پاک امریکا تعلقات، نئے دورکا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ امریکا کی مداخلت پر پاک بھارت جنگ بندی ہوئی، صدر ٹرمپ نے ثابت کیا وہ امن کے پیامبر ہیں۔
انھوں نے پاکستان اور بھارت دونوں کو تجارت، سرمایہ کاری اور جنگ بندی کی تجویز دی۔ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں پاکستان ہمیشہ خطے میں امن استحکام اور خوشحالی کا خواہشمند رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے امریکی سفارتخانے میں امریکی یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ کے بعد پاکستان نے سفارتی محاذ پر بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ پاکستان کو اپنی سفارتی حکمت عملی کے باعث اقوام عالم کی اخلاقی اور سفارتی حمایت حاصل ہوئی ہے ۔
پاکستان نے جنگی محاذ پر چینی ٹیکنالوجی سے بھارت کو فوجی شکست سے دوچارکیا ، اس کے بعد سفارتی محاذ پر کامیابی یوں حاصل کی کہ امریکا کی حمایت حاصل کرلی، اب مسئلہ کشمیر کو عالمی ایجنڈے پر لانے کی پاکستان کی دیرینہ خواہش کی تکمیل بھی ہوگئی ہے۔ جموں وکشمیر جیسے بنیادی مسائل کے پائیدار حل کے لیے امریکا سمیت عالمی برادری کی مسلسل توجہ اور مداخلت ناگزیر ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جنوبی ایشیاء میں بالا دستی کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے، گو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور پالیسی جوں کی توں ہے لیکن بھارت کو حالیہ جنگ نے بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ عالمی سطح پر بھارت کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ داخلی طور پر مودی کو شدید سیاسی تنقید کا سامنا ہے کہ اس تنقید کا گرداب مودی کے سیاسی مستقبل کو ڈبو دے گا۔ مودی نے عالمی تنہائی سے نکلنے کے لیے ایک سفارتی مہم شروع کی ہے، جس میں کانگریس کے رہنماششی تھرور اور حیدر آباد کے مسلم سیاسی لیڈر اسد الدین اویسی شامل ہیں، لیکن پاکستان نے بھی اِس ضمن میں ایک وسیع البنیاد اور موثر سفارت کاری شروع کر رکھی ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخی گہرائی اور وسعت بیکراں ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کا آغاز 15 اگست 1947 کو اس وقت ہوا جب امریکی صدر ہیری ٹرومین نے بانی پاکستان کو ایک مخلصانہ خط کے ذریعے دوستانہ روابط کی بنیاد رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اب پاک امریکا تعلقات کا نیا دور مضبوط اقتصادی تعاون سے عبارت ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان تزویراتی شراکت داری باہمی مفادات اور خطے کے استحکام پر مبنی ہوگی۔
صدر ٹرمپ نے نہ صرف ایپل کمپنی کو بھارت میں سرمایہ کاری سے روک دیا بلکہ ہدایت کی کہ وہ امریکا میں صنعت لگائے تاکہ مقامی معیشت کو فروغ ملے۔ اس کے برعکس انھوں نے پاکستان کے ساتھ کاروباری تعلقات بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا اور پاکستانی قوم کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ امریکی صدر پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت، امن کے قیام میں کردار اور بین الاقوامی امور میں متوازن رویے کو سراہ رہا ہے۔
افغان امن عمل میں پاکستان کی کوششوں کو واشنگٹن میں بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ’’ پاکستان ایک اہم جغرافیائی اور اسٹرٹیجک پارٹنر ہے جس کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔‘‘ یہ بیانات محض وقتی سیاسی تقاریر نہیں بلکہ ان کے پیچھے عالمی سیاسی منظر نامے میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلیاں کارفرما ہیں۔
بھارت کی داخلی انتہا پسند پالیسیوں، مذہبی اقلیتوں کے خلاف جارحیت اور پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی نے امریکا کو مجبورکیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں توازن قائم رکھنے کے لیے پاکستان کو دوبارہ سنجیدگی سے لے۔ اسی طرح پاکستانی سیاسی قیادت کو بھی مثبت انداز میں پیش کیا گیا، جو ایک طویل عرصے کے بعد کسی امریکی صدرکی جانب سے پذیرائی کا مظہر ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوری، عسکری اور سفارتی قیادت بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
ٹرمپ کی طرف سے پاکستانی مصنوعات کی تعریف نہ صرف ہماری صنعت کے لیے اعزاز ہے بلکہ یہ ایک اقتصادی موقع بھی ہے جس سے فائدہ اٹھانا ہماری حکومتی اور نجی شعبے کی ذمے داری ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’ پاکستانی صنعت کار اور کاریگر اپنی محنت، خلوص اور معیار سے دنیا میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ عالمی برادری میں پاکستان کے اقتصادی امیج کو ایک نیا رنگ دیتا ہے۔
پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو برآمدات کا سب سے بڑا شعبہ ہے، آج امریکا، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں انتہائی مقبول ہے۔ ہماری کاٹن، بیڈ شیٹس، ہوم ٹیکسٹائل اور اسپورٹس ویئر کی وہ اقسام جو فیصل آباد،کراچی اور لاہور میں بنتی ہیں، بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہیں۔ سیالکوٹ کے سرجیکل آلات،گوجرانوالہ اور وزیرآباد کی کٹلری اور پاکستان کا اسپورٹس سامان، یہ سب امریکا اور یورپ کی بڑی بڑی کمپنیوں کے لیے معیار کی علامت بن چکے ہیں۔ پاکستان کے آم، کینو، باسمتی چاول اور مصالحہ جات بھی امریکی منڈیوں میں پسند کیے جاتے ہیں۔
اگر تجارتی تعلقات میں بہتری آتی ہے تو پاکستانی برآمدات کو امریکا میں نئی راہیں مل سکتی ہیں، جس سے معیشت کو غیر معمولی سہارا ملے گا۔ ثقافتی تبادلے، تعلیمی وظائف، تحقیقاتی اشتراک اور IT کے میدان میں باہمی تعاون کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں، اگر پاکستان اپنے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم، ٹیکنالوجی اور مہارت میں خود کفیل بنانے پر توجہ دے تو امریکا جیسی بڑی منڈی پاکستان کے لیے معاشی انقلاب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات صرف وقتی مفادات یا سیاسی شعبدہ بازی نہیں بلکہ بین الاقوامی سفارت کاری میں بدلتے رجحانات کا پتہ دیتے ہیں۔ امریکا اگر بھارت سے مایوس ہو کر پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے تو یہ ہماری کارکردگی کا نتیجہ ہے اور ہمیں اس پر شکر گزار ہونے کے ساتھ ساتھ سنجیدہ بھی ہونا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفاد کو ہر معاملے میں مقدم رکھے، دوستیاں کرے مگر عزت و وقار کے ساتھ۔ اعتماد کی جو شمع دوبارہ روشن ہو رہی ہے، اسے حکمت، وقار اور مستقل مزاجی کے ساتھ فروغ دینا ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔ پاکستان اب دنیا کے نقشے پر ایک مؤثر، باعزت اور فیصلہ کن طاقت کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی پیغام ہمیں دنیا کو دینا ہے۔
امریکا کی اس نئی سوچ کا جواب پاکستان کو نہایت دانشمندی اور بالغ نظری سے دینا ہو گا۔ ہمیں داخلی استحکام، ادارہ جاتی مضبوطی، شفافیت اور بدعنوانی کے خلاف عملی اقدامات کے ذریعے ایک قابلِ بھروسہ ریاست کا تاثر قائم رکھنا ہوگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں بین الاقوامی سطح پر اپنی سفارتی ٹیموں کو فعال بنانا ہوگا تاکہ یہ موجودہ موقع کو دیرپا مفاد میں بدل سکیں۔
دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید بہتر بنایا جائے گا، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف قربانیاں دیں بلکہ ملکی معیشت اور عوام کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے یہ رابطہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط کا غماز ہے اور آیندہ دنوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو ایک نئی سمت دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
بلاشبہ پاکستان نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے جنگی اور سفارتی محاذ پر بے پناہ کامیابی حاصل کی ہے حکومت اب داخلی سطح پر اکانومی کو بہتر بنانے کے لیے سرگرداں ہے اور اِس ضمن میں اگلے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ عید کی چھٹیوں کے فوری بعد بجٹ پیش کیاجائے گا لیکن لگتا ہے کہ حکومت بہت سے ترقیاتی فیصلوں کو موخر کرے گی جب کہ عالمی مالیاتی اداروں کی توقعات سے بڑھ کر جی ڈی پی کی شرح افزائش کا ہدف مقرر کیا جا رہا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ حکومت اپنے معاشی اہداف کے لیے بجٹ میں کیا پالیسیاں اپناتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق حالیہ پالیسی، بیانات اور اشارے ایک ایسے نئے دورکی شروعات کا پتہ دے رہے ہیں جس میں پاکستان کو محض ایک ضمنی کردار نہیں بلکہ ایک حقیقی شراکت دار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے مستقبل کی جانب اعتماد کے ساتھ بڑھیں۔سی پیک کی صورت میں پاکستان پہلے ہی چین کے ساتھ ایک مضبوط اقتصادی راستہ اختیار کر چکا ہے، اب اگر امریکا کے ساتھ بھی معاشی تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو پاکستان کے لیے ایشیا کے مرکز میں ایک ’’بزنس حب‘‘ بننے کے امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی دہشت گردی کے میں پاکستان پاکستان کو پاکستان کی امریکی صدر پاکستان کے پاکستان نے نہیں بلکہ کا اظہار کے خلاف کے ساتھ کے لیے رہا ہے ہے اور
پڑھیں:
پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-4
محمد مطاہر خان
پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔
اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔
وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔
بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔