جنوبی کوریا میں لی جے مینگ کی تاریخی جیت، صدارتی انتخابات میں شاندار کامیابی
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
جنوبی کوریا کے صدارتی انتخابات میں اپوزیشن لیڈر ’لی جے مینگ‘ نے واضح برتری حاصل کرتے ہوئے کامیابی سمیٹ لی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق لی جے مینگ نے اپنی تقریر میں عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ملکی اتحاد اور معاشی اصلاحات کو اپنی ترجیح قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا ممکنہ فیصلہ جنوبی کوریا کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے، امریکی جنرل
انتخابی نتائج کے مطابق، لی جے مینگ نے حریف امیدوار کو کافی بڑے فرق سے شکست دی ہے، جسے سیاسی مبصرین ’لینڈ سلائیڈ وکٹری‘ قرار دے رہے ہیں۔
ان کی کامیابی کو جنوبی کوریا کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر معیشت اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے۔
لی جے مینگ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک میں ’منصفانہ معیشت‘ کو فروغ دیں گے اور کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔
جنوبی کوریا کے صدارتی انتخابات 2025 کا پس منظر:جنوبی کوریا میں یہ صدارتی انتخابات قبل از وقت (snap election) منعقد ہوئے، جس کی بنیادی وجہ سابق صدر ’یون سوک یول‘ کی حکومت کے خلاف عوامی غم و غصہ تھا۔
گزشتہ 2 سالوں میں ملک کو درپیش مسائل نے سیاسی بحران کو جنم دیا:
معاشی بدحالی:– بے روزگاری اور مہنگائی نے متوسط طبقے کو بری طرح متاثر کیا۔
– نوجوانوں میں روزگار کے مواقع کم ہونے سے مایوسی پھیلی۔
– سابق صدر یون پر خود اور ان کے اتحادیوں پر **رشوت ستانی** کے سنگین الزامات لگے۔
– عوامی احتجاجات کے بعد ان کی حمایت میں تاریخی کمی آئی۔
سیاسی تقسیم:– حکمران جماعت ’پیپلز پاور پارٹی‘ اور اپوزیشن لیڈر ’لی جے مینگ‘ کی ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ کے درمیان کشمکش شدت اختیار کر گئی۔
نارتھ کوریا کے ساتھ تعلقات:– سابق حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کے باعث دونوں کوریاؤں کے مذاکرات جامد ہو گئے تھے، جس سے عوام میں عدم اطمینان بڑھا۔
لی جے مینگ کی کامیابی کی وجوہات:– انہوں نے ’معاشی انصاف‘ کے نعرے کے ساتھ غریب اور متوسط طبقے کی حمایت حاصل کی۔
– نوجوانوں کو روزگار کے وعدوں اور کرپشن کے خلاف جنگ کا یقین دلایا۔
– شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کا پرامید پلان پیش کیا۔
نتیجہ:عوامی مینڈیٹ نے لی جے مینگ کو 60 فیصد ووٹ دے کر واضح برتری دی، جو 1997 کے بعد سب سے بڑی جیت ہے۔ اب ان کی حکومت کو معیشت اور خارجہ پالیسی کے چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جنوبی کوریا جنوبی کوریا الیکشن سابق صدر یون لی جے مینگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جنوبی کوریا جنوبی کوریا الیکشن سابق صدر یون لی جے مینگ صدارتی انتخابات جنوبی کوریا لی جے مینگ کوریا کے کے ساتھ
پڑھیں:
بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔
تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔
اہم جماعتیں کون سی ہیں؟شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔
ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
(جاری ہے)
آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
یونس کی پوزیشن کیا ہے؟ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘
امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔
‘‘یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔
فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔
فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔
گروپ کیوں منقسم ہیں؟اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔
یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔
نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔
‘‘بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔
دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔
جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔
‘‘این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔
انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘
جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔
جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔
بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔
بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
‘‘یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔
آگے کیا چیلنجز ہیں؟عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔
عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔
انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔
ادارت: صلاح الدین زین