں کی رہائی فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی انخلا کے بدلے میں ہی کرے گی۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کی واپسی، حماس کی شکست اور اسے جلاوطنی پر مجبور کرنے تک جنگ جاری رکھے گا۔
غزہ میں حماس کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 54,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ وزارت صحت یہ واضح نہیں کرتی کہ ہلاک شدگان میں عام شہری اور عسکریت پسند کی تعداد کتنی ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ، رابعہ بگٹی
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے نتیجے میں ہے کہ وہ حملے کے
پڑھیں:
جنگ بندی کی ضمانتوں کے بغیر اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کرینگے، حماس کا اعلان
اپنے تازہ ترین اقدام میں قابض اسرائیلی رژیم نے امریکی ثالث کیجانب سے پیش کردہ معاہدے کو ماننے سے بھی انکار کر دیا کہ جس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ قابض و سفاک صیہونی رژیم، غزہ میں جنگ کو روکنے سے مکمل طور پر انکاری ہے! اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے مرکزی رہنما محمود المرداوی نے اعلان کیا ہے کہ قابض صیہونی رژیم نے جنگ بندی کی اس تجویز کو قبول نہیں کیا کہ جس پر فلسطینی مزاحمت اور امریکی ثالث نے اتفاق کیا تھا۔ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اس اقدام سے اسرائیل کا مقصد "اپنے اندرونی مسائل کو سلجھانا" ہے، محمود المرداوی نے کہا کہ ہماری قوم کو بھوک سے مار ڈالنے پر مبنی اسرائیل کی گھناؤنی پالیسی آزاد دنیا کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے حماس کے مرکزی رہنما نے تاکید کی کہ اسرائیل جنگ بندی کے پہلے ہی دن اپنے 10 قیدیوں کو رہا کروانے کا مطالبہ کر رہا ہے، وہ بھی معاہدے کی دیگر شقوں کے نفاذ کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی ضمانت فراہم کئے بغیر!
اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسرائیل انسانی ہمدردی کے پروٹوکول کی کم سے کم شقوں کو بھی قبول کرنے پر تیار نہیں، محمود المرداوی نے کہا کہ ہم وہ معاہدہ چاہتے ہیں کہ جو ہم نے امریکی ثالث کے ساتھ کیا تھا، لیکن کافی ضمانتوں کے بغیر اس معاہدے کی کوئی اہمیت نہ ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی ثالث اسٹیو وٹکاف نے قبل ازیں جنگ بندی کے لئے پیش کردہ ہماری تجاویز کے ساتھ مکمل طور پر اتفاق کیا تھا لیکن آخر کار اسرائیلی فریق کی خواہش کے باعث وہ اس متفقہ مسودے سے پیچھے ہٹ گیا۔ حماس کے رہنما نے غاصب صیہونی رژیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنگ بندی کی خاطر خواہ ضمانتوں کے بغیر، 10 اسرائیلی قیدیوں کو کسی بھی صورت رہا نہیں کریں گے!!