Express News:
2025-07-23@23:54:29 GMT

ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صدر جنید اکبر نے کہا ہے کہ ہمارے پاس اب کوئی آپشن نہیں بچا، اس لیے ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں حتمی مشاورت جاری ہے۔ ہم لڑنا نہیں چاہتے لیکن ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں چھوڑا گیا ہے۔ صدر پی ٹی آئی کے پی جو قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مکمل سرکاری مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ 

ان کا اشارہ موجودہ حکومت کی طرف ہے کہ جس نے ان کے لیے کوئی آپشن نہیں چھوڑا جس کی وجہ سے ہم بااختیار لوگوں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما رؤف حسن کا کہنا ہے کہ مذاکرات انھی کے ساتھ ہوتے ہیں جن کے پاس طاقت ہوتی ہے۔

ہم مذاکرات کسی ڈیل کے لیے نہیں کرنا چاہتے۔ موجودہ حکومت کے پاس ہمیں کچھ دینے یا ہم سے مذاکرات کے لیے کچھ نہیں اسی لیے ہمارے حکومت کے ساتھ مذاکرات اگر ہو رہے ہیں تو کسی ڈیل کے لیے نہیں ہو رہے۔ پی ٹی آئی، حکومت سے مذاکرات سے انکاری بھی نہیں ہے تو قوم کو بتائے کہ اگر مذاکرات ہو رہے ہیں تو کس لیے ہو رہے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو کچھ دینے کی طاقت ہی نہیں ہے۔

 حساس تنصیبات اور فوجی شہدا کی یادگاروں پر دو سال قبل پی ٹی آئی نے حملے کرائے تھے جس کی وجہ سے ان کے بانی سمیت متعدد عہدیداروں اور کارکنوں پر مقدمات قائم ہوئے تھے جن کی سماعت جاری بھی ہے اور کچھ سزائیں اور رہائیاں بھی ہو چکی ہیں مگر بانی اور دیگر رہنماؤں کے مقدمات کے فیصلے ہونا باقی ہیں ۔

معافی کا آپشن واپس نہیں لیا گیا ہے اور پی ٹی آئی رہنما کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے ان کے لیے کوئی آپشن نہیں چھوڑا جس کے بعد ہمارے پاس اب سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا مگر ہم مذاکرات طاقتوروں کے ساتھ ہی کرنا چاہیں گے یا پھر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوں گے۔

پی ٹی آئی نے سڑکوں پر سات ماہ بعد پھر آنے کی بات کی ہے، جس کا اسے ماضی میں کوئی فائدہ ہوا تھا اور نہ اب ہوگا۔ پی ٹی آئی سڑکوں پر ناکامی پر گزشتہ تجربات کے بعد بھی پھر سڑکوں پر آئی تو حکومت ہی اس سے نمٹے گی کیونکہ اسلام آباد اور ڈی چوک وفاقی حکومت کے پاس ہے جس نے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو پہلے وہاں آنے دیا اور نہ اب آنے دے گی اور نہ پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات چاہتی ہے۔ مذاکرات دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جاتے ہیں مگر پی ٹی آئی سڑکوں پر آ کر حکومت کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے ۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کا ہر بار طاقتوروں سے مذاکرات کا اظہار ہوتا رہا ہے اور دوسری جانب پی ٹی آئی کے لیے اپنی حرکتوں پر معافی مانگنے کا آپشن موجود ہے ۔ہو سکتا ہے کہ جلد سانحہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور عمل کرانے والوں کے بارے میں بھی عدالتی فیصلے آجائیں ۔

پی ٹی آئی سڑکوں پر آنے کی جو خواہش رکھتی ہے وہ خواہش اب 10 مئی کی عسکری کامیابی کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچتی نظر نہیں آ رہی اور وہ حکومت کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر بار بار اصرار کر رہی ہے جس کا امکان فی الحال نظر نہیں آرہا ۔

اس لیے پی ٹی آئی کے پاس صرف ایک ہی آپشن باقی ہے جو معافی مانگنے کا ہے اور دو سال سے صورت حال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کبھی 9 مئی کرانے سے انکار کرتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ 9 مئی پر پکڑے جانے والے ہمارے کارکن ہی نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے پی و بعض رہنما تسلیم بھی کرتے ہیں کہ سانحہ 9 مئی بانی کی گرفتاری کا رد عمل تھا ۔ بانی اور پی ٹی آئی والوں کا یہ حال ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔

پی ٹی آئی کی اکثریت سمیت ملک و قوم کو پتا ہے کہ 9 مئی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا جس میں پی ٹی آئی مکمل طور پر ملوث تھی مگر وہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے ماننے کو تیار نہیں۔ پاکستان کی کسی بھی جماعت نے اب تک 9 مئی جیسا حملہ نہیں کرایا تھا جب کہ پی پی نے اپنے بانی کی پھانسی اور محترمہ کی شہادت اور (ن) لیگ نے اپنی تین حکومتوں کے خاتمے پر کوئی اس انتہا پر نہیں گیا تھا جہاں پی ٹی آئی اپنے بانی کی قانونی گرفتاری پر چلی گئی تھی۔

10 مئی کے بعد بھی بھارتی جارحیت کا خطرہ سر پر موجود ہے جو جلد ٹلتا نظر نہیں آرہا اور پی ٹی آئی بانی کے لیے سڑکوں پر پھر آ کر اپنی مشکلات بڑھانا چاہتی ہے جس پر وہ پھر ناکام ہو گی اور بھارتی جارحیت سے جو قومی یک جہتی سامنے آئی ہے اس کے بعد ضروری ہے کہ بانی اپنی غلط پالیسی بدلیں اور سانحہ 9 مئی پر صدق دل سے معافی مانگیں اور اپنی سیاست کے بجائے ملک کا مفاد مقدم رکھیں ۔ ہر جگہ غصہ اور جذبات کام نہیں آتے اس لیے کھلے دل سے غلطی مان کر سڑکوں پر آنے کے بجائے سوچ سمجھ اور بردباری کا مظاہرہ ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کوئی آپشن نہیں پھر سڑکوں پر سڑکوں پر آنے پی ٹی آئی کے سے مذاکرات حکومت کے رہے ہیں کے بعد ہے اور ہو رہے کے لیے کے پاس

پڑھیں:

یوکرینی اور روسی وفود میں مذاکرات کا تیسرا دور آج

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) یوکرین جنگ پر بات چیت کے لیے کییف اور ماسکو کے حکام تیسرے دور کے مذاکرات کے لیے ترکی کے شہر استنبول میں بدھ کے روز ملاقات کرنے والے ہیں۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ اس میٹنگ کے دوران تنازعے کے خاتمے سے زیادہ توجہ اس بات پر ہو گی کہ جنگی قیدیوں کے تبادلے کا عمل مزید کیسے آگے بڑھایا جائے۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے بات چیت سے قبل توقعات کو کم کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات چیت ممکنہ طور پر جنگ بندی کی تفصیلات کے بجائے جنگی قیدیوں کے تبادلے کے دوسرے دور پر مرکوز ہو گی۔

انہوں نے کییف میں سفارت کاروں کو بتایا، "ہمیں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں مزید رفتار کی ضرورت ہو گی۔"

ادھر کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بھی کہا کہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے "بڑے سفارتی کام" کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

بات چیت میں تنازعے کا ایک اہم نکتہ کییف کا غیر مشروط طور پر جنگ بندی کا مطالبہ ہے، جبکہ اس حوالے سے روس نے بھی اپنے بیشتر مطالبات کو برقرار رکھا ہے۔ ان مطالبات میں ماسکو کے غیر قانونی طور پر الحاق کیے گئے ملک کے مشرقی علاقوں سے یوکرینی فوجیوں کا مکمل انخلاء بھی شامل ہے۔

یوکرین میں زیلنسکی کے خلاف مظاہرے

صدر وولودیمیر زیلنسکی نے انسداد بدعنوانی سے متعلق دو اداروں کی خود مختاری کو محدود کرنے کے لیے ایک متنازعہ بل پر دستخط کیے ہیں، جس کی وجہ سے منگل کے روز دیر گئے یوکرین کے دارالحکومت کییف اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد مظاہرے کے لیے جمع ہوئے۔

قانون میں ان تبدیلیوں سے پراسیکیوٹر جنرل کو ایسے معاملات کی تحقیقات اور مقدمات پر نیا اختیار حاصل ہو جائے گا، جو اصل میں یوکرین کے انسداد بدعنوانی کے قومی بیورو اور خصوصی انسداد بدعنوانی کے پراسیکیوٹر آفس کے ماتحت آتے ہیں۔

بعض یورپی یونین کے عہدیداروں سمیت دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے دونوں ایجنسیوں کی آزادی نمایاں طور پر کمزور ہو جائے گی اور کسی بھی طرح کی تحقیقات میں زیلنسکی کے حلقے کو زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہو گا۔

ان دونوں ایجنسیوں نے بھی ٹیلی گرام پر ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اگر حقیقت میں یہ بل قانون بن جاتا ہے، تو یہ ادارے اپنی آزادی کھونے کے ساتھ ہی پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کے ماتحت آ جائیں گے۔

منگل کے روز کا یہ احتجاج غیر معمولی نوعیت کا تھا، کیونکہ جنگ کے دوران ایسی بیشتر ریلیوں کی توجہ گرفتار شدہ فوجیوں یا لاپتہ افراد کی واپسی پر مرکوز رہی ہے۔

یوکرین کے ایک بلاگر اور کارکن، جن کے ایک ملین سے زیادہ آن لائن فالوور ہیں، نے اس احتجاج میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ "بدعنوانی کسی بھی ملک میں ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس سے ہمیشہ لڑنا ضروری ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یوکرین کے پاس اس جنگ میں روس کے مقابلے میں بہت کم وسائل ہیں۔ "اگر ہم ان کا غلط استعمال کرتے ہیں، یا اس سے بھی بدتر، انہیں چوروں کی جیبوں میں جانے دیتے ہیں، تو پھر ہماری جیت کے امکانات مزید کم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے تمام وسائل کو لڑائی کی طرف جانا چاہیے۔"

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • مسائل بندوق سے نہیں، مذاکرات سے حل ہوتے ہیں، ینگ پارلیمنٹری فورم
  • تین اہم سیاسی جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
  • پنجاب حکومت کا گھوڑوں کی خاص نسل کی ترویج کے منصوبے پر کام کرنے کا فیصلہ
  • یوکرینی اور روسی وفود میں مذاکرات کا تیسرا دور آج
  • حج رجسٹریشن کی تعداد میں اضافہ، حج کوٹے میں بھی اضافے کے لیے رابطے کا فیصلہ
  • بی جے پی کا بی سی سی آئی کو حکومت کے ماتحت کرنے کا فیصلہ، اس سے کیا فرق پڑے گا؟
  • 9 مئی کے کیس میں انصاف کا بول بالا ہوا ہے، بیرسٹر عقیل
  • 5 اگست کو مینار پاکستان جلسہ، اب مذاکرات نہیں تحریک چلے گی: بیرسٹر گوہر 
  • حکومت کو قانون ناموسِ رسالت ﷺ سے چھیڑ چھاڑ مہنگی پڑے گی، جواد لودھی
  • مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا، اب وہی ہوگا جو عمران خان ہدایات دیں گے: بیرسٹر گوہر