لی جے مایونگ جنوبی کوریا کے نئے صدر کے عہدے پر فائز
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جون 2025ء) جنوبی کوریا کے نئے صدر لی جے مایونگ نے دارالحکومت سیئول میں مقامی وقت کے مطابق بدھ کی علی الصبح قومی اسمبلی میں ایک مختصر افتتاحی تقریب کے دوران حلف لیا۔
اس تقریب کے بعد ایک تقریر میں انہوں نے جنوبی کوریا کی سست رو معیشت کو بحال کرنے اور مفاہمت کا ایک پل بنانے کا عزم کیا۔
نئے صدر اور ان کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کو ایک ایسی معیشت وراثت میں ملی ہے، جس کے رواں برس میں صرف 0.
جنوبی کوریا: یون سک یول کا مواخذہ کیاجائے گا، عدالت
نئے صدر کو ایک ایسے ملک کو متحد کرنے کی بھی ضرورت ہو گی جو دسمبر 2024 میں مواخذے کے شکار سابق صدر یون سک یول کی طرف سے مارشل لاء لگانے کی کوشش کے ذریعے دو مختلف سیاسی خیموں میں تقسیم ہے۔
(جاری ہے)
اپنے خطاب میں لی نے زور دیا کہ "مارشل لا بحران" کے بعد جمہوریت کی بحالی کا وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جزیرہ نما کوریا میں امن کے لیے شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ "خواہ کتنا ہی مہنگا کیوں نہ ہو، امن جنگ سے کہیں بہتر ہے۔"
جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول کو رہا کر دیا گیا
ملک کو متحد کرنے کی کوششانہوں نے قومی اسمبلی کو بتایا، "میں معیشت کو بحال کرنے اور لوگوں کو بہتر کرنے کے ساتھ شروعات کروں گا۔
قطع نظر اس کے کہ آپ نے اس الیکشن میں کس کی حمایت کی ۔۔۔۔۔ میں تمام لوگوں کا صدر ہوں گا۔"لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار لی تقریباً 50 فیصد ووٹ لے کر منتخب ہوئے ہیں۔
انہوں نے ملک کی سیاسی افراتفری کا الزام "سیاسی دھڑوں پر لگایا جو لوگوں کی زندگیوں کے لیے کام کرنے کی خواہش سے مطابقت نہیں رکھتے۔"
انہوں نے کہا، "میں لوگوں کو متحد کرنے کے لیے کام کروں گا۔
ایک ایسا صدر بنوں گا، جو تقسیم کی سیاست کا خاتمہ کرے گا۔"لی نے ایک "لچکدار، عملی حکومت" بنانے کا بھی وعدہ کیا اور اعلان کیا کہ ایک ہنگامی اقتصادی ٹاسک فورس کو "فوری طور پر فعال" کر دیا جائے گا۔
جنوبی کوریا: فوجی مشق کے دوران گولے شہری علاقے پر گر گئے
جنوبی کوریا کے نئے صدر لی جے کون ہیں؟لی جے مایونگ کی زندگی اتار چڑھاؤ سے بھری ہے۔
ان کی زندگی کی ابتدا ایک بچہ مزدور کے طور پر ہوئی اور اب وہ ملک کی قیادت میں سب سے اعلی مقام پر پہنچ گئے ہیں۔لی کا خاندان ان کی ثانوی تعلیم کا بھی متحمل نہیں تھا، اس لیے ایک ابتدائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہیں سیئول کے قریب شہر سیونگنم میں مختلف فیکٹریوں میں کام کرنا پڑا۔
بیس بال کے دستانے تیار کرنے والی ایک فیکٹری میں کام کے دوران وہ اپنے بائیں بازو کو پریس مشین سے کچل بیٹھے تھے، جس کی وجہ سے ان کا بازو مستقل طور پر معذور ہو گیا تھا۔
مایوس ہو کر لی نے ایک بار خودکشی کی بھی کوشش کی تھی۔تاہم اپنے مشکل آغاز کے باوجود لی نے انسانی حقوق کا وکیل بننے سے پہلے مکمل اسکالرشپ پر سیول کی چنگ-اینگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
جنوبی کوریا کے معطل صدر یون سک یول گرفتار
لی نے سن 2017 میں شائع ہونے والی اپنی ایک یادداشت میں لکھا، "امیدیں اور آزمائشیں ہمیشہ ایک ساتھ آتی ہیں۔
آزمائشیں لوگوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کرتیں، بلکہ یہ وہ جانچتی ہیں کہ امیدیں کتنی سنجیدہ اور خواہش سے پر ہیں۔"لی نے 2005 میں سیاست میں قدم رکھا اور بعض الیکشن لڑنے کی کوشش میں ناکام رہے۔ پھر سن 2010 میں سیونگنم کے میئر منتخب ہوئے اور 2014 میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ بعد میں انہوں نے تین برس سے زیادہ عرصے تک، ملک کے سب سے زیادہ آبادی صوبے جیونگی کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
سن 2022 کے صدارتی انتخابات میں وہ یون سک یول سے اتنے کم فرق سے ہار گئے کہ جسے جنوبی کوریا کی انتخابی تاریخ میں سب سے کم فرق کہا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا: عدالت نے صدر یون کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے
امریکہ کا رد عملوائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا کے انتخابات منصفانہ ہیں تاہم اس نے چین کے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جنوبی کوریا کی یونہاپ نیوز ایجنسی کو دیے گئے ایک بیان میں، ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ جنوبی کوریا کے انتخابات "آزادانہ اور منصفانہ" تھے۔
لیکن عہدیدار نے کہا کہ امریکہ "دنیا بھر کی جمہوریتوں میں چینی مداخلت اور اثر و رسوخ کے بارے میں فکر مند اور اس کا مخالف ہے۔"
دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے صدر لی جے مایونگ کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ "امریکہ اور جمہوریہ کوریا ہمارے باہمی دفاعی معاہدے، مشترکہ اقدار اور گہرے اقتصادی تعلقات پر مبنی اتحاد کے لیے ایک فولادی عہد کا اشتراک کرتے ہیں۔"
ادارت: جاوید اختر
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنوبی کوریا کے لی جے مایونگ انہوں نے کے بعد
پڑھیں:
کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ تارا محمود نے اپنے والد کے سیاسی پس منظر کو چھپائے رکھنے کی وجہ پر سے پردہ اُٹھا دیا۔
حال ہی میں اداکارہ نے ساتھی فنکار احمد علی بٹ کے پوڈ کاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف امور پر کھل کر بات چیت کی۔
دورانِ انٹرویو انہوں نے انکشاف کیا کہ میرے قریبی دوست احباب یہ جانتے تھے کہ میں شفقت محمود کی بیٹی ہوں اور ان کا سیاسی پس منظر کیا ہے لیکن کراچی میں یا انڈسٹری میں کسی نہیں ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں نے شوبز میں کام شروع کیا تو مجھے کراچی آنا پڑا، اس دوران والد نے سیکیورٹی خدشات کے سبب مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ کسی کو بھی اس بارے میں نہ بتایا جائے۔ تاہم ڈرامہ سیریل چپکے چپکے کی شوٹنگ کے دوران سوشل میڈیا پر والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوگئیں۔
اداکارہ نے کہا کہ والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوئیں تو تھوڑی خوفزدہ ہو گئی تھیں کیونکہ مجھے توجہ کا مرکز بننا نہیں پسند۔
انہوں نے بتایا کہ کوویڈ کے پہلے سال کے دوران وبائی مرض کے سبب اسکول بند کرنے پڑے تو بابا ہیرو بن گئے تھے لیکن جب انہوں نے دوسرے سال اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں کئی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔
تارا محمود نے چپکے چپکے کے سیٹ پر پیش آنے والا ایک دلچسپ قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب یہ بات منظر عام پر آئی کہ میرے والد کون ہیں تو ایک دن میں شوٹ پر جاتے ہوئے اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے سیٹ پر پہنچی تو ہدایتکار دانش نواز مجھ سے مذاق کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود سیکیورٹی کیوں نہیں رکھتیں اور خود گاڑی کیوں چلاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے کبھی بھی اپنے والد کے اثر و رسوخ یا طاقت کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
واضح رہے کہ تارا محمود کے والد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہنے والے شفقت محمود ہیں۔
انہیں طلبہ کے درمیان کوویڈ کے دوران امتحانات منسوخ کرنے اور تعلیمی ادارے بند کرنے کے سبب شہرت حاصل ہوئی۔
فلم میں رہے کہ شفقت محمود نے جولائی 2024 میں سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا تھا۔
Post Views: 5