آئینِ انسانیت ; خطبۂ حجۃ ّالوداع میں احترام
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
جب آفتابِ رسالت ﷺ نے ظلمت کدۂ عالم کے ہر گوشے کو روشن کردیا تو اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا اور حاکمیت الٰہی کا بول بالا ہوگیا اور مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت تیار ہوگئی جو دین حنیف کو پورے عالم میں پہنچانے کا فریضہ بہ حسن و خوبی سرانجام دے سکتی تھی۔
رسول کریم خاتم المرسلین ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ اب امت مسلمہ کے لیے شریعت، اخلاق اور اسلام کے بنیادی اصولوں کا مجمع عام میں اعلان کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے حج سے بہتر کوئی اجتماع ممکن نہ تھا۔ چناں چہ حضورِ اکرم ﷺ نے اعلان فرمایا کہ دس ہجری کو نبی کریم ﷺ حج کی سعادت حاصل فرمائیں گے۔ یہ اعلان سنتے ہی ہم رکابی کے لیے تقریباً سوا لاکھ مسلمان جمع ہوگئے۔
چوں کہ یہ رحمت دو عالمؐ کا یہ پہلا اور آخری حج تھا اسی نسبت سے حجۃ الوداع کے نام سے موسوم ہُوا۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ سے اپنے اس مقدس سفر کا آغاز فرمایا اور تمام ازواج مطہراتؓ کو ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ ذوالخلیفہ (جو مدینہ کا میقات ہے) میں رات گزاری، صبح غسل فرمایا، احرام باندھا، دو رکعت نماز ادا کی پھر قصواء پر سوار ہوئے یہیں سے لبّیک اللّھم لبّیک بلند فرمایا۔ جب یہ مقدس قافلہ احرام کے ساتھ مکہ کی سمت چل پڑا تو راستے میں ہر قبیلے کے لوگ ہم رکاب ہوتے جاتے تھے۔ آپ ﷺ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اور جب کعبۃ اﷲ پر نظر پڑی تو فرمایا: ’’اے اﷲ! اس گھر کو اور زیادہ عزت اور شرف دے۔‘‘
میدان عرفات میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمانوں کا اجتماع تھا جن کے قلوبِ صافی سے توحید اور عشق الٰہی کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہے تھے۔ تکبیر، تہلیل، تمجید و تقدیس سے فضا معطر تھی۔
جب سورج ڈھلنے لگا تو نبی کریم ﷺ ناقہ پر تشریف فرما ہوئے اور وہ مشہور تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جو تمام اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور حقوق و فرائض کا ابدی و عالمی منشور اعظم ہے۔ یہ خطبہ مسلمانان عالم کے لیے ابدی آئین اور ابدی پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خطبہ آج بھی اسی اہمیت کا حامل ہے جتنا پندرہ سو سال قبل تھا۔ خطبہ حجۃ الوداع سمندر کو کوزے میں سمو دینے کے مترادف ہے۔
امام الانبیاء ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا، مفہوم: ’’لوگو! میری بات غور سے سنو کیوں کہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد بھی میں کبھی اس موقع پر تمہارے درمیان ہوں گا۔‘‘
خطبہ حجۃ الوداع کے مفہوم کو درج ذیل عنوانات کے تحت احاطۂ تحریر میں لایا جاتا ہے۔ معاشرتی احکامات۔ معاشی اصلاحات۔ سیاست سے متعلق ہدایات اور تکمیل دین۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’خبردار! زمانۂ جاہلیت کی تمام رسومات میرے قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیں۔ زمانۂ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں۔ اور سب سے پہلے ربیعہ بن الحراث ابن عبدالمطلب کے خون کا قصاص موقوف کیا جاتا ہے۔‘‘
’’سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘ لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک! تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فوقیت نہیں مگر تقویٰ کے سبب۔‘‘
حقوق نسواں: حضور پاکؐ نے ارشاد فریایا: ’’عورتوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرتے رہو، ان کے بارے میں اﷲ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں اﷲ کے نام پر حاصل کیا ہے اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لیے حلال ہوئی ہیں۔ اے لوگو! تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح تم پر بھی ان کے حقوق ہیں۔ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اجازت کے بغیر کسی کو دے۔ عورت کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی کام کھلی بے حیائی کا کریں۔‘‘
غلاموں کے حقوق: ’’غلاموں کا خیال رکھو۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ تم جو کچھ خود کھاؤ انہیں بھی کھلاؤ اور جو خود پہنو، وہی انہیں بھی پہناؤ۔ دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں تلے روند دیا۔‘‘
جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’لوگو! (خوب اچھی طرح سمجھ لو) ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ لوگو! تمہارے خون، مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی ہی محترم ہیں جیسا کہ تمہارے لیے آج کا دن، یہ شہر اور یہ حرمت والا مہینہ محترم ہے۔ تم سب اﷲ کے آگے جاؤگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس فرمائے گا۔‘‘
معاشی اصلاحات: سود کی حرمت، دور جاہلیت کا سود معاف ہے۔ پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سُود ہے۔ اب سود ختم ہوگیا۔
وراثت: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگو! اﷲ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا اب کوئی کسی وارث کے حق کے لیے وصیت نہ کرے۔ جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے آقا کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا آقا ظاہر کرے گا اس پر اﷲ کی لعنت ہے۔‘‘
قرض کی ادائی: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ قرض ادا کیا جائے، امانت واپس کی جائے، کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور وہ خوشی خوشی دے۔ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے۔ تحفے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کسی کا ضامن ہو وہ تاوان ادا کرے۔
سیاست سے متعلق ہدایات: حضور پاکؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر کوئی نکٹا اور سیاہ فام حبشی غلام بھی تمہارا امیر بنادیا جائے اور وہ کتاب اﷲ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم پر اس کی اطاعت لازم ہے۔‘‘
دین سے متعلق ہدایات: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور تمہارے بعد کوئی اور نئی امت نہیں۔‘‘ میں تم میں قرآن و سُنّت چھوڑے جارہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی گم راہ نہیں ہوگے۔ لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغے سے بچو کیوں کہ تم سے پہلی بہت سی قومیں مذہب میں غلو کرنے کے سبب برباد ہوگئیں۔‘‘
’’ لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، مہینے بھر کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی سے دیتے رہو۔ اپنے رب کے گھر کا حج کرو اور اپنے اولامر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنّت میں داخل ہوجاؤ گے۔‘‘
تکمیل دین: اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تکمیل دین کے بارے میں سورۃ المائدہ کی آیات نازل فرمائی جس کا مفہوم حسب ذیل ہے۔
’’آج تمہارا دین مکمل ہوا۔ میں نے اپنی نعمتیں پوری کردیں اور میں تم سے تمہارے اس دین کی وجہ سے راضی ہوگیا۔‘‘
پھر حضور پاکؐ نے ارشاد فرمایا: خبردار! جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ میری بات ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں۔ کیوں کہ بہت سے لوگ جن کو میرا پیغام پہنچے گا، وہ ان لوگوں سے زیادہ اسے محفوظ رکھنے والے ہوں گے جو اس وقت سننے والے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے اس خطبے کے آخر میں ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں سے میرے متعلق پوچھا جائے گا بتاؤ! تم میرے بارے میں کیا جواب دو گے۔ حاضرین نے یک زبان ہوکر عرض کیا ہم گواہی دیتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے امانت دین پہنچادی اور نبی کریم ﷺ نے حق رسالت ادا فرمایا اور ہماری خیر خواہی فرمائی۔ یہ جواب سن کر حضور اکرم ﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: ’’اے اﷲ! گواہ رہنا، اے اﷲ! گواہ رہنا، اے اﷲ! گواہ رہنا۔‘‘
خاتم الانبیاء سرور کائناتؐ نے مندرجہ بالا خطبہ حجۃ الوداع میں احترام انسانیت اور حقوق و فرائض کا جو فلسفہ پیش کیا ہے اس پر سختی سے عمل درآمد کرکے ہی ناصرف مسلمانان عالم بل کہ پوری دنیا مثالی اور پُرامن معاشرے کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے اس خطے میں ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ میں تمہارے درمیان دین و ہدایت چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان کو پکڑے رہو گے کبھی گم راہ نہ ہوگے۔
بدقسمتی سے آج ہم نے قرآن و سنّت سے دُوری اختیار کی ہوئی ہے اگر ہم اپنی موجودہ پستی و زوال کے اسباب پر غور کریں اور سوچیں کہ آج اہل ایمان ہی ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ماضی کے مسلمان فاتح حکم ران اور ان کی عظمت کی داستانیں ماضی کا حصہ بن گئیں؟ کیا وجہ ہے کہ ماضی کے مسلم سائنس دان، علمائے کرام اور دانش ور ہر شعبے میں ترقی کے مدارج طے کرتے چلے گئے اور راہ نما بن کر اسلام کا نام روشن کرتے رہے۔ دراصل قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا عروج قرآن و سنتِ نبی کریم ﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کے باعث تھا۔
آئیے! اب ہم عہد کریں کہ ہم قرآن اور اسوۂ نبویؐ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر حال کو ماضی سے بہتر اور مستقبل کو حال سے بہتر بنائیں گے۔ (آمین)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا حجۃ الوداع اکرم ﷺ نے اور وہ کے لیے ہے اور
پڑھیں:
ڈپریشن یا کچھ اور
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جوکسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس اور بے زار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے بسی، بے چینی آپ پر سوار ہے تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق ہمارے مسائل سے لے کر ہماری صحت سے جڑا ہے۔ اس کے مریض معمولی سے مسائل کو بھی بڑے اورخوفناک تصور کرتے ہیں یا انھیں ایسا مایوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک عام سا مسئلہ اس قدر عظیم اور مشکل ہے جو ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ بے چین، مضطرب، مایوس اور بے زار رہتے ہیں۔
ان کے ہاتھ پیر سرد ہو جاتے ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں،گھٹن کا احساس ہوتا ہے، چہرہ اتر جاتا ہے اور یہی کیفیات مختصر اور طویل دورانیے کے بعد حقیقتاً انھیں بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی ادویات جو بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اہم وجہ افسردگی و دکھ کو قرار دیا جاتا ہے، اگرکوئی شخص کسی صدمے میں مبتلا ہو اور اس کا صدمہ جو جذباتی، جنسی یا جسمانی زیادتی کے باعث دماغ پر نقصان دہ اثرات مرتب کرگیا تو یہ صدمہ ’’ ٹراما‘‘ کہلاتا ہے، یہ ٹراما بہت مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریض ایک مدت تک اپنے دکھ غم میں مگن رہتا ہے، وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ ڈپریشن اس کی صحت کے لیے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔
اسی سے جڑے ایسے ٹراما ابھرکر آتے ہیں جو انسان کی زندگی کے ان واقعات سے منسوب ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں اچانک ہوتے ہیں جیسے کسی عزیزکی موت، نوکری کا چلے جانا، انتہائی بے عزتی اورگھر یا اس سے جڑے حالات و واقعات وغیرہ۔ ایسے ڈپریشن انتہائی نوعیت کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں جس میں انسان اپنے اضطراب، بے زاری، لاچاری اور کسی ردعمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں اپنی جان دے کر اس ردعمل کو شو کرنا چاہتا ہے۔
دراصل وہ اس کے ڈپریشن اور مایوسی کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا اورکہا گیا ہے، سب آگے پیچھے ایک جیسی ہی باتیں، نشانیاں اور علاج سے منسلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے، راستے کا پتھر ہٹانے جیسے کاموں کو انجام دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر ’’ جی ڈپریشن کے باعث اپنی جان لے لی‘‘ اور قصہ ختم۔
انسانی زندگی ایسے حالات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو نشیب و فراز کا نام دے کر اسے جھیلنا ہی دراصل اس کی نشانی ہے۔
ورنہ کیا ایسا ہی ہے کہ دنیا میں آئے والدین جن کی زندگی میں کوئی مسئلہ یا ڈپریشن نہیں؟ پالا پوسا اور کامیابی سے تعلیمی اور دیگر مراحل عبورکرتے عملی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ وقت کندن بنا دیتا ہے جب کندن بننا ہی نہیں تو ڈپریشن کیسا اور اگر کندن بننا ہے تو ڈپریشن سے لڑنا تو پڑے گا، ہر کامیاب انسان اپنی زندگی میں ڈپریشن میں ضرورگھرتا ہے چاہے وہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، جسے زندگی کا نشیب بھی کہا جا سکتا ہے۔
پھر بھی اگر یہ مرض انسان کے ہاتھ سے نکلتا خودکشی جیسے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہو، تو آج کل خودکشی سے متعلق آگاہی اور روک تھام کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں خاص کر زیرو سوسائیڈ الائنس مفت آن لائن تربیت فراہم کرتا ہے۔
یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پیاروں کے لیے فکر مند ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک میں ہمارے مشرقی اقدار کے برخلاف تنہائی سب سے بڑا عذاب ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں ڈپریشن کی آخری حد تک شکار کرتا ہے لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ مرض تنہائی سے بڑھ کر ہجوم میں رہنے والوں کے لیے بھی عجیب پراسرار سے مسائل لے کر ابھر رہا ہے، جسے ’’ ڈپریشن‘‘ ہی کہا جا رہا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد کے ایک انتہائی قابل نوجوان پولیس کے افسر عدیل اکبر کے حادثے نے بھی ڈپریشن کے مسئلے پر سرخ نشان لگایا ہے۔ یہ افسر جو برائٹ اسکالر شپ پر امریکا جانے والا تھا، آخرکس قسم کے ڈپریشن کا شکار تھا، جو اس نے زیرو پوائنٹ پر جا کر اپنی زندگی ختم کر ڈالی؟
دوسروں پر پستول تاننا اور اپنے اوپر حملہ کرنا، بہت اذیت ناک ہے لیکن لمحہ بھر میں زندگی کی آخر وہ کون سی جھنجھٹیں تھیں جن سے چھٹکارے کے لیے عدیل اکبر نے نجات پا لی۔ کیا واقعی ان کی موت سے وہ سارے مسائل، دشواریاں ختم ہوگئیں، جو اس جوان کے زندہ رہنے پر آکاس بیل بن کر اس کے وجود سے چمٹتی کہیں اور کیا رخ کرتیں۔
سول ملازمین کے لیے ان کی ڈیوٹیاں، اختیارات جہاں قابل احترام بظاہر بڑے ٹھسے کے لگتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سے نرم خو اور رحم دل لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ بیوروکریسی ایک خواب ناک سفر ہے پر اس کی راہ میں کیا کچھ ہے، یہ ہم جیسے عام لوگ کیا جانیں، ہمیں تو فیصلے کرنے والے نظر آتے ہیں، کیا ان کے اعصاب بھی ایسے ہی لوہے کی مانند ہوتے ہیں جیسے کہ وہ نظر آنا چاہتے ہیں، پر حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے نفسیاتی طور پر فٹ رہنا ان کی کونسلنگ کرنا اور دیگر جسے ہم پاگلوں کا ڈاکٹرکہہ کر مزاحا ٹیگ لگا دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسانی جسم کا سردار اس کا دماغ جسے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا عہدہ حاصل ہے، اس کی نگرانی، صحت و نگہداشت کس قدر اہم ہے بہت توجہ دی جاتی ہے۔
اعلیٰ عہدوں پر لوگ دماغی طور پر اس قدر مضبوط بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بڑے حادثات اور مواقعے پر اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے کمیونٹی کے لیے فیصلے لیں۔عدیل اکبر سے پہلے بھی سول سروس کے کئی اور افسران بھی اسی طرح ڈپریشن میں اپنی جان گنوا چکے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کنٹونمنٹ بورڈ کے بلال پاشا بھی اپنے آپ کو گولی مار چکے ہیں، اس سے پہلے لاہور میں ریونیو کے عمران رضا عباسی، ایس پی ابرار حسین کے علاوہ اور بھی افسران اس فہرست میں نظر آ رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے معزز مقام پر پہنچ کر ایسی بے بسی اور مایوسی بھری موت کوئی اپنے لیے چنتا ہے توکیوں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے ملک کے قیمتی لوگوں نے اپنے لیے ایسی موت منتخب کی جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ہم فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں، دانت کھول کر، آنکھیں پھاڑکر پرتجسس اور خوفناک اب کیا ہوگا،کوئی غیر ملکی یا غیر مرئی ہاتھ ایک کے بعد ایک کس طرح لوگوں کو اپنی عفریت کا نشانہ بناتا ہے، آخر ایسا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
آنکھیں اختتام تک حیرت سے کھلی رہتی ہیں،کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اس پرجوش اور تلخ فلم میں پبلک کو ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے،کیا واقعی۔۔۔۔ یا نہیں؟ سوالات تو سر اٹھاتے ہیں۔